ایک نہیں دو پاکستان
آج لوگ ماضی میں کہی گئی وزیر اعظم عمران خان کی باتوں کو یاد کر کے ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں، جب بھی کوئی ٹی وی چینل یا سوشل میڈیا کی کوئی پوسٹ کپتان کی پرانی باتیں دکھاتی ہے تو دل بجھ سا جاتا ہے کہ ایک ایسا شخص جس سے قوم نے امیدیں باندھ لی تھیں کس طرح ان کی امیدوں پر پانی پھیرنے والا ثابت ہوا۔ بجلی کے بلوں کو جلانے سے لے کر آئی ایم ایف کو دھمکانے تک کے بیانات چلتے ہیں تو گویا ایک نشتر ہے جو دلوں پر چل جاتا ہے۔ خیر یہ باتیں تو اب پرانی ہو چکی ہیں البتہ کپتان کی ایک بات رہ رہ کر کچوکے لگاتی ہے کہ ہمارے دور میں دو نہیں ایک پاکستان ہوگا، یہ نہیں ہو سکتا کہ امیروں کا پاکستان اور ہو اور غریبوں کا کوئی اور، اس پر تحریک انصاف نے بڑے شاندار اشتہارات بنائے، دو نہیں ایک پاکستان، سارے غریب غربا ماجھے ساجھے سمجھ بیٹھے کہ لو اب بنے گا ایک پاکستان۔
کسی کو اپنی امارت کی وجہ سے فضیلت نہیں ملے گی اور کسی کو اس کی غربت کے باعث دھتکارہ نہیں جائے گا۔ مگر صاحبو! جلد ہی اس غبارے سے بھی ہوا نکل گئی۔ کپتان کو دو پاکستان بنانے والوں نے صاف صاف بتا دیا عوام و خواص ایک نہیں ہو سکتے۔ ایسا خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ عوام کا جہاں اور ہے خواص کا جہاں اور، دونوں میں بعد مشرقین واقع ہے۔ ایک طرف بے چارگی ہے، غربت ہے، مظلومیت ہے اور بھوک و افلاس ہے، دوسری طرف امارت ہے، شاہانہ کروفر ہے، ظلم ہے اور خوشحالی ہے صرف یہی نہیں دونوں کے لئے ملک کا قانون، ضابطے اور اصول بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں، خواص کے لئے قانون ان کی منشاء کے مطابق اور عوام کے لئے قانون اندھے قانون کی عین تعبیر۔
میں کل سے اس لئے کڑھ رہا ہوں کہ میں نے یعنی عوام سے تعلق رکھنے والے ایک عام شہری نے 1166 پر اپنا شناختی کارڈ نمبر بھیجا۔ جس کا فوری جواب آیا کہ آپ کا فلاں سنٹر ہے اور فلاں کوڈ ہے، تاہم تاریخ کے بارے میں جلد ہی بتایا جائے گا۔ آج اس بات کو بارہ دن ہو گئے ہیں، تاریخ نہیں آئی۔ میرے ساتھ دو مزید دوستوں نے اس دن رجسٹریشن کرائی تھی اور اب انتظار کی سولی پر لٹکے ہوئے ہیں۔ ایسے میں جب یہ ویڈیو دیکھنے کو ملی کہ وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کی پوری فیملی کو جن میں نوجوان بھی شامل ہیں گھر جا کر کورونا ویکسین لگا دی گئی ہے اور ان میں سے ہر ایک ویکسین لگوانے کے بعد وکٹری کا نشان بھی بنا رہا ہے تو دماغ ٹھکانے آ گیا ہے، یہ دو پاکستان والی بات درست ہے، ایک پاکستان والی جھوٹ ہے۔ طارق بشیر چیمہ نے اس ویڈیو کے بعد مختلف مؤقف دیئے ہیں، حالانکہ انہیں ببانگ دہل کہہ دینا چاہئے تھا کہ ہم ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں، ہماری جانیں عوام سے قیمتی ہیں، وہ کیڑے مکوڑے اور ہم تخت شہی کے وارث ہیں اس لئے ہمیں ویکسین لگ گئی ہے تو اس پر اعتراض کرنے کی بجائے شکر ادا کرنا چاہئے کہ اشرافیہ کورونا سے محفوظ ہو گئی۔ ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ دو پاکستان والے ایسے شاہانہ کام بھی کرتے ہیں اور پھر ان کی تشہیر سے بھی نہیں گھبراتے مثلاً اس کورونا ویکسین کی ویڈیو بھی بنائی گئی، وکٹری کے نشان بھی بنائے گئے اور پھر اسے سوشل میڈیا پر وائرل بھی کر دیا۔ کوئی ندامت، کوئی شرم، کوئی خوف، کوئی ڈر قریب بھی نہیں پھٹکا۔
معلوم نہیں ایسے کتنے کام خفیہ طور پر ہو چکے ہیں اور ایلیٹ کلاس کو ویکسین لگ بھی چکی ہے۔ این سی ایس نے ضابطہ یہ بنایا تھا کہ پہلے ستر برس سے زائد عمر کے افراد کو ویکسین لگائی جائے گی۔ اس کے بعد ساٹھ برس کے لوگوں کو اور بعد ازاں اگلی عمر کے افراد کو مرحلہ وار بلایا جائے گا۔ میرا خیال ہے یہ ترتیب غلط بنائی گئی ہے ترتیب اشرافیہ میں موجود مختلف کٹیگریز کے مطابق بنائی جانی چاہئے تھی۔ پہلے سپر ایلیٹ کے لوگ، پھر اس سے ذرا چھوٹی اشرافیہ، پھر اس سے کم اور اسی طرح آگے تک بس شرط اشرافیہ سے تعلق کی ہونی چاہئے تھی۔ رہے عوام تو انہیں پرائیویٹ طور پر درآمد کی گئی ویکسین تک انتظار میں رکھنا چاہئے تھا تاکہ وہ ساڑھے آٹھ ہزار روپے فی کس والی ویکسین لگوا سکتے تو لگواتے یا پھر مر جاتے۔
اب لوگ بیس بیس دن سے رجسٹریشن کرا کے بیٹھے ہیں انہیں تاریخ کا میسج ہی نہیں آ رہا۔ البتہ یہ خبریں ضرور مل رہی ہیں کہ فلاں وزیر نے ویکسین لگوالی اور فلاں وزیر کے تو پورے گھرانے کو ویکسین لگ گئی۔ دو پاکستان در حقیقت اشرافیہ کی ذہنیت کا نتیجہ ہیں۔ وہ خود کو قانون سے ماورا اور سپر سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک مثال وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور نے بھی ڈنکے کی چوٹ پر قائم کر دی ہے۔ ان کا پانچ چھ برس کا بیٹا پجارو چلا رہا ہے، اور علی امین گنڈا پور پیچھے بیٹھے فخر سے دیکھ رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ کچھ عرصہ پہلے ملتان میں پیش آیا تھا اور ایک چھ سالہ بچہ لینڈ کروزر چلاتے ویڈیو کیمرے کی زد میں آ گیا۔ ویڈیو وائرل ہونے پر ملتان ٹریفک پولیس نے اس کا کھوج لگایا، اس کے والد کو پکڑا، جرمانہ کیا، آئندہ بچے کو گاڑی چلانے کی اجازت نہ دینے کا بیان حلفی لیا اور پھر چھوڑا، مگر صاحب علی امین گنڈا پور نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ لینڈ کروزر میری، علاقہ میرا، بیٹا میرا، کسی کو کیا اعتراض ہے کہ وہ گاڑی چلا رہا تھا۔ ہاں بھئی ہاں کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے وہ وفاقی وزیر ہیں، جو چاہیں کریں کسی مائی کے لعل کی جرأت نہیں کہ آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے۔
ارے مان لو بھائیو! کپتان نے صرف مذاق کیا تھا کہ دو نہیں ایک پاکستان، حقیقت میں آج بھی دو پاکستان ہیں، ایک خواص کا، ایلیٹ کا، اشرافیہ کا پاکستان اور دوسرا غریبوں، محنت کشوں اور سفید پوشوں کا پاکستان۔ اس ملک کے سارے قوانین عوام کے لئے بنائے گئے ہیں تاکہ انہیں دبا کے رکھا جا سکے اور ساری آزادیاں اشرافیہ کو دی گئی ہیں، وہ جیسے چاہیں قانون کی بازو مروڑ دیں۔ پولیس، ایف آئی اے، عدالتیں اور سرکاری ادارے ان کے لئے ایک کھیل ہے، جس سے وہ روزانہ کھیلتے ہیں رہی بات کپتان کی تو وہ بہت پہلے کہہ چکے ہیں کہ یوٹرن لینا کامیابی کے لئے ضروری ہے۔