غدار، غدار، غدار کی تکرار، کیوں؟

  غدار، غدار، غدار کی تکرار، کیوں؟
  غدار، غدار، غدار کی تکرار، کیوں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان کشمکش جاری ہے۔ متحدہ اپوزیشن کی طرف سے بدھ کی شام ایک سو نوے اراکین شو کرنے کے باوجود حزب اقتدار اپنی کامیابی کا دعویٰ کرتی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کا کہنا ہے کہ وزیراعظم پُراعتماد ہیں اور وہ مستعفی نہیں ہوں گے اور عدم اعتماد کا سامنا کریں گے۔ متحدہ اپوزیشن کی طرف سے اس دعوے کے بعد کہ عدم اعتماد کے حق میں واضح اکثریت ثابت ہے اس لئے وزیراعظم کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے ”امر بالمعروف“ والے جلسے میں خط والا جو ٹرمپ کارڈ پھینکا، اس سے بڑا ہیجان پیدا ہو گیا ہے۔ مختلف نوعیت کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ وزیراعظم مصر ہیں کہ یہ خط بیرونی سازش کا ثبوت ہے جبکہ حزب اختلاف نے مطالبہ کیا تھا کہ یہ خط پارلیمنٹ میں لایا جائے۔ حکومت نے اس خط سے اپنے حق میں فضا ہموار کرنے کے لئے کئی مراحل میں پروپیگنڈہ کیا ہے۔ ابتدا میں اسے نشر کرنے کا تاثر دیا گیا۔ پھر کابینہ کو دکھانے کے بعد اینکر پرسنز سے تبادلہ خیال کیا اور خط کے مندرجات سے آگاہ کیا۔ یہ حضرات مکمل خط سے لاعلم اور وزیراعظم کی گفتگو سن کر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ وزیراعظم نے قوم سے خطاب موخر کرکے فیصلہ کیا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر ”اِن کیمرہ“ سیشن میں پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں لیاجائے۔


ایک موقر اخبار کی خبر کے مطابق یہ خط کسی بیرونی ملک کا نہیں، بلکہ امریکہ میں متعین سفیر پاکستان نے واشنگٹن سے بھیجا ہے، اس میں کسی امریکی عہدیدار کی گفتگو کا حوالہ ہے اور سفیر محترم نے دھمکی کا حوالہ دیا ہے۔ یہ ایک سفارتی عمل ہے اور ہر سفارت خانہ اپنے اپنے ملک کو حالات سے باخبر رکھتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے یہ خط عدم اعتماد کے موقع پر حزب اختلاف کے خلاف استعمال کیا اور وزراء کرام نے تو برملا سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف الزام دھر دیا۔ اب اگر وزیراعظم اور وفاقی وزرا کی گفتگو کو زیر غور لا کر تجزیہ کیا جائے تو یہ آئین کے آرٹیکل 6کا معاملہ بنتا ہے۔ وزیراعظم جو ”بہادر“ ہیں کو ہمت کرکے ملزموں کے خلاف یہ کارروائی شروع کرانا چاہیے۔ دوسری صورت بھی واضح ہو رہی ہے کہ خود ان کے خلاف آرٹیکل 6اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی اور بطور وزیراعظم حلف توڑنے کے الزام میں تو کارروائی کا مطالبہ شروع ہو جائے گا۔ ایک معتبر دانشور اور سیکرٹری سطح کے سابق عہدیدار نے تو اپنی پوسٹ میں واضح طور پر نشان دہی کی ہے کہ وزیراعظم کے خلاف امریکی سازش ہے اور اگلا مرحلہ آرٹیکل 6 کے تحت ان کو سیاست ہی سے ہٹانا مقصود ہے۔


یہ امور وہ ہیں جو واضح اور زیر بحث ہیں لیکن ایک حقیقت یہ ہے کہ ایک شہری نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تو عدالت نے وزیراعظم کے نام حکم امتناع جاری کرتے ہوئے ہدائت کر دی کہ وہ اپنے حلف کی پاسداری کریں اور کسی قسم کا سرکاری راز افشاء کرنے سے گریز کریں اور جس خط کا ذکر ہے اس کے مندرجات عوام تک نہ پہنچائے جائیں۔(یہ مندرجات خود وزیراعظم نے اینکرز حضرات سے شیئر کر لئے ہیں) یوں درخواست دہندہ کے لئے ایک جواز پیدا ہو گیا کہ وہ مزید درخواستیں دائر کر سکے۔ جہاں تک عام حضرات کا تعلق ہے تو وہ اس ”ٹرمپ کارڈ“ سے متاثر نہیں ہوئے اور عوام مجموعی طور پر حالات سے بے زاری کا اظہار کر رہے ہیں کہ ان کے مسائل مختلف ہیں، مہنگائی روز بروز بڑھ رہی تھی اور بڑھ رہی ہے کہ اب گرمی کی شدت کے ساتھ ہی بجلی کی شدید قلت اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ نے نیا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔


جہاں تک عدم اعتماد کی تحریک کا تعلق ہے تو فریقین کے موقف سامنے ہیں۔ مبینہ طور پر متحدہ حزب اختلاف کامیاب ہو چکی، تاہم کپ اور لب والا مسئلہ باقی ہے۔ وزیراعظم رائے شماری تک ڈٹے رہنے کا اعلان کر چکے اور ان کے وزیر محترم فواد چودھری چیف آف آرمی سٹاف کی دوبار ملاقات کا ذکر کچھ ایسے انداز سے کر گئے کہ تاثر ان کی حمائت کا پیدا کیاگیا۔ اگرچہ شواہد ہیں کہ اس بار معاملہ سیاست دانوں کی اہلیت اور صوابدید پر نظر آتا ہے جو میدان کارزار گرم کئے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں ایک بیان ایسا بھی نظر سے گزرا جو چھ سابق جنرل حضرات کی طرف سے تھا، اس میں فریقین سے مصالحت کا فارمولا تھا کہ وزیراعظم از خود مستعفی ہوں، حزب اختلاف عدم اعتماد واپس لے، غیر جانبدار عبوری حکومت بنا کر نئے انتخابات کرائے جائیں جو مکمل طور پر آزادانہ اور غیر جانبدارانہ شفاف ترین ہوں تاکہ عوامی نمائندگی کا مسئلہ  حقیقی طور پر حل ہو، یہ بیان ابھی چھپا ہی تھا کہ وزیراعظم نے جلسہ گاہ میں خط لہرا دیا اور بات کسی اور طرف چلی گئی۔ اب جو حالات ہیں ان کے مطابق تو سازش، وہ بھی بین الاقوامی سازش، ہی کا ذکر ہے اور سابقہ معمول کے مطابق الزام در الزام چل رہے، ان میں نمایاں ”غداری سرٹیفکیٹ“ ہے۔ اگر اس الزام کو دیکھا جائے تو پھر یہاں کوئی بھی نہیں بچا، عوام اور ملک اللہ کے سہارے چلے جا رہے ہیں۔


میں نے ہمیشہ ان سطور میں یہی گزارش کی کہ ملک اور عوام کو درپیش مسائل اور خطرات کی روشنی میں قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور کم از کم نکات پر مفاہمت سے کام آگے بڑھایا جائے۔ بدقسمتی سے ایسا کچھ نہیں ہوا، حتیٰ کہ پارلیمنٹ کو بھی عضو معطل سا بنا دیا گیا، حالانکہ جمہوریت کا نام لینے اولوں کو یہ علم ہے کہ اصلی فورم پارلیمنٹ ہی ہے،  میں مزید بات نہیں کرتا یہ ہر کوئی جانتا ہے کہ پارلیمنٹ کا یہ حال کس طرف سے کیا گیا ہے۔


عدم اعتماد کے حوالے سے جو کچھ بھی ہے۔ وہ اسلام آباد میں ہے لیکن اس سے جڑے کئی امور وہاں سے صوبوں کو بھی شامل ہو گئے ہیں۔ وزیراعظم نے عثمان بزدار سے استعفیٰ لے کر چودھری پرویز الٰہی کو نامزد کر دیا۔ یہ عمل پسند کیا گیا۔ تاہم دودھ میں مکھی والا سلسلہ ہو گیا۔ یہ کام تاخیر سے کیا گیا۔ بقول طارق بشیر چیمہ کہ وزیراعظم نے بہت دیر کر دی  اور یہ وزارت اعلیٰ جو چودھری پرویز الٰہی کے لئے پکا ہوا پھل تھی، اب مشکل مرحلہ بن گئی ہے اور ان کو بھی مخالفت کا سامنا ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے تو قدرتی عمل ہے، لیکن تحریک انصاف کی صفوں میں پیدا انتشار تو کوئی ماورائی کی قوت ہی دور کرا سکتی ہے۔ اگرچہ چودھری پرویز الٰہی اتنے اہل ہیں کہ اراکین سے بات کر سکیں لیکن ان کو وقت بہت کم دیا گیا ہے۔ یہ عمل اگر بہت پہلے کر لیا جاتا تو شاید تحریک عدم اعتماد ہی موخر ہو جاتی۔ تاہم اب حالات ایسے ہیں کہ چودھری پرویز الٰہی کا مقابلہ بھی سخت ہے۔
میرے خیال میں اس بحران سے بعض مثبت پہلو بھی سامنے آئے۔ ان میں ایک ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کا معاہدہ ہے۔ ہر دو جماعتیں سندھ کی نمائندہ ہیں۔ ایم کیو ایم شہری علاقوں میں موثر ہے اور پیپلزپارٹی کو دیہی آبادی میں کوئی بڑا چیلنج درپیش نہیں۔ یہ اتحاد و اتفاق بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا کہ ہر دو کے اپنے اپنے حلقہ اثر ہیں اور ان کو سندھ ہی میں رہنا ہے۔ دیر آید درست آید کہہ لیں، اگر یہ اتحاد وقتی نہیں تو بہت مفید ہے، اس کی حمائت کرنا چاہیے۔(تصحیح: گزشتہ روز کے کالم میں سہواً مولانا کوثر نیازی کے میزبان کا نام غلط شائع ہوا، قارئین درست فرما لیں۔ نام حاجی حیات ہے،سہو پر معذرت)

مزید :

رائے -کالم -