کالوں کا نام نہاد اعلیٰ طبقہ گوروں کی خوشامد میں اور خود کو باقی کالوں سے مختلف ثابت کرنے کیلئے اپنے ہم نسلوں کی تحقیر کرتا رہتا ہے

 کالوں کا نام نہاد اعلیٰ طبقہ گوروں کی خوشامد میں اور خود کو باقی کالوں سے ...
 کالوں کا نام نہاد اعلیٰ طبقہ گوروں کی خوشامد میں اور خود کو باقی کالوں سے مختلف ثابت کرنے کیلئے اپنے ہم نسلوں کی تحقیر کرتا رہتا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : میلکم ایکس( آپ بیتی)
ترجمہ :عمران الحق چوہان 
قسط :40
قطار حرکت کرتی رہی بہت جلد طبعی معائنہ والے کمرے میں افسران نے میرے کپڑے اتروا کر صرف نکر میں میرا معائنہ کیا۔ سارے ڈاکٹروں کی نگاہوں میں 4-F واضح تھا۔ اس کے بعد مجھے فوجی ماہر نفسیات کے پاس لیجایا گیا۔ استقبالیہ پر ایک سیاہ فام نرس موجود تھی جس کی عمر 20 کے لگ بھگ تھی اور دیکھنے میں کچھ ایسی بری بھی نہ تھی۔ وہ ان ”پہلے“ سیاہ فاموں میں سے تھے جو سرکاری شعبوں میں ملازمت کر رہے تھے۔ سیاہ فام ہی سمجھ سکتے ہیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ جنگ کے دوران سفید فام اپنے مسائل سے اس قدر خوفزدہ تھا کہ اس نے سیاہ فاموں کو بالٹی اور جھاڑو چھوڑ کر قلم کے استعمال کی اجازت دے دی تھی یا کسی دفتر میں کرسی پر بیٹھنے والی ملازمت۔ ماہر نفسیات کسی دوسرے شخص کے ساتھ مصروف تھا اور وہ سیاہ فام لڑکی مجھ سے پہلے ہی اتنی بے زار تھی کہ مجھے کسی ڈرامے کی ضرورت نہیں پڑی۔
 بالآخر ڈیسک پر رکھی گھنٹی بجی وہ بجائے مجھے اندر بھیجنے کے خور اندر چلی گئی مجھے علم تھا کہ وہ ڈاکٹر کو میرے متعلق اپنی رائے دینے گئی ہے۔ آج بھی کالوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کالوں کا نام نہاد اعلیٰ طبقہ گوروں کی خوشامد میں اور خود کو باقی کالوں سے مختلف ثابت کرنے کے لیے اپنے ہم نسلوں کی تحقیر کرتے رہتا ہے۔ انہیں احساس نہیں ہے کہ ان کے اس روئیے سے گورے ”تمام“ کالوں کے بارے میں منفی رائے قائم کر لیتے ہیں۔ ماہرِ نفسیات نے مجھ سے معروضی اور پیشہ ورانہ گفتگو کی وہ اپنی میز پر بیٹھا نیلی پنسل سے کاغذ پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچتا رہا اور تین چار منٹ تک میری پرجوش گفتگو سنتا رہا۔ وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ میں بھرتی ہونے کے لیے اتنا پر جوش کیوں ہوں؟ میں نے اس کا جواب ایک دم نہیں دیا۔ بات کو ادھر ادھر گھماتا رہا۔ بار بار دائیں بائیں شک بھری نظروں سے دیکھتا جیسے کوئی میری بات سن نہ لے۔ میں اچانک اپنی کرسی سے اٹھا اور جس دروازے سے اندر داخل ہوا تھا اس کے اور ایک دوسرا دروازہ جو غالباً الماری کا تھا کے نیچے جھانکا اور جھک کر اس کے کان میں کہا ”بات یہ ہے یہاں پر اس وقت ہم دونوں ہیں اور یہ بات باہر نہیں نکلنی چاہیے میں شمالی علاقے کا رہنے والا ہوں میری آرزو ہے کہ مجھے جنوبی علاقے میں بھیجا جائے وہاں جا کر میں کالے فوجیوں کو منظم کروں ٹھیک ہے؟ پھر کچھ بندوقیں چوری کروں اور اپنے مخالفوں کا قلع قمع کر دوں۔“
 ماہر نفسیات کے ہاتھ سے نہ صرف نیلی پنسل ہی گر گئی بلکہ اس کے چہرے سے پیشہ ورانہ تاثرات بھی اڑ گئے۔ وہ مجھے ایسے گھور رہا تھا جیسے میں ایک ایساانڈہ ہوں جس میں سے سانپ نکلنے ہی والا تھا۔ وہ اپنی سرخ پنسل ڈھونڈنے لگا۔ مجھے پتہ تھا میں کامیاب ہوگیا ہوں۔ جب میں سیاہ فام لڑکی کے پاس سے گزرا تو مجھے ڈاکٹر کی آواز سنائی دی جو لڑکی سے کہہ رہا تھا۔ ”آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔“
 ایک4-F کارڈ مجھے بذریعہ ڈاک موصول ہوا اور دوبارہ کبھی کسی نے مجھ سے فوج کا ذکر بھی نہیں کیا۔
 اٹھائی گیرا
 اگلے2 سالوں میں ہارلم میں میں نے کتنی چوری چکاری کی کچھ ٹھیک سے یاد نہیں۔ کیونکہ میں نے ٹرینوں میں ریفرز بیچنے کا کام ترک کر دیا تھا وجہ یہ تھی کہ ریلوے کے کالے ملازم اپنی گاڑی کے انتظار میں گرینڈ سنٹرل سٹیشن پر نچلے درجے کے بڑے لاکر روم میں جوا ءکھیلتے رہتے تھے یہ کام 24 گھنٹے جاری رہتا۔ بعض اوقات میز پر 500 ڈالر تک کھیلتے۔ ایک روز بلیک جیک کھیلتے ہوئے ایک باورچی نے پتے بانٹنے میں ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی اور میں نے غصے میں اپنا پستول نکال لیا۔
 اگلی بار جب میں جوا ءکھیلنے گیا تو یونہی چھٹی حس کے تابع میں نے اپنا پستول پیچھے کرکے درمیان میں اڑس لیا۔ لیکن میری مخبری ہو چکی تھی دو بڑے اور موٹے آئرش سپاہی اندر آئے میری تلاشی لی اور خوش قسمتی سے میرا پستول برآمد نہ کر سکے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ آئندہ جب تک میرے پاس کہیں جانے کا ٹکٹ نہ ہو میں اسٹیشن پر نظر نہ آﺅں چنانچہ میں نے دوبارہ کبھی ریل روڈ نوکری کی کوشش ہی نہیں کی۔
 میں دوبارہ ہارلم آگیا اور دیگر بہت سے اچکوں اور اٹھائی گیروں میں شامل ہوگیا۔ میں ایک حقیقی اچکا تھا ”کسی بھی معزز کام کے لیے ناموزوں اور اناڑی“ اور میرا خیال تھا کہ میں اتنا چالاک ضرور ہوں کہ کسی کو بھی اپنا شکار بنا سکتا ہوں۔( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

ادب وثقافت -