گندم قیمت دو ہزار 40 کلوگرام رکھیں
چند روز قبل اطلاعاً پنجاب میں گندم کی قیمت 2200 روپے فی 40 کلوگرام برائے سرکاری خرید مقرر کر دی گئی ہے جب کہ عرصہ ایک یا ڈیڑھ سال قبل یہ نرخ1600 روپے تھا۔ یوں یہ اضافہ 50 فیصد یا کچھ زیادہ ہے۔ اہل اقتدار اور ہمارے کسان بھائیوں کو بخوبی علم ہے کہ پاکستان میں 22کروڑ سے زیادہ آبادی میں تقریباً 20 کروڑ افراد نہایت غریب، مفلس اور پسماندہ ہیں ان کی اکثریت کے مالی وسائل بہت کم بلکہ زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے آج کل کی مہنگائی کے دور میں خاصے قلیل ہیں۔ اس طرح ان کے جسم اور سانس کا رشتہ قائم رکھنے کے لئے گندم کی قیمت میں مذکورہ بالا اضافہ مزید مالی مشکلات پیدا کرنے میں قابل ذکر حد تک کردار ادا کرئے گا۔ یاد رہے کہ گزشتہ دو یا تین سال کے عرصہ میں وطن عزیز میں کئی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں قبل ازیں اکثریتی عوام کے اوسط ذرائع آمدن سے بڑھ کر اضافہ ہو گیا ہے۔ یوں ان کے لئے روز مرہ خوراک کے اخراجات ایک بہت مشکل مسئلہ بنا ہوا ہے جس کے بارے میں یہاں کے قومی اخبارات اور ٹی وی چینلز پر آئے روز بلکہ صبح و شام ان اشیائے ضرورت کی مہنگائی پر متعلقہ حکمران طبقہ اور اعلیٰ حکام سے کئی مقامات سے گزارشات اور اپیلیں کی جا رہی ہیں کہ وہ گرانفروشی کے خلاف کوئی قابل عمل اور موثر انداز کار اختیار کر کے ذمہ دار ذخیرہ اندوزوں، بلیک مارکیٹ اور سمگلنگ کرنے والے بڑے مگر مچھوں کو قانون کی گرفت میں لا کر ان کی سرکوبی کی جائے۔ مذکورہ بالا چند سطور میں عرض کیا گیا ہے کہ چند روز قبل گندم کی قیمت خرید مبلغ 2200 روپے مقرر کی گئی ہے۔جو یہاں کے کروڑوں لوگوں پر روزانہ استعمال ہونے والے آٹا کی مہنگائی کر دے گی اس سے بہت زیادہ بلکہ نا قابل برداشت بوجھ پڑے گا۔یہ سراسر ناجائز اور تکلیف دہ کارروائی ہے۔ اس سے آٹا کے علاوہ میدہ، سوجی اور دلیہ کے نرخ بھی مزید بڑھ جائیں گے جس سے عوام کی پریشانی میں اضافہ ہو گا۔ حکومت کو کسانوں کی مدد کے لئے کھاد، ادویات اور ٹیوب ویلوں پر بجلی کے نرخ کم کرنا چاہئیں،گندم کی امدادی قیمت بڑھانے سے مہنگائی ہی بڑھے گی۔