ایم کیو ایم پاکستان ملٹی پارٹیز کانفرنس کی بساط بچھانے میں ناکام
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
ایم کیو ایم پاکستان نے ملٹی پارٹیز کانفرنس کی بساط بچھانے کی کوشش تو پوری کی تھی لیکن دوسری جماعتوں کی عدم دلچسپی کے باعث یہ ممکن نہ ہو پایا، حالانکہ جن جماعتوں سے رابطہ کیا گیا تھا انہوں نے شرکت کی حامی بھی بھرلی تھی لیکن بعد میں انہوں نے ایک ایک کرکے معذرت کرلی اور یوں یہ کانفرنس انعقاد پذیر نہ ہوسکی البتہ اتنا ضرور ہوا کہ مہاجروں کی سیاست کرنے والی جماعتوں کی قیادت کے باہمی رابطے ہوگئے اور ڈاکٹر فاروق ستار، مصطفی کمال اور آفاق احمد کانفرنس میں اکٹھے بیٹھنے پر تیار ہوگئے تھے، کیا معلوم یہ رابطے آگے چل کر کسی اتحاد کی شکل اختیار کرلیں۔ یہ بھی ممکن تھا کہ اس طرح ملنے ملانے سے مستقبل میں زیادہ قریب آنے کی راہ ہموار ہو جاتی۔ ویسے تو ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفی کمال کے درمیان لفظی جنگ جاری تھی اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار دل کھول کر کر رہے تھے۔ مصطفی کا کمال یہ ہے کہ وہ جب سے بیرون ملک سے آئے ہیں اور اپنی جماعت بنانے کا اعلان کیا ہے بھلے سے وہ اپنے بعض دعووں کو سچ ثابت نہیں کرسکے لیکن انہوں نے خوف اور دہشت کی اس فضا کو تو بڑی حد تک ختم کرنے میں معاونت کی جس کی چادر کراچی میں ہمہ وقت تنی رہتی تھی۔ انہوں نے بانی متحدہ کے بارے میں کھل کر اظہار خیال کیا جس سے اور لوگوں کو بھی زبان کھولنے کا حوصلہ ہوا، انیس قائم خانی ان کے ساتھ ہیں۔ کانفرنس کا اہتمام ایم کیو ایم پاکستان نے کیا تھا جس میں مصطفی کمال کی پارٹی پاک سرزمین اور آفاق احمد کی مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) بھی شریک ہونے والی تھیں۔ یہ تینوں جماعتیں مہاجروں کے نام پر سیاست کر رہی ہیں تاہم یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ان میں سے سب سے بڑی جماعت ایم کیو ایم پاکستان ہی ہے جس کی سربراہی ڈاکٹر فاروق ستار کرتے ہیں تمام ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ بھی اسی جماعت میں شامل ہیں۔ جو لوگ پاک سرزمین پارٹی کا حصہ بننے کیلئے آمادہ ہوئے انہوں نے اپنی نشستیں چھوڑ دی تھیں اور ان پر ضمنی انتخابات ہوگئے تھے۔ پاک سرزمین پارٹی انتخابات میں کہاں کھڑی ہوگی، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ کراچی میں مہاجروں کے ووٹ کا کتنا حصہ لینے میں کامیاب ہوتی ہے، لیکن عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ مہاجروں کی تینوں جماعتوں کے درمیان اگر انتخابی اتحاد ہوگیا تو مہاجروں کا ووٹ تقسیم نہیں ہوگا اور وہ کسی نہ کسی متفقہ امیدوار کے حق میں ہی پڑے گا البتہ یہ دیکھنا ہوگا کہ تینوں جماعتوں کے درمیان اتحاد کا فارمولا کیا طے ہوتا ہے؟
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے انتخاب کے وقت ایم کیو ایم پاکستان نے اپنی امیدوار کو دستبردار کرایا اور ووٹ شاہد خاقان عباسی کو دیا۔ اس خیر سگالی کا جواب وفاقی حکومت نے کراچی اور حیدرآباد کیلئے ترقیاتی فنڈز کا اعلان کرکے کیا۔ دونوں شہروں کے میئروں کا تعلق ایم کیو ایم پاکستان سے ہے لیکن انہیں شکایت ہے کہ ان کے پاس شہروں کی ترقیاتی کیلئے فنڈز نہیں ہیں۔ صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ قانون کے مطابق جو فنڈ بلدیاتی اداروں کو ملنے چاہئیں وہ دیئے جا رہے ہیں اور اگر ان کا استعمال دانشمندی سے کیا جائے تو یہ فنڈز ترقیاتی منصوبوں کیلئے بہت کافی ہیں، لیکن میئر کراچی وسیم اختر بدستور فنڈزکی کمی کا شکوہ کرتے پائے گئے۔ اب وفاقی حکومت نے کراچی کی ترقی کیلئے جو 25 ارب روپے دینے کا اعلان کیا ہے اس کی نگرانی گورنر سندھ کے سپرد کی گئی ہے جبکہ ایم کیو ایم کا موقف یہ ہے کہ یہ فنڈز میئر کی وساطت سے خرچ ہونے چاہئیں۔ اگر تو مقصود کراچی کی ترقی ہے تو فنڈز گورنر خرچ کرے یا میئر، یہ مقصد حاصل ہو جائے گا لیکن اگر ترقی ثانوی چیز ہے اور فنڈز کا تصرف میں ہونا اولین ترجیح ہے تو بات دوسری ہے البتہ حیدرآباد میں وفاقی فنڈ میئر کی وساطت سے ہی خرچ ہوں گے۔اگر یہ فنڈز دیانتداری سے خرچ ہو جائیں گے تو دونوں شہروں کا ناک نقشہ درست ہوسکتا ہے خصوصاً کراچی کی حالت بہت بہتر بنائی جاسکتی ہے۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے جب سے اپنے راستے ایم کیو ایم لندن سے الگ کئے ہیں بعض حلقوں کی جانب سے ان کے اس اقدام کو سیاسی چال قرار دیا جاتا رہا ہے، یہاں تک کہ مصطفیٰ کمال بھی تواتر سے کہتے رہے ہیں کہ ’’اصل میں دونوں ایک ہیں‘‘ اور اختلافات کا ڈرامہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے رچایا جا رہا ہے۔ مصطفی کمال غالباً یہ بات اس لئے کہتے رہے ہیں کیونکہ انہوں نے بانی متحدہ کے بارے میں جو جارحانہ لہجہ اختیار کئے رکھا وہ ایم کیو ایم پاکستان کے کسی دوسرے رہنما نے اس طرح نہیں اپنایا۔ اس سے اس شبہے کو تقویت ملتی رہی کہ شاہد آگے چل کر دونوں کے راستے پھر مل جائیں، لیکن بانی متحدہ کی متنازعہ تقریر کے بعد انہوں نے فرسٹریشن کے عالم میں جو رویہ اختیار کیا اور خاص طور پر 14 اگست کو جس خبث باطن کا مظاہرہ کیا اس کے بعد نہیں لگتا کہ ایم کیو ایم پاکستان دوبارہ اس بوجھ کو اپنے کندھوں پر لادنا پسند کرے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اگلے عام انتخابات میں ان کے درمیان کوئی اتحاد ہوگا اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا البتہ ان تمام جماعتوں کو یہ احساس ضرور ہے کہ مہاجر ووٹ تقسیم ہونے کا نقصان انہیں ہی ہوگا اور اس کا فائدہ اٹھا کر مخالف امیدوار جیت سکتے ہیں اس لئے عین ممکن ہے یہ خوف ان کے درمیان اتحاد کی کوئی صورت پیدا کردے۔