چناں کِتھاں گزاری ہائی رات وے
یادِ ماضی بھی کیا عذاب چیز ہے، اس کی خبر کم کم لوگوں کو ہوتی ہے۔ انسان حال مست رہتا ہے۔ جو لمحہ اس کے سامنے ہوتا ہے، جو لوگ اس کے آگے پیچھے پھرتے ہیں اور جو کاروبارِ حیات اس کی آنکھوں تلے انجام پا رہا ہوتا ہے وہ اسی کو دیکھتا اور اسی پر ردِعمل ظاہر کرتا ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ گزرے ہوئے لمحوں اور لوگوں کو بھی یاد کر سکے۔ یہ وقفہ ء فراموشی، ایک قسم کا ایک بہت ہی گراں بہا عطیہء خداوندی ہے وگرنہ تو انسان ہر آن ماضی کی یادوں میں کھویا اور تڑپتا رہے۔
شعور، تحت الشعور اور لاشعور کی بحث اتنی پرانی ہے کہ اس کو دہرانے سے علاجِ غمِ دوراں نہیں ہو سکتا۔ لیکن انسان پھر بھی بعض اوقات تحت الشعور کی گھاٹیوں میں اتر کر ماضی کو کریدنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہ اس کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ آج کل کورونا کی وجہ سے بہت سے کام بند ہیں۔ صرف ایک تنہائی ہے جو فراوانی میں ہے اور اس کو آپ بند نہیں کر سکتے۔ آج کل درجنوں دوستوں سے بذریعہ واٹس آپ اور ای میل رابطہ رہتا ہے۔ ان میں 1/3احباب ایسے ہیں جو صرف دعائیہ کلمات بھیجتے رہتے ہیں۔ ان کلمات کے چوکھٹے بنانے والوں کا بھی ایک بڑا منظم گروہ ہے۔ قرآن اور حدیث کے وہ حصے جو خدا اور اس کے رسولﷺ نے بنی نوعِ انسان کی فلاح کے لئے نازل فرمائے یا اپنے پیغمبر آخر الزماں کی زبان سے ادا کروائے، ان چوکھٹوں کی صورت میں جب آپ کے سامنے آتے ہیں تو آپ کی نگاہیں تشکر ربانی اور تفضیلِ محمدیؐ کے لئے جھک جاتی ہیں …… اور غالب یاد آنے لگتا ہے:
کس منہ سے شکر کیجئے اس لطفِ خاص کا
پُرسش ہے اور پائے سخن درمیاں نہیں
بعض دوست احباب ایسی وڈیوز اور آڈیوز بھیجتے ہیں جو سراپا درسِ اخلاق ہوتی ہیں، بعضوں میں پند و نصائح کا دفتر بند ہوتا ہے اور بعض پرانے گیتوں سنگیتوں سے مزین ہوتی ہیں۔ آپ کے احباب میں وہی لوگ ہوتے ہیں جو عموماً آپ کے ہم عمر اور ہم خیال ہوتے ہیں۔ ان سے برسوں کا یارانہ ہوتا ہے۔ آپ باہمی پسند و ناپسند کی ڈوری سے بندھے ہوتے ہیں۔ دونوں کو معلوم ہوتا ہے کہ اس باہمی ذوقِِ جمال کی وسعت اور گہرائی کس قدر ہے۔ آج صبح ایک ایسے ہی ہم جلیس یارِ خوش جمال سے ایک وڈیو کلپ موصول ہوئی جس میں ریکارڈ بج رہا ہے۔ یہ اس دور کی وڈیو ہے جب ’ہزماسٹرز وائس‘ کے بھونپو کے آگے ایک کتا بیٹھا ہوتا تھا۔ کتے کے سونگھنے کی حس تو انسان کی قوتِ شامہ سے کئی گنا تیز ہوتی ہے لیکن اس میں کوئی حسنِ سماعت بھی ہوتا ہے یا وہ کسی صوت و صدا کے زیر و بم کا شعور بھی رکھتا ہے، اس کی خبر آج تک کسی کو نہیں ہو سکی۔ کسی اخبار میں اس تصویرِ سگ کی کہانی بیان کی گئی تھی جو ذہن کے طاقچے سے اتر کر طاقِ نسیاں پر چلی گئی ہے۔ گرامو فون پر ریکارڈ Play ہو رہا ہے اور ایک جانی پہچانی زبان میں ایک لوگ گیت سنائی دیتا ہے:
چناں کِتھاں گزاری ہائی رات وے
میرا جی دلیلاں دے واس وے
ایک تو سرائیکی زبان کا لب و لہجہ سراپا مٹھاس ہے اور دوسرے اس گیت کی دھن (Tune)ایسی وجد آفریں ہے کہ میں سنتا گیا اور سر دھنتا گیا۔ گانے والا کوئی پروفیسر دینا ناتھ تھا۔ اس گیت کا ایک ٹپّہ یہ بھی تھا:
کوٹھے تے پِٹر کوٹھڑا وے ماہی یہٹھ وگے دریا بھلا
میں مچھلی دریاواں دی تو بگلا بن کے آ بھلا
اسی طرح کے لوک گیت آپ نے بھی ہزاروں بار سنے ہوں گے لیکن وہ جو میں نے اوپر تحت الشعور کی بات کی ہے تو اس صفت سے متصف ہونا بھی کسی کسی کے نصیب میں ہوتا ہے۔ اس شعر میں جانے کیا جادو تھا کہ وہ عزیز و اقربا یکدم تحت الشعور کے خانے سے نکل کر شعور کے پلنگ پر دراز ہو گئے جو کچھ برس پہلے جیتے جاگتے تھے، ہنستے کھیلتے تھے، نگاہوں کے سامنے رہا کرتے تھے اور پھر یوں ایک دم جدا ہو گئے کہ جیسے تھے ہی نہیں۔ ان کی ساری باتیں، سب تلخ و شیریں مکالمے اور سب ادائیں اور وفائیں یاد آ گئیں۔ مچھلی اور دریا کا یہ استعارہ جو اس ٹپّے میں موزوں کیا گیا ہے حقیقت بن کر دل پر چوٹیں لگانے لگا۔ میں نے موبائل بند کر دیا تو آنکھیں بہنا شروع ہو گئیں۔ میں عالمِ بے خودی میں واہی تباہی بکنے لگا: …… ”یا پروردگار! اگر تو نے ان پیاروں کو یوں چھین لینا تھا تو ان کی محبت دل میں پیدا ہی کیوں کی تھی…… سالہا سال تک اکٹھے رہنے کے بعد یکایک ان کو غائب کرنا ہی تھا تو مجھے بھی ساتھ ہی غائب کر دیتا…… میں نے تو ان سے کوئی بے وفائی نہیں کی تھی…… پھر وہ لوگ دفعتہ یک طرفہ بے وفائی پر کیوں اتر آئے…… یہ کیا دنیا بنائی ہے تو نے اور کیا تماشا کھڑا کیا ہے؟…… ان کے چلے جانے کے ایک دو ہفتوں تک ان پیاروں کو یاد ضرور کیا تھا، ان کی قبروں کی زیارت بھی روزانہ 3ماہ تک کرتا رہا تھا، ہر روز ایک پارۂ قرآن جا کر مرحومین کے سرہانے تلاوت کیا کرتا تھا لیکن کب تک؟ پنڈت برج نارائن چکبست کا یہ شعر یاد آ گیا جو میٹرک کی اردو کی نصابی کتاب میں پڑھا تھا:
ہاں کچھ دنوں تو نوحہ و ماتم ہوا کیا
آخر کو رو کے بیٹھ رہے اور کیا کیا؟
میری ہچکیاں سن کر بچے بھی دبے پاؤں کمرے میں آ گئے۔ میں چونکہ آنکھیں بند کرکے اول فول بک رہا تھا اس لئے کسی نے دلاسا دینے کی جرات نہ کی۔ ان کا خیال تھا کہ ندی کے بہاؤ کو روکنا مناسب نہیں ہوتا۔ ایسا کیا گیا تو اس ’روک‘ کا بند آخر کبھی تو ٹوٹے گا، اس لئے اس کو بہنے دینا چاہیے۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ یہ کیفیت پورا آدھ گھنٹہ تک مجھ پر طاری رہی؟…… میں خدا سے مکالمہ کرتا رہا اور پھر جیسے افلاک سے نالوں کا جواب آ گیا۔ خود ہی جذبات پر آسودگی چھانے لگی…… میں اٹھا تو میرے سامنے نصف درجن بیٹے، بیٹیاں اور نواسے نواسیاں، دم بخود کھڑی تھیں۔ ان کی آنکھیں بھی ڈبڈبا رہی تھیں۔ میں ایک لفظ تک نہ کہہ سکا اور اٹھ کر واش روم میں چلا گیا۔ جب باہر نکلا تو کسی نے نہ پوچھا کہ کیا ہوا تھا۔ ان کو معلوم تھا کہ میں مرنے والوں اور والیوں سے کتنا گہرا تعلق رکھتا تھا۔ جب یہ ساری دھند چھٹی تو کسی نے کہا: ”ابوجی۔ آؤ قبرستان جاتے ہیں۔ کافی دن ہو گئے مرنے والوں کی یادیں کورونا کی دہشت نے دبا رکھی تھیں۔ آج ہی پاکستان میں 100افراد گزشتہ 24گھنٹے میں موت کے منہ میں چلے گئے ہیں جن میں 73کا تعلق لاہور سے تھا!“
ان جملوں نے مجھے گویا ایک دم عالمِ بے خودی سے نکال کر کامل خود شناسی کی راہ پر ڈال دیا۔ میں نے سوچا یہ ہر روز دنیا بھر میں جو لوگ مرتے ہیں ان کو کورونا خواہ ہو یا نہ ہو، ان کی تقدیر میں یہی لکھا تھا کہ وہ انہی ایام اور اسی ماہ و سال میں اللہ کو پیارے ہو جائیں۔ احتیاط لازم ہے لیکن کیا احتیاط کی سختی تقدیرِ نوشتہ کو ٹال سکتی ہے؟ آپ احادیث مبارکہ کو کوٹ کریں گے لیکن قرآن میں تو بار بار موت کے لمحے کو اٹل قرار دیا گیا ہے۔ کیا حضرت علیؓ کا قول نہیں کہ موت، انسان کو بے وقت مرنے نہیں دیتی اور خود اس کی حفاظت کرتی ہے!
مجھے معلوم ہے اس موضوع پر بحث و مباحثے کا ایک نیا پنڈورابکس کھل جائے گا۔ کورونا سے بچنا اور احتیاط کا دامن تھامنا کیا فرمودۂ حضرت علیؓ کے عین مطابق نہیں؟…… احتیاط انسان کے بس میں ہے اور زندگی موت خدا کے اختیار میں ہے۔ اگر ہم اپنا فریضہ ادا نہیں کریں گے تو کیا خدا ناراض ہو کر ہمیں اس کی سزا نہیں دے گا؟…… اس ذات باری کی سزا سے ڈرنا چاہیے کہ وہ سخت اور بہت ہی سخت ہوتی ہے!