ووٹ سے پہلے امیدوار ن لیگ اور پیپلز پارٹی کیلئے ’مسئلہ ‘ بن گئے ، زردار ی نے خود ’کمر ‘ کس لی

ووٹ سے پہلے امیدوار ن لیگ اور پیپلز پارٹی کیلئے ’مسئلہ ‘ بن گئے ، زردار ی نے ...
ووٹ سے پہلے امیدوار ن لیگ اور پیپلز پارٹی کیلئے ’مسئلہ ‘ بن گئے ، زردار ی نے خود ’کمر ‘ کس لی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) عام انتخابات زیادہ دور نہیں لیکن دونوں بڑی سیاسی جماعتیں، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو نئی مشکلات کا سامنا ہے۔ پیپلز پارٹی کیلئے اندرون سندھ مسائل پیدا ہو رہے جبکہ مسلم لیگ ن پنجاب کے محاذ پر پریشان ہے۔ نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن انتخابی سرویز میں آگے جا رہی ہے اس لئے سیاستدانوں خیال ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن الیکشن جیتے گی اس لئے مسلم لیگ ن کے پاس ٹکٹ لینے والوں کی لمبی قطار لگی ہوئی ہے جس کی وجہ سے تنظیمی مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور پارٹی اس پریشانی میں مبتلا ہے کہ الیکشن لڑنے کیلئے ٹکٹ کس کو دیا جائے اور کس کو منع کیا جائے، اس مسئلے کے حل کیلئے پارٹی سربراہ نواز شریف اور پارٹی قیادت پچھلے کئی دنوں سے صلاح مشورے میں مصروف نظر آتی ہے۔ جیو نیوز کے تجزیہ کار عرفان صدیقی کے مطابق مسلم لیگ ن کا یہ تاثر ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ حکومت بنانے جا رہی ے اس لئے اس کے پاس ٹکٹ حاصل کرنے والوں کا رش ہے، شہری حلقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہیں ٹکٹ مل گیا اور انہیں شخصی ووٹ نہ ملے تو وہ پارٹی ووٹ سے بھی جیت جائیں گے تاہم دیہات میں صورتحال کافی مختلف ہوتی ہے کیونکہ پارٹی ووٹ کے ساتھ ساتھ شخصی ووٹ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور زیادہ تر امیدوار شخصی ووٹوں کی بنیاد پر کامیابی حاصل کرتے ہیں، بہت سے لوگ دوسری پارٹیوں سے نکل کر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرنا چاہتے تھے تاہم مسلم لیگ ن کی جانب سے اس بات پر غور کیا گیا کہ اگر ہم تمام لوگوں کو پارٹی میں شامل کر لیتے ہیں تو کیا انہیں ٹکٹ بھی دے سکتے ہیں یا نہیں؟ ایسے حلقے جہاں سے پچھلے انتخابات میں مسلم لیگ ن فتح حاصل نہیں کر سکی تھی وہاں تو نئے لوگوں کو شامل کر لیا گیا ہے لیکن جن حلقوں پر پارٹی کارکن جیتا ہوا ہے اور آئندہ بھی جیتنے کی امید ہے وہاں مسلم لیگ ن نئے آدمیوں کو لینے سے گریز کر رہی ہے۔ بہت سے شہروں میں پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے لوگ مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرنا چاہتے تھے تاہم مسلم لیگ ن نے صرف اس وجہ سے معذرت کر لی کہ ان کے پاس پارٹی ٹکٹ دینے کی گنجائش نہیں ہے۔ جیو نیوز کے مطابق اندرون سندھ میں پیپلز پارٹی کو بھی ن لیگ جیسی صورتحال درپیش ہے جہاں اس کے پاس امیدواروں کی ایک قطار موجود ہے اور اس کی بڑی وجہ پیپلزپارٹی کی حالیہ دنوں میں نئے سیاستدانوں کو شمولیت کی دعوت ہے جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو طویل عرصے سے پیپلز پارٹی کے مخالفین سمجھے جاتے رہے ہیں لیکن ان لوگوں کو صرف اس وجہ سے پیپلزپارٹی میں شامل کیا گیا ہے کہ وہ اپنے حوالے سے، علاقے کے حوالے سے، برادری اور اپنی جاگیرداری کے حوالے سے انتخابات جیتنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی پارٹی میں شمولیت اور انتخابات لڑنے کیلئے ٹکٹ دینے پر پیپلز پارٹی کے دیرینہ رہنماءاور کارکن ناراض نظر آتے ہیں جبکہ اس ضمن میں سندھ کے کئی شہروں میں احتجاج بھی ہوئے ہیں۔ یہ مسائل حل کرنے کیلئے صدر مملکت آصف علی زرداری براہ راست کردار ادا کریں گے
 اور آئندہ چند روز لاڑکانہ میں رہ کر مسائل حل کریں گے۔ جیو نیوز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی ان معاملات کی وجہ سے ابھی تک ٹکٹ ہولڈرز کے ناموں کا اعلان نہیں کر سکی ہے اور اس ضمن میں پارٹی رہنماﺅں کا اجلاس ایک ہفتے سے جاری ہے اور بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ پیپلزپارٹی میں نئے آنے والے سیاستدان پرانے رہنماﺅں پر حاوی ہیں جس کی بڑی مثال ٹھٹھہ میں قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں شیرازی برادری اور ایک نشست اویس مظفر ٹپی کو دیئے جانے کی ہے۔ نوشہرو فیروز ڈسٹرکٹ میں بھی مسلم لیگ ق کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے سرفرار شاہ اور ابرار علی شاہ کو ٹکٹ دیئے گئے ہیں۔ ضلع گھوٹکی میں قومی اسمبلی کی نشست جس پر میاں مٹھو امیدوار تھے وہ خالد کو دے دی گئی ہے جبکہ دوسری نشست مہر برادران کو دے دی گئی ہے جس پر پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا۔ ٹنڈو جام میں شرجیل میمن کو ٹکٹ دیا گیا جس پر مسلم لیگ ق چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے شیر محمد تالپور نے احتجاج کیا۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماءخورشید شاہ سکھر سے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن میں حصہ لینا چاہتے تھے اور اپنے بھتیجے اویس شاہ کو بھی پارٹی ٹکٹ دلوانا چاہتے ہیں لیکن پارٹی کی جانب سے ٹکٹ نہ ملنے پر وہ بھی مایوس نظر آئے اور اسی وجہ سے وہ پارٹی قیادت کے اجلاس سے بھی اٹھ کر چلے گئے تھے۔

مزید :

قومی -