گاہے گاہے باز خواں۔۔۔قیام پاکستان کے بعد پہلی بقر عید
27رمضان المبارک کو مملکتِ پاکستان وجود میں آئی۔ چار روز بعد عیدالفطر آئی، عید کا دوگانہ ہم نے دہلی کی جامع مسجد میں پڑھا۔ اس کے بعد دہلی میں فسادات کا سلسلہ شروع ہوا۔ جامع مسجد کے جنوب مغرب میں کباڑیہ مارکیٹ ہے اور اس سے ملحقہ مغرب کی جانب فلیٹس ہیں۔ ہم ان فلیٹس میں اپنے گھر چھوڑ کر آئے تھے۔ ساتھ سے سڑک چاؤڑی بازار سے ہوتی ہوئی حوض قاضی تک جاتی تھی۔ آگے لعل کنواں اور تھانہ لال کنواں ہے اس تھانے کے انسپکٹر کا نام داؤد خان تھا۔ اس کا اپنے علاقے میں اتنا رعب اور دبدبہ تھا کہ اس نے اپنے علاقے میں قتل وغارت نہیں ہونے دی۔ہندوؤں کے جتھے باہر نکلتے تھے، نعرہ بازی،ہلڑ بازی ہوتی تھی، پولیس کی نفری اور بعض اوقات گھوڑوں پر سوار آتے تھے اور ہنگامہ کرنے والے تتر بتر ہو جاتے تھے۔ البتہ پہاڑ گنج، سبزی منڈی اور دیگر شہر سے دور درازعلاقوں سے قافلے در قافلے جامع مسجد کی طرف آتے نظر آتے تھے ۔ کسی قافلے والے نے لاشیں اٹھارکھی ہیں، تو کسی نے زخمی کو، کسی نے بوڑھے ماں باپ کو کندھوں پر اُٹھا رکھا ہے، توکسی نے معصوم بچوں کو۔ چاؤڑی بازار پار کرتے ہی یہ تیز قدموں جامع مسجد میں گھسنے کی کوشش کرتے تھے۔ ہمارے مرد اور عورتیں یہ تکلیف دہ مناظر فلیٹس کی بالکونی سے دیکھتے تھے۔ فلیٹس اور جامع مسجد کے درمیان گرین بیلٹ تھی۔ اب معلوم نہیں وہ ہے یا نہیں ہے۔ اس گرین بیلٹ میں میرے بڑے بھائیوں نے فرسٹ ایڈ کا انتظام کیا ہوا تھا۔ کچھ زخمیوں کو یہیں طبی امداد مل جاتی تھی، زیادہ زخمیوں کو سامنے ہی سول ہسپتال تھا وہاں سب مل کر پہنچاتے تھے۔ سُنا ہے اب یہ سول ہسپتال بھی ختم ہو گیا ہے۔ محلہ کوچہ استاد حامد اور جامع مسجد کے درمیان یہ سول ہسپتال واقع تھا۔
بقر عید آنے سے پہلے میرے ایک بڑے بھائی اور کچھ عزیز اوقارب، جن میں میری خالہ کا گھرانہ بھی تھا۔ سپیشل ٹرین سے لاہور پہنچ گئے۔ لاہور میں یہ لوگ نیلا گنبد، انار کلی اور انار کلی میں کوچہ لکشمی نرائن میں آباد ہوئے۔ کوچہ لکشمی نرائن میں سمیع الدین قریشی کا گھرانہ پانی پت سے آ کر آباد ہوا۔ اس طرح ان کے لوگ اور ہمارے لوگ پڑوسی بن گئے۔ بقول سمیع الدین قریشی ہندو مسلم فسادات میں جن کا وقت آیا تھا وہ جام شہادت نوش کر گئے۔ بچنے والے گلی کوچوں میں بھی بچ گئے،جلسہ جلوسوں میں بھی بچ گئے اور کٹنے والی ریل گاڑیوں میں بھی بچ گئے۔ ہمارے عزیز اوقارب بھی شہید ہوئے اور سمیع الدین کا گھرانہ خاندان کے 19افراد کی شہادت کے بعد لاہور پہنچا۔ سمیع الدین کے والد شمس الدین برٹش آرمی میں رسالدار تھے، ان کے بھائی بھی فوج میں تھے اور دونوں بھائیوں نے جنگ عظیم لڑ کر گریٹ وار کے تمغے حاصل کئے۔ حکومتِ وقت کے لئے قربانیاں دینے والا گھرانہ تمغے دکھا کر نہ بچ سکتا تھا اور نہ بس سکتا تھا۔ اب تو جوکام بھی ملے، روزی کمانا مقصود تھا۔
شب و روز کی اِسی کشمکش میں 9ذوالحج آ گئی، کوچہ لکشمی نرائن کے نئے مکینوں نے میرے بھائی، کچھ عزیزوں اور سمیع الدین کے گھرانے کے مردوں نے عید کی نماز لاہور کی بادشاہی مسجد میں پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ سب نے پہلی مرتبہ شاہی مسجد دیکھی۔ بلاشبہ دنیا کی سب سے بڑی مسجد دیکھی ، مسجد دیکھ کر خوشی بھی ہو رہی ہے، جن حالات سے گزر کر آئے ہیں اس کا دُکھ بھی ہے۔ ملے جلے جذبات کے ساتھ نماز ادا کی ،خطبہ سنا اور گِڑ گِڑا کر مستقبل کی خیرو عافیت طلب کی۔
اب لوگ واپس جانے کے لئے کھڑے ہوئے۔ کوئی جلد بازی کا بھی مظاہرہ کر رہا ہے۔ مین گیٹ پر ہجوم ہو گیا۔ دھکم پیل شروع ہو گئی۔ ہٹو بچو کی چیخ و پکار شروع ہوئی۔ لوگ ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ آوازیں بلند ہو رہی ہیں، ہوش کرو لوگ کچلے جا رہے ہیں؟ یہ گرا، وہ گرا، اِس کو اٹھاؤ، اُس کو اٹھاؤ۔ اب کوئی زخمی ہے، کوئی بے ہوش ہے، متاثرہ کو لے کر باہر بھاگ رہے ہیں، نیچے جاتے جاتے15، 20جنازے جمع ہو گئے، بھگدڑ مچنے کی کیا وجہ تھی۔ نظم و ضبط کیوں درہم برہم ہوا۔ نماز کے بعد لوگ شتر بے مہار کی طرح کیوں بھاگ پڑے۔ یہ لوگ تو ہندوستان میں فسادات سے لے کر اب تک بچتے ہی آ رہے تھے۔ دشمن سے بچ گئے، گھر میں بچ گئے، مسجد میں مارے گئے۔ ان میں تین جنازے سمیع الدین قریشی کے گھرانے کے تھے۔
کوچہ لکشمی نرائن سے نماز کو جانے والے تین جنازے لے کر واپس لوٹے۔ محلہ میں کہرام مچ گیا، گھر بھی لٹے، خوشیاں بھی لٹیں، اب تو سب کچھ ہی لٹ گیا۔ نماز کے بعد قربانی کے لئے کچھ نہیں تھا، گھر والوں کی قربانی دینا پڑی، نماز کے بعد کوئی مسکراہٹ میسر نہیں آئی، بلکہ عید کی نماز کے بعد نماز جنازہ کی تیاری شروع کرنا پڑی۔ جنازے اُٹھے، کوچہ لکشمی نرائن نہیں، پوری انار کلی رو رہی تھی۔ موت اس طرح آنا تھی، موت کا یہی وقت اور جگہ متعین تھی۔جب وقت آ جائے تو ایک لمحہ اِدھر نہ اُدھر۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جنگل کی آگ کی طرح خبر شہر میں پھیل گئی اور بھی علاقوں سے جنازے اٹھے۔ شہر سوگوار تھا، ہر طرف موضوع بحث یہی تھا۔ شاہی مسجد میں لوگ مارے گئے، پر کیوں مارے گئے؟ کوئی جواب نہیں ہے۔
ایک بھائی نے تو لاہور میں نمازِ عید بھی پڑھ لی اور محلہ والوں کے جنازے بھی پڑھ لئے۔ باقی ہم سب ابھی دہلی میں ہیں۔ ہم نے سامنے سڑک پار جامع مسجد میں نمازِ عید پڑھنی ہے، مگر وہاں تو ہزاروں لوگ پناہ گزین ہیں۔ حکومت حرکت میں آئی۔ مسجد خالی کرا لی لوگوں کو پرانے قلعہ اور ہمایوں کے مقبرے پہنچایا گیا۔ فائر بریگیڈ آئی، جامع مسجد کو صاف کیا گیا اور دھویا گیا۔ اب مسجد نمازِ عید کے لئے تیار ہے۔ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد نے نمازِ عید کے لئے جامع مسجد میں جمع ہوناہے۔یہ کہیں آس پاس کی ہندو آبادی پر حملہ آور نہ ہو جائیں یا ہندو ان پر حملہ آور نہ ہو جائیں۔ سب کو تحفظ پہنچانا مقصود ہے۔ گورکھا فوج نے ٹینکوں سے جامع مسجد کو گھیر لیا۔ مرد حضرات نمازِ عید ادا کرنے آ رہے ہیں۔ اس وقت میری عمر دس گیارہ سال ہو گی اور مَیں گھر کا سب سے چھوٹا فرد نماز میں اپنے بڑوں کے ساتھ شریک ہوا۔ نماز کا منظر، ٹینکوں کا منظر، خواتین فلیٹس کی بالکونی سے دیکھتی رہیں۔ ساتھ دُعا گو ہیں کہ سب نمازی خیرو عافیت سے اپنے اپنے گھروں کو جائیں۔ نماز اور خطبہ سے فارغ ہو کر واپسی شروع ہو گئی۔الحمد للہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ مَیں بھی دور سے گھر والوں کو ہاتھ ہلاتا ہوا چلا آ رہا تھا۔ ایک فریضہ تھا جو ادا کر لیا، نہ کسی کے چہرہ پر عید کی خوشی کا اظہار تھا، نہ قربانی کا کوئی تصور ممکن تھا۔ بقر عید پر تو سارا ماحول ہی سوگوار تھا، نہ اپنا گھر تھا، نہ قربانی کا جانور تھا، نہ قربانی کے حالات تھے۔ کپڑے بھی وہی پہنے، جو اتفاق سے دھوبی ہمیں فلیٹس پہنچا گیا تھا۔
جیسا مَیں نے پہلے بیان کیا کہ جن کی قسمت میں زندگی تھی وہ بچ کر بھی آ گئے۔ نیلا گنبد، انار کلی اور کوچہ لکشمی نرائن میں آباد ہونے والوں کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ نیلا گنبد میں محکم الدین بیکری کے ساتھ میری خالہ زاد بہن آپا سعیدہ مقیم ہوئیں۔ نچلی منزل میں ان کے جیٹھ کا بیٹا قیام پذیر تھے اور اوپر کی منزل آپا سعیدہ، ان کے خاوند اور بچے۔ ایک دن آپا سعیدہ کے خاوند گھر سے باہر تھے۔ ایک بچی اپنے تایا کے ساتھ نچلی منزل میں کھیل رہی تھی، آپا خود باقی بچوں کے ساتھ پڑوسن کو ملنے چلی گئیں۔ ہر فرد جہاں بھی ہے خیر اور اطمینان کا سانس لے رہا ہے۔ یکلخت ان کی رہائش گاہ زمین بوس ہو گئی۔ ہر طرف چیخ و پکار، سارے نیلا گنبد والے مدد کو دوڑ پڑے، گھر میں تو آپا کے جیٹھ،جیٹھ کا بیٹا اور آپا کی ایک بیٹی ہی تھی۔ جب مدد گاروں کی رسائی ان لوگوں تک ہوئی تو دونوں باپ بیٹا اللہ کو پیارے ہو چکے تھے اور اللہ کی شان دیکھئے اسی ملبے سے آپا سعیدہ کی طوطے سے کھیلتی بیٹی معہ طوطا زندہ سلامت نکل آئی جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔
اب نیلا گنبد سے آگے انار کلی چلتے ہیں۔ یہاں میری بڑی خالہ زاد بہن آپا آمنہ شیخ عنایت اللہ کے ساتھ والی گلی میں رہ رہی ہیں۔ ان کے جیٹھ اور بھائی روزگار کی تلاش میں کراچی کے لئے ریل گاڑی میں سوار ہوتے ہیں۔ نوزائیدہ پاکستان کا پہلا ریل کا حادثہ جنگ شاہی پر ہوتا ہے۔ بھائی اقبال کسی وجہ سے پچھلے ڈبے میں چلے گئے تھے، جس ڈبے میں یہ سفر کر رہے تھے وہ چکنا چور ہو گیا۔ بھائی اقبال نے بھائی فاروق کے جسم کے ٹکڑے چادرمیں جمع کر کے جنگ شاہی کی پہاڑی کے پہلو میں سپردخاک کر دیئے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون