مفت آٹے کی تقسیم اور چند قابل غور پہلو

مفت آٹے کی فراہمی ایک اچھا رفاہی کام ہے،جس کی کسی درجہ میں حوصلہ افزائی بھی کی جانی چاہیے،مگر دیکھنا یہ ہے کہ یہ ریلیف،ریلیف ہی ہے یا ریلیف کے نام پر تکلیف بھی بن رہا ہے۔
یہاں ایک قابل غور بات یہ بھی ہے کہ "آٹا تقسیم کرنے کے مراکز شہروں میں قائم کیے گئے ہیں،جب کہ غربت کی شرح دیہی علاقوں میں شہر سے کئی گنا زیادہ ہے"۔
مناسب تو یہ تھا کہ اس پروگرام میں وسعت ہوتی اور چکوک و دیہات میں بھی یہ نظم طے پاتا۔اس کی جو بھی صورت ممکن ہوتی،اختیار کی جانی چاہیے تھی۔اس کے لیے گو انتظام خاصا دقت طلب تھا مگر لوگ بڑی دشواری سے بچ پاتے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہاں مراکز میں غریب شخص کی عزت نفس بری طرح مجروح ہورہی ہے۔پہلے پہل تو گھر میں جھگڑا ہوتا ہے کہ آٹا لینے جائے تو کون جائے؟ لمبی قطار میں لگ کر کشکول گدائی کون تھامے؟ مگر بھوک انسان کی وہ مجبوری ہے،جو اسے تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔
پیغمبر دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ کاد الفقر أن يكون كفرا (ماخوذ زاد الطالبین)
غربت و افلاس کبھی اسلام سے انحراف اور کفر و باطل کے قبول کرنے کا سبب بھی بن جاتا ہے۔
یہاں آٹے لینے کے لئیے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے اور دھکم پیل کا سامنا بھی کرنا ہوتا ہے۔ اس سہولت سے ملک کا سفید پوش طبقہ بھی محروم ہے۔وہ اپنے گھروں میں فاقہ کشی تو برداشت کررہا ہے مگر اسے اس طرح کی ذلت گوارا نہیں ہے۔
آٹا لینے آنے والے شخص کا تقریباً پورا دن ضائع ہوجاتا ہے۔آنے جانے اور لائن میں لگنے میں دیہاڑی برباد ہوجاتی ہے،جب کہ یہی مزدور اس وقت میں کام کرتا تو 600 سے 1000 روپے تک کمالیتا۔ کچھ لوگ شدید مڈ بھیڑ میں جان تک کی بازی ہار گئے ہیں۔
شیخ الحدیث مولانا ظفر احمد قاسم علامہ اقبال کا یہ شعر بڑے درد دل سے پڑھا کرتے تھے
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
دکھ بھری بات یہ ہے کہ ان سب تکلیفوں کے سہہ لینے کے باوجود بھی کچھ مقامات پر مضر صحت آٹا ملتا ہے،جو حفظان صحت کے اصولوں پر پورا نہیں اترتا۔
ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں ایک بوڑھا شخص ہاتھ میں روٹی پکڑے وزیر اعظم کو دہائی دے رہا ہے کہ "یہ ہے آپ کے عطا کردہ آٹے کا رزلٹ،جس کو استعمال کرکے میرا بچہ بیمار پڑگیا ہے۔"
مفت آٹے کی تقسیم کے بجائے کہیں بہتر تھا کہ آٹا سستا کردیا جاتا۔ہر غریب شخص با عزت طریقہ سے اس سے فائدہ اٹھا سکتا۔
بہرحال اب جو کام شروع کیا ہے،ضرورت ہے کہ اس میں بہتری لائی جائے اور ایسے اقدامات کیے جائیں، جس سے ان پریشانیوں کا ازالہ کیا جاسکے اور یہ ریلیف،مستحق باشندگان پاکستان کے لیے تکلیف نہ ہو۔
۔
نوٹ : یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔