امت ِ مسلمہ کی عدالتی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر
قارئین کرام! پاکستان میں بسنے والا ہر باسی یہ جانتا ہے کہ12اکتوبر1999ءکو بندوق کی نوک پر ایک منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر10 برس تک نشہ ¿ اقتدار میں سرشاررہنے والے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو آج کل پاکستان کے آئین سے غدّاری جیسے سنگین نوعیت کے مقدّمے کا سامنا ہے۔ اس میں بھی کسی کو کوئی شک نہیں کہ اس وقت ملک میں آزاد عدلیہ کے وجود کے باعث باز پرس اور احتساب کی جو فضا طاری ہے، اس کو ہموار کرنے میں۔۔ نمبر 1 : وکلاءبرادری ، ۔۔ نمبر 2: اخبارات ، ۔۔ نمبر3:بے داغ سیاست دان ، ۔۔ نمبر 4 : الیکٹرانک میڈیا ۔ نمبر 5 : سول سوسائٹی کا بھرپور تعاون اور اس کا تاریخی کردار انتہائی قابلِ تحسین ہے۔ اس فائیو سٹار مجموعے کی یکجہتی اور کوشش کے نتیجے میں ہی تحریک آزاد عدلیہ بار آور ہوئی تھی اور اب اسی آزاد عدلیہ کی بدولت جنرل (ر)پرویز مشرف کے باضابطہ طور پر قانونی گرفت میں دھر لئے جانے کے امکانات واضح اور روشن ہیں، لیکن اس سلسلے میں پرویز مشرف کے مقرر کردہ فاضل وکلاء کی طرف سے توہینِ عدالت پر مبنی ایک سے زیادہ بار جو روش سامنے آئی ہے، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ کوئی خفیہ ہاتھ بڑی مہارت کے ساتھ ہماری آزاد عدلیہ کے وقار کو ٹھیس پہنچانے کی سازش میں مصروف ہے۔
بہر حال اس وقت جو منظر پاکستان کی تاریخ میں رقم ہو رہاہے، اس کی صورت کچھ ایسی ہے کہ پرویز مشرف کے وکلاءانتہائی گھبراہٹ کے عالم میں ہیں، جو طرح طرح کی قانونی موشگافیوں کے ذریعے پے در پے تاخیری حربے استعمال کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں مصروف ہیں۔ ان کے بعض بیانات سے تو ایسالگتا ہے کہ وہ پرویزمشرف کو قانون کی گرفت سے بچانے کے لئے جمہوریت کی بساط لپیٹ دینے والے کسی معجزے کے منتظر ہیں،لیکن انہیں شاید معلوم نہیں کہ اب عوام اس قدر بے وقوف نہیں رہے.... عوام اس امر کو خوب سمجھتے ہیںکہ پرویز مشرف کے وکلاءاپنی پیشہ ورانہ ضروریات کے تحت غلط کو صحیح ثابت کرنے کے لئے کسی انہونی کے منتظر ہیں، بعض اہل الرائے کے نزدیک ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ضرور کوئی خفیہ ہاتھ عدلیہ کو نیچا دکھانے میں مصروف ہے، چنانچہ ان حالات میں وکلاء، سول سوسائٹی اور بے داغ سیاست دانوں سے ہماری عاجزانہ درخواست ہے ، جن کے اتحاد اور اتفاق ہی کی بدولت عدلیہ کا وقار بحال ہوا تھا اور جن کی پامردی سے ملک میں جمہوریت کا بول بالا ہوا تھا، اب عدلیہ کو بے وقار اور جمہوریت کی بساط کو متاثر کرنے کی ان مذہوم کوششوں کی روک تھام کے لئے ایک بار پھر ہم سب کو اتحاد و یگانگت کی فضا رکھنے کی پہلے سے بھی کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
ہمیں یاد ہے اعتزاز احسن نے، جو ملک کے مایہ ناز قانون دان ہیں، نے جیو ٹی وی ایک پروگرام میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت سربراہ مملکت کو کسی صور ت میں قانون کی گرفت میں لاکر عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا،اگرچہ وہ بندوق اُٹھا کر لوگوں پر گولیاں بھی چلادے۔خدا کا شکر ہے کہ ساتھ ہی انہوں نے یہ رہنمائی بھی فرما دی تھی کہ منصب سے علیحدگی کے بعد عدالت میں اس پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ بہر حال مذکورہ بالا حیرت ناک منطق اور فلسفہ سراسرقانونِ فطرت اور عدل و انصاف کے منافی ہے۔ ہم چونکہ مسلمان ہیں اور اسلام عین دین ِ فطرت ہے اسلام میں سربراہ مملکت سمیت کسی بھی عہدےدار اور معاشرے کی بڑی شخصیت کو کسی بھی صورت میں عدالت کی حاضری سے مستثنیٰ نہیں کیا گیا، بلکہ اسلامی معاشرے میں ہر فرد کا کسی بھی وقت محاسبہ کیا جا سکتا ہے۔اسلام ہمارا دین ہے اور اس میں کوئی ابہام نہیں کہ پاکستان اسلام ہی کے نفاذ کے لئے حاصل کیا گیا تھا، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے دستور میں قرآن و سنت کو نمایاں مقام حاصل ہے۔
قارئین کرام! آج کل کے حالات کے تناظر میں ہم آپ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارا دین ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے اور مسلم امت کی عدالتی تاریخ کن روایات اور کس رویے کے حامل و علمبردار ہے؟....تاریخ اسلام کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی عدالتوں نے نہ صرف وقت کے حکمرانوں کو عدالت میں طلب کیا.... بلکہ عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ان کے خلاف فیصلے بھی صادر فرمائے، جن کو ان حکمرانوںنے نہ صرف خندہ پیشانی سے قبول کیا، بلکہ اسلامی عدالتوں کے عدل و انصاف پر مبنی ان فیصلوں کی توصیف و تعریف بھی فرمائی .... یہی وجہ تھی کہ ان فیصلوں سے متاثر ہو کر بے شمار غیر مسلموں کو مشرف بہ اسلام ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اسلامی نظام ِ عدالت اور اسلامی عدالت کے عدل و انصاف پر مبنی شاندار فیصلے بلاشبہ تاریخ اسلام کے ماتھے کا جھومر اور رہتی دنیا تک کے لیے مشعل راہ ہیں۔قرآن کریم میں کئی جگہ اﷲ کریم نے عدل و انصاف کرنے کا اور حق کا ساتھ دینے کا حکم فرمایا ہے....سورہ¿ مائدہ کی آیت 42میں اﷲ کریم فرماتے ہیں: ”اور اگر آپ ان لوگوں کے درمیان کوئی فیصلہ کریں تو انصاف کے ساتھ کریں۔ بے شک اﷲ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے“۔سورہ¿ مائدہ کی آیت8 میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے: ”اے ایمان والو! تم اﷲ تعالیٰ کے حق پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے ہو اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو.... عدل ہی کرنا، یہی بات تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ اور اﷲ تعالیٰ ہی سے ڈرنا.... بے شک جو کچھ تم کرتے ہو .... اﷲ اس سے خوب آگاہ ہے“ ۔
سورہ¿ شوریٰ میں ارشاد ہوتا ہے:” اور کہہ دیجیے! اﷲ تبارک و تعالیٰ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے.... مَیں اس پر ایمان لایا ہوں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ مَیں تمہارے درمیان عدل کروں“....سورة النحل کی آیت نمبر90میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”بے شک اﷲ تبارک و تعالیٰ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے“.... مذکورہ بالا ان تمام آیاتِ کریمہ سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ فیصلہ کرتے وقت حکمران.... قاضی.... یا ثالث پر عدل اور انصاف کرنا فرض ہے.... جس میں ذاتی پسند و ناپسند کو ہر گز دخل نہیںہونا چاہیے.... خواہ وہ فیصلہ اپنے کسی قریبی رشتہ دار اور دوست وغیرہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو.... نیز فریقین میں سے جو حق پر ہو، اس کے حق میں فیصلہ کردیا جائے.... اور کسی قسم کے دبا¶ یا مصلحت کو قبول نہ کیا جائے .... خواہ وہ فیصلہ سربراہ مملکت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو.... کیونکہ اسلامی نظام عدل میں تمام انسان برابر ہیں، اور سربراہِ مملکت اور ایک عام مزدور میں کوئی فرق نہیں ہے۔
یہ ہمارا جزوِ ایمان ہے کہ دنیا میں سب سے عظیم ترین ہستی سیدالاوّلین والآخرین محمدﷺ کی ہے۔ آپ نے بذات خود اپنے آپ کو بھی اور اپنے اہل و عیال کو بھی اس نظام عدل سے بالاتر نہیں سمجھا.... بلکہ ایک موقع پر اپنے آپ کو صحابہ کرامؓ کے سامنے پیش کرتے ہوئے فرمایا: اگر کوئی شخص مجھ سے بدلہ لینا چاہتا ہے تو لے لے“۔ .... چنانچہ صحابہ کرامؓ میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا: یا رسول اﷲ ! ایک بار آپ نے مجھے چھڑی ماری تھی۔مَیں اُس کا بدلہ لینا چاہتا ہوں .... نبی کریمﷺ نے اُسے بدلہ لینے کی اجازت دے دی.... اُس صحابی نے کہا کہ: ”یا رسول اﷲ! جب آپ نے مجھے چھڑی ماری تھی تو اُس وقت میرے جسم پر کپڑا نہیں تھا۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے اپنی قمیض اُتار دی اور فرمایا کہ :”لو اب بدلہ لے لو“ ۔ تب وہ صحابی ؓ آپ کے جسم کے ساتھ چمٹ گیا اور بوسے لینے لگااور کہا کہ اے اﷲ کے رسول!(ﷺ) میرا تو مقصد دراصل یہ تھا.... ( بحوالہ السنن کبریٰ۔ از امام بیہقی: 8/48)
نبی کائناتﷺ کو اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ بہت محبوب تھیں، لیکن عدل وا نصاف کی فراہمی کے لئے بطورخاص ان کی مثال دیتے ہوئے آپ نے ایک ایسا جملہ ارشاد فرمایا جو تاریخ عدل کا ایک درخشندہ فرمان ہے۔ ام المومنین سیدہ عائشہؓ اس واقعہ کو یوں روایت فرماتی ہیں کہ قبیلہ ¿ بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کر لی، اس کا جرم ثابت ہو گیا.... چنانچہ نبی کریمﷺ نے اس عورت کا ہاتھ کاٹ دینے کا حکم جاری کردیا.... قبیلے والوں نے سوچا کہ اگر اس عورت کا ہاتھ کٹ گیا تو ہماری ناک کٹ جائے گی .... اور ہم تمام قبائل میں رسوا ہو جائیں گے، چنانچہ انہوں نے نبی ¿ کریمﷺ کے محبوب سیدنا اسامہ بن زید ؓ کو سفارشی بناکر بھیجا کہ اس عورت کا جرم معاف کردیا جائے.... جب سیدنا اُسامہ ؓ نے آپ سے اُس کی سفارش کی تو آپ نے فرمایا:” کیا تم اﷲ کی حدود میں سفارش کرتے ہو؟.... پھر نبی کریمﷺ کھڑے ہو گئے اور خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”تم سے پہلے لوگوں کو اسی چیز نے تباہ و برباد کردیا کہ جب اُن میں کوئی بڑااور طاقتور آدمی چوری کر لیتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی ضعیف اور کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کر دیتے تھے۔ اﷲ کی قسم! اگر فاطمہؓ بنت محمدﷺ بھی چوری کرلیتی تو مَیںاُس کا ہاتھ کاٹ دیتا“۔ (بحوالہ صحیح بخاری و مسلم)
قارئین کرام! اسلام کی نامور ہستیاں اورعشرہ مبشرہ بھی اپنے آپ کو قانون سے بالاتر خیال نہیں کرتے تھے، نہ ہی خلفائے راشدین نے اپنے آپ کو اس نظام عدل سے کبھی بالاتر سمجھا۔ اور نہ ہی اپنی ذات کو قانون اور شریعت سے کبھی مستثنیٰ رکھا.... کیونکہ قرآن و سنت میں اس کا کوئی تصور نہیں .... ایک موقع پر امیر المومنین سیدنا عمر بن خطابؓ نمازِ جمعہ کے لئے صاف ستھرے کپڑے پہن کر جا رہے تھے۔ جب سیدنا عباسؓ کے گھر کے پاس سے گزرے تواُن کے گھر کے پرنالے سے گرنے والے پرندوں کے خون سے ان کے کپڑے خراب ہوگئے.... (یاد رہے) اس وقت حضرت عباسؓ کے لئے ان کے بھائی، گھر کی چھت پر چند پرندے ذبح کرنے کے بعد چھت کو پانی سے دھو رہے تھے.... امیر المومنین حضرت عمرؓ نے اس پَرنالے کو اُکھاڑنے اور بند کرنے کا حکم دے دیا.... اور گھر واپس لَوٹ گئے اور متبادل کپڑے پہن کر آئے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ ازاں بعد سیدنا عباسؓ امیر المومنین سیدنا عمرؓ کے پاس آئے اور کہا: اﷲ کی قسم! یہ پرنالہ نبی کریمﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے اس جگہ لگایا تھا.... سیدنا عمر ؓ نے یہ سنتے ہی حضرت عباسؓ کو قسم دیتے ہوئے کہا کہ تمہیں قسم ہے کہ اب تم میری کمر پر چڑھ کر اس پَرنالے کو وہیں نصب کرو، جہاں سے اُکھاڑا گیا ہے، چنانچہ چشم فلک نے دیکھا کہ سیدنا عباس ؓ نے حضرت عمرؓ کی کمر پر چڑھ کرپرنالہ دوبارہ وہیں نصب کیا.... (بحوالہ مسند احمد بن حنبل)
ایک موقع پر سیدنا عمرؓ اور سیدنا اُبی بن کعبؓ کے درمیان کسی شے پر اختلاف ہو گیا۔ ان دونوں صحابہ کرام ؓ نے سیدنا زید بن ثابتؓ کو منصف مقرر کر لیا .... کہ جو وہ فیصلہ کریں گے، وہ ہمیں قبول ہے، چنانچہ یہ دونوں صحابہ کرامؓ سیدنا زید بن ثابتؓ کے گھر گئے اور ان کے سامنے اپنا کیس رکھا۔ سیدنا زید بن ثابتؓ نے امیر المومنین سیدنا عمرؓ کے احترام میں اُنہیں اپنے ساتھ اپنے بسترپر بٹھانا چاہا.... مگر امیر المومنین حضرت عمرؓ نے انکار کردیا اور کہا کہ مَیں اپنے فریق کے ساتھ ہی بیٹھوں گا، چنانچہ دونوں صحابہ کرام( یعنی مدّعی اور مدّعا علیہ) سیدنا ثابتؓ کے سامنے بیٹھ گئے.... سیدنا ابی بن کعبؓ نے اپنا دعویٰ پیش کیا.... جبکہ سیدنا عمرؓ نے اس دعوے کو قبول کرنے سے انکار کردیا.... سیدنا زید بن ثابتؓ نے سیدنا ابی بن کعبؓ سے کہا کہ : آپ امیر المومنین سے درگزر فرمائیے اور اپنا دعویٰ واپس لے لیجیے.... شرعی ضابطے کے مطابق حضرت زیدؓ کو سیدنا عمر بن خطابؓ سے قسم لینی چاہیے تھی، لیکن انہوں نے احتراماً اس سے احتراز اور تا¿مّل کیا.... تو حضرت عمرؓ نے قسم اٹھا کر کہا: کہ اﷲ کی قسم، زید! تم اس وقت تک منصب قضا کے لائق نہیں ہو سکتے، جب تک تمہارے نزدیک امیر المومنین عمرؓ.... اور ایک عام مسلمان برابر نہ ہو۔.... (السنن الکبریٰ از بیہقی)....(جاری ہے)