دوستی کا عظیم سفر
پاکستان میں ’’را ‘‘کا جاسوس کل بھوشن یادیو پکڑا گیا۔ وہ بھارتی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے۔ وہ ویڈیو میں بتا رہا تھا کہ اسے خصوصی طور پر پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو سبوتاژ کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔اس منصوبے کے متعلق بھارتی حکومت اپنے تحفظات کا اظہار کر چکی ہے چونکہ یہ راہداری ایسے علاقے سے گزرتی ہے جو اس کے نزدیک متنازعہ ہے اس لئے اس منصوبے کو نہیں بننا چاہئے۔ اپنے اس موقف کا اظہار کرتے ہوئے وہ اپنے ان لاتعداد منصوبوں کو بھول گئی جو مقبوضہ کشمیر میں مکمل کیے جا رہے ہیں۔ ان میں ایسے آبی منصوبے بھی ہیں جو پاکستان کو صحرا میں تبدیل کرنے کی سازش کا حصہ ہیں۔
پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ پاکستان کی قسمت کو کتنا تبدیل کرنے والا ہے اس کا شاید ہمیں پوری طرح ادراک نہیں ہے، لیکن ہمارے دشمن پاکستان میں آنے والے ترقی، خوشحالی اور استحکام کے سنہری دور کو روکنے کے لئے بھرپور کارروائیاں کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں ہر خطرناک ہتھکنڈا استعمال کیا جا رہا ہے، مگر انہیں یہ بھی احساس ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کے خلاف جو بھی سازش کی جاتی ہے وہ صرف پاکستان کے خلاف نہیں ہے، اس سے چین کو بھی نقصان ہوگا۔ سوویت یونین نے گرم پانیوں تک پہنچنے کے لئے جارحیت کا راستہ اختیار کیا تھا اور اس کے نتیجے میں خود ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ چینی یہی مقصد دوستی اور تعاون کے جذبے سے حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے ذریعے یہاں چینی معیشت کو بے پناہ فائدہ ہوگا وہاں چینی اس امر کو بھی یقینی بنا رہے ہیں کہ اس سے پاکستان کو بھی استحکام ہو اور اس کے لئے لاحق خطرات میں کمی ہو۔ چین پاکستان کا ایسا دوست ہے،جس نے ہمیشہ اس کی سالمیت، خودمختاری اور استحکام کو یقینی بنانے کے لئے کام کیا ہے۔
چند عشرے قبل معروف برطانوی ادیب اور ڈرامہ نگار یوگنے آیونیسکو نے امریکہ کا دورہ کیا۔ امریکیوں کے متعلق اپنے دلچسپ مشاہدات کو بیان کرتے ہوئے اس نے انہیں ایسے خود اذیت پسند قرار دیا ہے جو دُنیا میں ہونے والی ہر برائی کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دے کر خوش ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی میں اپنے لبرل امریکی دوستوں سے کہتا کہ امریکہ اتنا برا نہیں ہے جتنا دُنیا کی متعدد دوسری قومیں ہیں تو سب مجھے شک و شبہ کی نظروں سے دیکھتے تھے۔ یوگنے کا کہنا تھا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ امریکہ میں آپ کو پسندیدگی کی نظروں سے دیکھا جائے اور آپ کی تحسین کی جائے تو کبھی یہ کہنے کی غلطی نہ کریں کہ امریکی انسانیت کے بدترین مجرم نہیں ہیں۔
پاکستان میں پاکستان کی تعریف کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ بہت سے لوگ پاکستان پر تنقید کر کے اور حسب استطاعت سازشیں کر کے رزق کما رہے ہیں۔ انہیں پاکستان میں کچھ اچھا نظر نہیں آتا۔ انہیں ہر چیز تباہی و بربادی کی طرف جاتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ بعض اوقات پاکستان کے متعلق اتنی بے دردی کے ساتھ تبصرے کئے جاتے ہیں کہ تبصرہ نگار بھارتیوں سے بھی زیادہ پاکستان کا دشمن نظر آتا ہے۔ 1960ء کے عشرے کے امریکیوں کی طرح اب پاکستان کی تعریف کرنا خاصا خطرناک کام بن چکا ہے۔ اگر آپ پاکستان سے محبت کا اظہار کریں۔ یہاں ہونے والے کسی اچھے کام کی تعریف کریں تو دانشور آپ کی عقل و دانش کے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
پاکستان میں دانشوروں کی سطح پر تو ایسی ہی صورت حال ہے مگر پاکستانی عوام کی اپنے وطن سے محبت لازوال ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ انہوں نے اسی دھرتی پر ہی رہنا ہے۔ وہ پاکستان کے لئے ہمہ وقت قربانیاں دینے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ پاکستان میں وہ طبقہ جو ذرائع ابلاغ پر اپنی دانش کا اظہار نہیں کرتا وہ زیادہ محب الوطن اور بالغ النظر ہیں۔ پاکستان میں کبھی بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کا تشکیل کردہ سچر کمیشن نظر نہیں ہوتاجس میں ممتاز بھارتی جج اور اہلِ علم و دانش شامل تھے اور انہوں نے بھارتی مسلمانوں کی حالت زار پر باقاعدہ تحقیق کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ بھارت میں مسلمان اقتصادی اور سماجی اعتبار سے صرف شودروں سے بہتر ہیں۔ مجھے چند سال قبل جاری ہونے والے علی گڑھ یونیورسٹی کے ایک ریسرچ آرٹیکل کے الفاظ بھی اکثر یاد آتے ہیں کہ تقسیم ہند سے قبل بھارت میں اگر کوئی مسلمان امیر ہوتا تھا تو اس کا غریب ہونا ممکن نہیں تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان امیر ہو جائے تو اس کا مستقل طور پر امیر ہونا ممکن نہیں ہے۔ ہمارے تجزیہ کار اکثر ایسی رپورٹوں کو تعصب اور جانبداری کا نتیجہ قرار دے کر مسترد کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں پاکستان کے خلاف سوچنے کا کلچر بھی مغرب سے آیا ہے۔ مغربی مصنفین مدتوں سے پاکستان کے خلاف لکھ رہے ہیں۔ اس کے ٹوٹنے کی پیشین گوئیاں کرتے رہے ہیں اور آج، جبکہ پاکستان نے ٹوٹنے سے انکار کر دیا ہے تو کچھ دانشور اس حقیقت کو تسلیم کر رہے ہیں کہ پاکستانی عوام میں بے پناہ مزاحمتی قوت ہے اور وہ زندہ رہنے کا ہنر سیکھ چکے ہیں۔ ان کا یہی جذبہ پاکستان کی بقا اور سالمیت کو یقینی بنا رہا ہے۔
چند سال قبل نیویارک میں ہماری ایک امریکی دانشور سے ملاقات ہوئی اس نے دریافت کیا کہ امریکہ نے پاکستان کی اتنی امداد کی ہے، مگر آپ کے ہاں ہمارے خلاف بے پناہ نفرت پائی جاتی ہے۔ چینی آپ کی صنعت اور معیشت کے لئے خطرہ بن رہے ہیں، مگر آپ ان سے نفرت نہیں کرتے۔ مَیں نے انہیں بتایا کہ ایک تو میں ان کے پاکستانی صنعت اور معیشت کے لئے چین کے خطرہ بننے کے آئیڈیا سے زیادہ اتفاق نہیں کرتا، دوسرا یہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو بے پناہ امداد دی ہے اور ہم یہ امداد حاصل کرتے کرتے بے پناہ مقروض ہو گئے ہیں مگر اہل پاکستان کو اپنے وطن میں کوئی ایسا بڑا منصوبہ نظر نہیں آتا جو امریکہ نے بنایا ہو۔ اس کے برعکس قراقرم ہائی وے سے لے کر ہر بڑے صنعتی منصوبے کے پیچھے چین نظر آتا ہے۔ صدر ایوب خان نے اپنی خودنوشت کا عنوان ’’آقا نہیں دوست‘‘ رکھ کر پاکستانی خواہشات کا اظہار کیا تھا، مگر امریکی ہمیں اپنے آقا ہونے کا احساس دلانے سے کبھی باز نہیں آتے۔امریکی پاکستان کی داخلی سیاست میں نہ صرف مداخلت کرتے رہے ہیں، بلکہ اس کا سرعام اظہار بھی کرتے رہے ہیں، مگر چینی سب پاکستانیوں سے محبت کرتے ہیں اور ہماری ’’داخلی سیاست‘‘ سے دور رہتے ہیں۔ چند سال قبل ایک برطانوی صحافی پاکستان آئے انہوں نے یہاں کچھ عرصہ گزارا اور ایک نجی محفل میں کہا کہ اگر میں یہ لکھنا شروع کر دوں کہ پاکستان میں بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ وہ کھیل کے میدان میں جاتے ہیں۔ لوگ اپنی زندگیاں انجوائے کرتے ہیں۔ اور بہت سے معاملات نارمل انداز میں چلتے ہیں تو میرے ادارے کو میری ذہنی صلاحیتوں پر شبہ ہو جائے گا۔
پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور یہ صلاحیت پاکستانی سائنسدانوں کی شبانہ روز محنت کا نتیجہ ہے۔ اہلِ مغرب حیران ہیں کہ ایک ایسا مُلک جو سوئی اور سائیکل تک درآمد کرتا ہے اس نے دُنیا کی جدید ٹیکنالوجی سے ایٹم بم بنا لیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک ملاقات میں بتایا تھا کہ مغربی ادارے جب ہمیں مختلف آلات فروخت کر رہے تھے تو انہیں یقین تھا کہ پاکستانی انہیں استعمال کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے اور یہ ڈبوں میں پڑے پڑے زنگ آلود ہو جائیں گے۔ پاکستانی سائنسدانوں نے نہ صرف ایٹم بم اور میزائل بنایا، بلکہ انہوں نے ڈرون تیار کرکے دُنیا کو ایک مرتبہ پھر حیرت زدہ کر دیا۔ پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ بھی کامیاب ہو گا اور پاکستانی اپنی صلاحیتوں سے دُنیا کو حیران کر دیں گے۔ اس کا اندازہ ہمیں19مارچ سے 22مارچ تک لاہور میں ہونے والے پانچویں پاک چین بزنس فورم کی تقریبات کو دیکھ کر ہوا۔ اس میں چار سو چینی فرموں نے حصہ لیا تھا جو اقتصادی شعبے میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے پرجوش تھیں۔ یہاں بہت سے چینیوں سے بات ہوئی وہ پاکستانیوں کی گرمجوشی اور مہمان نوازی سے بہت خوش تھے۔ ایک چینی صنعت کار نے بتایا کہ اس بزنس فورم کے انتظامات مثالی ہیں۔ آپ اپنی کسی ضرورت کے متعلق سوچتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ معاملہ تو پہلے ہی حل ہو چکا ہے۔ سات سو چینی مہمانوں کو خوش رکھنا اور انہیں پاکستانیوں کے ساتھ ملنے اور بزنس کرنے کا موقع فراہم کرنا بہت بڑا کام تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف اختتامی تقریب میں آئے وہ چینیوں کی اتنی بڑی تعداد کو ایک چھت کے نیچے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے پاک چین دوستی کو اپنی مثال آپ قرار دیا اور کہا کہ جس طرح ہر مشکل وقت میں چین نے پاکستان کا ساتھ دیا اس پر ہم چین کے بے حد شکر گزار ہیں۔ وزیراعلیٰ نے چین کی پاکستان میں 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو ایک عظیم تحفہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ چین نے یہ تاریخ ساز پیکیج غیر مشروط دیا ہے اور اس تحفے کو پاکستانی قوم کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ برادر محترم سلمان غنی صاحب کی شہباز شریف سے ٹیلی فون پر بات ہوئی تو وہ یہ جان کر خوش ہوئے کہ وہ بزنس فورم کی ایک تقریب میں آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اہل صحافت کو پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
پاکستان میں سچ پر یہ شرط عائد کی جا چکی ہے کہ یہ کڑوا ہوتا ہے اور اس سے کسی نہ کسی کو تکلیف ضرور ہوتی ہے۔ اگر کوئی بات اچھی ہو، اس سے سن کر خوشی ہو تو اس کے سچ ہونے پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ لاہور میں ہونے والے پاک چائنا بزنس فورم کے کامیاب انعقاد پر میرا دل چاہتا ہے کہ میں کامسیٹس یونیورسٹی کے ریکٹر جنید زیدی کو مبارکباد دوں جو مارچ کے مہینے میں یہ بھول گئے تھے کہ سونا بھی انسان کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ نرم دم گفتگو گرم دم جستجو جنید زیدی ہمہ وقت سرگرم عمل رہے اور انہوں نے اپنی انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے اس فورم کو کامیاب بنایا۔ ہمیں یہ جان کو خوشی ہوئی کہ پاک چائنا بزنس فورم کا آئیڈیا کامسیٹس کے ڈاکٹر قیصر عباس کو اس وقت آیا تھا جب وہ چین میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ 2012ء میں وہ پاک چائنا بزنس فورم کرانے میں کامیاب ہو گئے، جس میں چند درجن چینی آئے تھے۔ 2016ء میں ان کی تعداد سینکڑوں میں ہو گئی ہے۔ کامسیٹس کے لوگوں کے عزم و حوصلہ کو دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ اگلے چند برسوں میں یہ تعداد ہزاروں تک پہنچ جائے گی۔ اتنی بڑی تعداد میں بزنس مین چینیوں کا پاکستان میں آنا ایک بڑی پیش رفت ہے۔ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعاون اور دوستی کے رشتے مزید مضبوط ہوئے ہیں۔ اہل پاکستان کا یہی کمال ہے جو دنیا کو حیران کر دیتے ہیں، یہ ایٹم بم بھی بنا لیتے ہیں، میزائلوں کو فضا میں بلند کر دیتے ہیں، ڈرون ٹیکنالوجی میں بھی دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ کرتے ہیں اور یہ پاک چائنا بزنس فورم جیسے بڑے منصوبے کو کامسیٹس یونیورسٹی کے سپرد کرتے ہیں تو اس کا اتنے شاندار طریقے سے انعقاد ہوتا ہے کہ چینی بھی اہل پاکستان کی دوستی پر ناز کرتے نظر آتے ہیں۔ ویلڈن کامسیٹس اور اس کی ٹیم۔