قومی کرکٹ،معافی کلچر اور بوڑھے طوطے

قومی کرکٹ،معافی کلچر اور بوڑھے طوطے
قومی کرکٹ،معافی کلچر اور بوڑھے طوطے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر: طارق درویش
1992ءکا ورلڈکپ جیتنے کے بعد وسیم اکرم اور وقار یونس کی قیادت میں قومی ٹیم کے دورہ انگلینڈ کے بعد جاوید میانداد کو کپتانی سے ہٹوانا ایک ایسا زخم ہے جو آج تک نہیں بھر سکا۔ دوسرا 2003ءمیں جسٹس قیوم کی رپورٹ پر عمل ہو چکا ہوتا تو آج قومی کرکٹ ٹیم کو پاکستانیوں سے معافیاں نہ مانگنی پڑتیں، ان پر تھو تھونہ کیا جاتا۔کیا عجب بے حسی اور ڈھٹائی کا معاملہ ہے۔ معافیاں بھی بڑی اکتاہٹ کے ساتھ مانگتے ہیں ۔لیکن اب یہ سب نہیں چلے گا۔سوال پیدا ہوتا ہے کیاقوم کپتان شاہد آفریدی اور کوچ وقار یونس کی معافیوں کو قوم معاف کر دے گی؟ کیا پی سی بی کے کرتا دھرتا بھی قوم سے معافی مانگیںگے،لیکن اس سے کیا ہوگا؟کیا معافی پروگرامز سے کرکٹ کو اندھے کنوئیں سے نکالا جاسکتا ہے۔ارے بھائی یہ ایسے سوالات ہیں جن کا شائقین اب حل بھی مانگتے ہیں۔ورنہ وہ انڈے اور چھتر سے تم تک اپنے جذبات پہنچاتے رہیں گے۔
ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میگا ایونٹ قومی ٹیم کیلئے ایک ڈراﺅنا خواب ثابت ہواہے۔ ہارجیت ویسے تو کھیل کا حصہ ہوتی ہے مگر جس طرح ہمارے کھلاڑیوں نے شکست کھائی ہے اس پر پوری قوم کا دیوالیہنکال دیا گیا ہے۔ شائقین کی جانب سے یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ اس مرتبہ اگر پاکستان کرکٹ کی اصلاح نہ کی گئی تو پھر شاید آئندہ بھی اسی طرح شکست قومی ٹیم کا مقدر بنتی رہے گی۔ یہ سوال بھی بڑی تیزی سے گردش کر رہا ہے آیا گر وپ بندی قومی ٹیم میں ہے یا کرکٹ بورڈ میں ....اور اس کا علاج کیا ہے؟ ایک دہائی سے پاکستان کرکٹ میں میوزیکل چیئر کا کھیل چل رہا ہے مگر ان خرابیوں کو دور کرنے کی کسی بھی دور میں سنجیدگی سے کوشش نہیں کی گئی۔ یہ جانتے بوجھتے بھی کہ پاکستان کرکٹ ٹیم میں پلیئرز پاور اور گروپنگ پائی جاتی ہے۔اسکا علاج نہیں کیا گیا۔ تینوں فارمیٹ کیلئے الگ الگ کپتان کا تجربہ کیا گیا جو ہمارے ہاں کامیاب نہیں ہو سکا۔ مصباح الحق نے بحیثیت پاکستان کیلئے کئی فتوحات حاصل کیں۔ ان پر تمام کھلاڑیوں کا اعتماد بھی قائم ہوا تھا مگر انہیں صرف ٹیسٹ تک محدود کر دیا گیا۔ محمد حفیظ کو ٹی ٹوئنٹی کا کپتان بنایا گیا مگر واٹمور کے جاتے ہی نئی انتظامیہ کا اعتماد کھو بیٹھے اور انہیں گزشتہ ایشیا کپ کی ناکامی کا ذمہ دار قرار دیکر قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ شاہد آفریدی نے اپنی کپتانی کو کامیاب بنانے کیلئے عمر اکمل، احمد شہزاد اور ایسے کئی منہ پھٹ کرکٹرز کو اپنے ساتھ ملایا۔ ان سے دوستیاں نبھائیں مگر جب وہ ان کے سر چڑھنے لگے تو انہیں ٹیم سے باہر بٹھوا دیا۔ دو سال ٹی ٹوئنٹی کیلئے جو ٹیم تیار کی گئی آخری مراحل میں ان میں سے کئی کو باہر بٹھا دیا گیا اور نئے چہرے عین ٹورنامنٹ سے پہلے ٹیم میں شامل کر لئے گئے۔ سلیکشن کمیٹی نام کی کوئی چیز موجود دکھائی نہیں دیتی۔
پی سی بی نے شکست کی وجوہات کا جائزہ لینے کیلئے ایک فیکٹ فائینڈنگ کمیٹی بھی بنائی تھی جس نے اپنی رپورٹ میں شکست کی تمام تر ذمہ داری شاہد آفریدی پر عائد کی ہے اور محمد حفیظ، عمر اکمل اور احمد شہزاد کو کچھ عرصہ قومی ٹیم سے دور رکھنے کی سفارش کی ہے۔وقار یونس کو بھی رگڑا دیا گیاہے۔ شاہد آفریدی نے ورلڈکپ میں قومی ٹیم کی شکست کی نہ صرف ذمہ داری قبول کی بلکہ قوم سے معافی بھی مانگی ہے۔ ایشیاءکپ میں شکست کھانے پر انہوں نے قومی ٹیم کی خامیوں کو دور کرنے اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں بہتر کارکردگی دکھانے کا وعدہ کیا تھا جو ایفا نہ ہو سکا۔ ان کی ذاتی کارکردگی اور قیادت پر بھی سوالیہ نشان ہیں جس کا اظہار کوچ وقار یونس اور منیجر انتخاب بھی اپنی رپورٹس میں کر چکے ہیں۔
حیرانی اس بات پر ہے کہ شاہد آفریدی میں ایسے کیا سرخاب کے پر لگ گئے ہیں کہ وہ ذاتی ناقص کارکردگی کے باوجود پچھلے کئی سالوں سے قومی ٹیم سے چپکے ہوئے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ انہیں نہ صرف ٹی ٹوئنٹی کی قیادت سے الگ کیا جائے بلکہ اس فارمیٹ کی قیادت دوبارہ مصباح الحق کے سپرد کی جائے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئے کپتان کو تینوں فارمیٹ کی قیادت سونپی جائے۔ ورنہ ٹیم میں گروپ بندیاں اور پلیئر پاورز ختم نہیں ہو گی۔
موجودہ حالات سے پی سی بی کے دو بڑوں کرکٹ بورڈ شہریار خان اور نجم سیٹھی کو بھی مبرا قرار نہیں دیا جا سکتا۔یہ بوڑھے طوطے ہیں جو 70 کا عدد عبور کرچکے ہیں،انکے جسمانی و ذہنی قویٰ کمزور ہوچکے ہیں۔ویسے بھی ان کے درمیان اختیارات کی جنگ بڑی شدت سے جاری ہے جس کا نقصان قومی ٹیم کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ نجم سیٹھی بظاہر منظرنامے پر نظر نہیں آتے مگر ان کی پالیسی یہ ہے کہ اچھی کارکردگی کا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کرتے ہیں اور بری کارکردگی کا ملبہ شہریار خان پر ڈال دیتے ہیں۔ یہی وقت مناسب ہے کہ شہریار خان عزت سادات بچاتے ہوئے مستعفی ہوجائیں اور قیادت نوجوان تجربہ اور بہترین منظم کے سپرد کردی جائے۔ورنہ کرکٹ سپردخاک ہونے کا خدشہ ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ نہ صرف کرکٹ بورڈ بلکہ قومی ٹیم کی مکمل اوور ہالنگ کی جائے جس کی جانب چیف کوچ وقار یونس نے بھی نشاندہی کی ہے۔ ورنہ شاید پاکستان کی کرکٹ یونہی مسائل میں گھری رہے گی اور قوم ہر بار احتساب کا مطالبہ کرتی رہے گی۔ شخصیات کے بجائے پی سی بی کے گورنر بورڈ کو مضبوط بنایا جائے تو اچھا ہوگا۔

مزید :

بلاگ -