کراچی میں 50ءکی دہائی میں 100کے لگ بھگ سنیما گھر ہوا کرتے تھے،ہندوستانی فلمیں تسلسل سے آتی تھیں
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:63
سنیما کلچر
کراچی میں سن 50ءکی دہائی میں کوئی100کے لگ بھگ سنیما گھر ہوا کرتے تھے ۔ فلم بینی کے بڑھتے ہوئے شوق اور لوگوں کے مالی حالات کچھ بہتر ہونے کی وجہ سے جب تماشائیوںکی تعداد بڑھی تو کوئی تیس چالیس نئے سنیما گھر اور بن گئے۔ان میں سے اکثر کراچی کے گردونواح میں واقع نئی بستیوں میں قائم ہوئے تھے۔ فلموںکی بھی کوئی کمی نہ تھی۔ ہندوستانی فلمیں ایک تسلسل سے کراچی آتی رہتی تھیں اور ساتھ ہی پاکستان کی فلم انڈسٹری بھی جوبن پر تھی، جو ہر ہفتے دو تین نئی فلمیں مارکیٹ میں بھیج دیتی تھی۔کئی سنیما تو صرف انگریزی فلموں کے لیے ہی مخصوص ہو کر رہ گئے تھے۔اس کے باوجود بھی ایک ایک فلم کابیک وقت اٹھارہ بیس سنیماﺅں میں لگنا ایک معمول کی بات تھی ۔
ایک روایتی سنیما میں بڑا سا ایک ہال ہوتا تھا جس کے داخلی دروازوں کو باہر سے کچھ سجا بنا کر اندر دکھائے جانے والی فلم کے دیو قامت پوسٹر عمارت پر لگا دیئے جاتے تھے۔ اسی طرح باقاعدگی سے سنیما دیکھنے والوں کے تجسس کو ابھارنے کےلئے آئندہ آنے والی فلموں کے بھی پوسٹر لگا دیئے جاتے تھے ،تاکہ یہ بات سب کے ذہن میں بیٹھ جائے اور وہ ذہنی طور پر آنے والی فلم کو دیکھنے کے لیے تیار ہو جائیں۔
ان دیدہ زیب پوسٹروں کی بہت قدر و قیمت ہوتی تھی۔ انہی کو دیکھ کر لوگ فلم کی طرف کھنچے چلے آتے تھے ۔ نئی فلم ہمیشہ جمعہ کے دن ہی لگتی تھی اور یہ ضروری تھا کہ اس کے پوسٹر پہلا شوشروع ہونے سے قبل ہی عمارت پرایستادہ ہو جائیں ۔ اس کے لیے تمام سنیما والوں نے پیشہ ور مصوروں کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں ۔ یہ بھی ایک طرح سے ان کے مستقل ملازمین ہی ہوتے تھے،تاہم اپنا معاوضہ وہ ماہانہ بنیاد پر نہیں بلکہ کام کے حجم اور اپنی مہارت کے بل بوتے پر ہی طے کیا کرتے تھے ۔ جب معاملات طے پا جاتے تو ان کو اگلے ہفتے لگنے والی فلم کے فنکاروں اور کرداروں کی چیدہ چیدہ تصاویر تھما دی جاتی تھیں جنہیں وہ دیوقامت رنگین پوسٹر کے روپ میں ڈھال دیتے، اور یہ ان ہی مصوروں کا کمال ہوتا تھا۔بعض اوقات تو یہ پوسٹر بس ایک دو دن کی مہلت پر ہی تیار کرنے ہوتے تھے، جس کے لیے وہ سنیما کے عقب میں یا قریب ہی کسی گلی میں مصروف کار ہو جاتے ۔ ویسے فلم کے پوسٹر بنانے کا سب سے بڑا مرکز مارسٹن روڈ پر تھا ، جہاں پروڈیوسر اور سنیما کے مالکان اپنی فلموں کے پوسٹر بنوانے کے لیے جاتے تھے ۔
مصور آنے والی فلم کے کرداروں کی ایک چھوٹی سی تصویر لے کر اس پر نہ جانے کیسے لکیریں وغیرہ لگا کر ایک خاص ترتیب سے چھوٹے چھوٹے خانے بنا لیتے تھے ، اور پھر سامنے دیوار پرٹکائے گئے بڑے بڑے کپڑوں کے کینوس پر اسی حساب سے کئی گنابڑے خانے بناتے اور کردار کا متناسب مگر بڑا سا خاکہ تیار کرکے اس میں رنگ بھر دیتے تھے ۔ یہ کام ہر حال میں جمعرات کی رات یا جمعہ کی صبح تک مکمل ہو جاتا تھا اور فوراً ہی یہ سب پوسٹر تیار ہو کر سنیما کی عمارت پر نصب کردیئے جاتے تھے ۔ آتے جاتے لوگوں کو فوراً پتہ چل جاتا تھا کہ اس روز وہاں کون سی نئی فلم کی نمائش ہونے والی ہے ۔ یہ اتنے شاندار اور پائے کے مصور ہوتے تھے کہ معمولی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ان میں سے کچھ بعد ازاں پاکستان کے نامور صورت گرقرار پائے ۔ ( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )