وقت کی قدر .... یہودی افسر اور قلی
فرانس کے دارالحکومت پیرس کے وسطی علاقے میں واقع ایک نجی دفتر میں تھرتھلی مچی ہوئی تھی۔ ایک طوفان برپاتھا۔ لگتا تھا کہ جیسے نائن الیون سے بڑا واقعہ ہوگیا ہو۔ جیمز نامی دفتر کا منیجر غصے سے لال پیلا ہورہا تھا۔ایک اعلیٰ سطح کی انکوائری کے آرڈر دیئے جارہے تھے۔ جیمز کا حکم تھا کہ چاہے جتنے وسائل لگ جائیں، جرم کے مرتکب شخص کو بے نقاب کرکے قرار واقعی سزادی جائے۔بات صرف اتنی تھی کہ کمپنی کے پچھلے ماہ کے ٹیلی فون بل میں دفتر کے کسی ملازم کی بیس منٹ کی کال درج تھی۔
یہودی منیجر نے دفتر کے ریکارڈ سے لے کر محکمہ ٹیلی فون تک تحقیقات کا دائرہ بڑھا دیا۔ جیمز نے مطلوبہ شخص کو تلاش کرنے کے لئے کمپنی کے ہزاروں یورو لگا دیئے۔ کمپنی کی انتظامیہ کو جب اس واقعے کی تحقیقات کے لئے اُٹھنے والے اخراجات کا علم ہوا تو اس نے منیجر کو لکھا کہ صرف 20 منٹ کی کال پر چند یورو ضائع ہوئے، جبکہ اس معاملے کی جانچ پڑتال پر ہزاروں یورو خرچ ہو رہے ہیں اور یہ کہ منیجر کی ناقص منصوبہ بندی اور غلط فیصلے سے کمپنی کو بے جا نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہودی منیجر نے انتہائی فیصلہ کن الفاظ میں کمپنی انتظامیہ کو لکھا کہ مَیں اتفاق کرتا ہوں کہ 20 منٹ کی کال پر اخراجات معمولی بات ہے، لیکن غیر معمولی بات یہ ہے کہ اس کمپنی میں ایک ایسا شخص موجود ہے، جس کے پاس ڈیوٹی کے دوران 20 منٹ ضائع کرنے کا فالتو وقت موجود ہے اور جس کمپنی کے ملازم اتنے فارغ ہیں کہ وہ 20 منٹ کی غیر ضروری ٹیلی فون کال کرسکتے ہیں وہ کمپنی سالوں میں نہیں دنوں میں دیوالیہ ہوجائے گی۔کمپنی انتظامیہ نے منیجر کی دلیل میں وزن دیکھا اور تحقیقات جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔
مَیں یہ واقعہ اپنے دوست شاہ جی سے شیئر کررہا تھا تو وہ حیرت سے میرا منہ تکنے لگے اور کہنے لگے کہ سرجی اگر ایسا یہودی افسر ہمارے ملک کے سرکاری دفاتر میں لگا دیا جائے تونہ صرف ہمارا دیوالیہ نکل جائے گا، بلکہ ہم تباہ و برباد ہوجائیں گے۔شاہ جی کیسی باتیں کررہے ہیں؟ بیگم سے تازہ تازہ جھاڑ کھا کے تونہیں آئے ؟لیکن شاہ جی مجھے سنجیدہ نظر آئے، کہنے لگے سر جی دیکھیں ہمارے سرکاری دفاتر میں جتنے لوگ فارغ بیٹھے ہیں اور جس بے دردی سے وقت کا ضیاع کررہے ہیں ؟ آپ کو اندازاہ ہے کہ ہماری تو فون پر رسمی سلام دعا میں بیس منٹ سے زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ یہودی افسر اگر ہمارے دفاتر میں لگ جائے اور وقت ضائع کرنے کی تحقیقات کرنا شروع کر دے تو یقین مانئے ہمارے ملک کا سارا بجٹ اسی پر لگ جائے گا اور ہوسکتا ہے کہ اس کے لئے ہمیں یورپی یونین اور امریکہ سے ....مزیدا مدد مانگی پڑے۔
مَیں شاہ جی کی اکثر باتوں کو سنجیدہ نہیں لیتا، لیکن اس مرتبہ مجھے ان کی دلیل میں وزن لگا اور مجھے اپنے ایک سینئر کی بات یاد آگئی کہ سرکاری ملازمین کو اگر گھر پر ہی تنخواہ بھجوا دی جائے تو ادارے کے کئی غیر ضروری اخراجات کم کئے جاسکتے ہیں۔ وہ سرکاری ملازم جو صرف دفتر وں میں رشتہ داروں اور دوستوں کو لمبی لمبی کالیں کرتے ہیں، اخبارات پڑھتے رہتے ہیں، کرسیاں توڑتے ہیں اور چپڑاسی سے سارا دن چائے بنواتے ہیں، کم از کم ادارہ ان کی ان عیاشیوں سے تو محفوظ ہوجائے گا۔خاص طورپر اگر خواتین ملازمین کو ان کے گھر میں تنخواہ پہنچا دی جائے تو دفتر کے ساتھ ساتھ ان کے گھریلو بجٹ میں بھی خاصا فرق پڑے گا اور غیر ضروری میک اَپ اورزیبائش پر اُٹھنے والے اخراجات گھر کی ضروریات پرصرف کئے جاسکیں گے۔ خواتین کے دفتر نہ آنے سے ان کے مرد کولیگ بادل ناخواستہ سہی، فائلوں میں منہ تو ماریں گے۔
ہمارے ہاں خوشی اور غم پر بھی وقت کو آسانی سے ضائع کیا جاتا ہے۔ بارات تو کبھی وقت پر پہنچی ہی نہیں، یقین مانیں کہ اگر شادی ہال کا منیجر وہی فرانسیسی یہودی ہو تو99 فیصد دلہے سہاگ رات منانے کی بجائے پولیس سے چھتر کھائیں۔ ہمارے ہاں تو جنازے بھی تاخیر سے ہوتے ہیں ۔ شاید دفن ہونے والا شخص بھی یہ سوچتا ہوگا کہ میری آخری رسوم میں شرکت کے لئے آنے والوں کے دل تو نہ دکھاﺅ۔ وقت کی قدر تو ہمارے سیاست دانوں سے پوچھیں، جو کسی بھی تقریب میں وقت پر نہیں آتے اور جب آجاتے ہیں تو اپنی تقریر کا زیادہ وقت لیٹ ہونے کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے ضائع کر دیتے ہیں۔ اگر ان تقریبات کا انچارج یہودی فرانسیسی افسر ہو تو تمام سیاستدانوں کو صرف اسی جرم میں نااہل قرار دے دے۔
پچھلے دنوں مجھے ایک دوست کو لینے کے لئے ریلوے سٹیشن جانے کا اتفاق ہوا جو کراچی سے بحالت مجبوری بذریعہ ٹرین لاہور آ رہے تھے،کیونکہ فلائٹیں پچھلے کئی دنوں سے لیٹ یا کینسل ہو رہی تھیں۔ مَیں اپنی طرف سے خوش تھا کہ گاڑی آنے کے مقررہ وقت سے پہلے ریلوے سٹیشن پہنچ گیا ہوں....کہ اچانک انفارمیشن آفس سے اناو¿نسمنٹ ہوئی کہ ٹرین دو گھنٹے لیٹ ہوگئی ہے۔ میری سوچ ریلوے کے پورے نظام کے اردگرد گھوم گئی کہ سفر کا یہ عوامی ذریعہ کتنی بدحالی کا شکار ہوگیا ہے۔ ریلوے میں کام کرنے والے کسی دور میں بابو کہلاتے تھے۔ آج ان کی حالت فقیروں سے ابتر ہوگئی ہے۔ وقت گزارنے کے لئے میں اِدھر اُدھر گھومتا رہا۔ مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ جس طرح میں اپنا وقت ضائع کررہا ہوں کہیں فرانسیسی یہودی افسر نہ دیکھ لے۔ابھی یہ خوف کی لہر میرے ذہن میں تھی کہ سٹیشن کی سامنے والی سیڑھیوں پر ایک ادھیڑ عمر قلی افسردہ بیٹھا نظر آیا۔ ناجانے کیا خیال آیا کہ مَیں بے اختیار قلی کے پاس چلا گیا۔ بابا جی کیسے ہیں؟ ....میرے حال پوچھنے پر عمر رسیدہ اور تھکے ہوئے مزدور نے میری طرف ایسے دیکھا جیسے میں اس کا مذاق اُڑا رہا ہوں۔ مَیں نے بابا جی کے پاس بیٹھتے ہوئے ان کی آنکھوں میں جھانکا پانی سے بھری ہوئی دھندلائی آنکھیں ریلوے کی زبوں حالی کی داستان سنا رہی تھیں۔
بابا جی ریلوے کو کیا ہوگیا ہے؟ کس کی نظر لگ گئی ؟ بوڑھے قلی نے کمر کو سیدھا کیا اور دھیمے لہجے میں بولا کہ ریلوے کو کچھ نہیں ہوا.... سرجی بات یہ ہے کہ ٹرینوں نے وقت پر آنا چھوڑ دیا ہے....اتنے میں انفارمیشن آفس سے دوبارہ اناﺅنسمنٹ ہوئی کہ کراچی سے لاہور آنے والی ٹرین مزید دو گھنٹے لیٹ ہوگئی ہے۔ دیکھ لیں....ٹرین اور لیٹ ہوگئی ہے۔ بابا جی نے اپنے سر سے پٹکا کھولتے ہوئے جیسے اُٹھنا چاہ رہے ہوں، میرے کندھے پر بازو رکھا اور دُکھ اور کرب سے بولا لیں، بابو جی ہمارا آج کا دن بھی ضائع گیا۔ گھنٹے بعد ٹھیکیدار کے نئے بندے آجائیں گے اور مجھے ایک بار پھر خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑے گا۔سرجی ....اگر ریلوے کے مزدوروں کے گھر کے چولہے نہیں جلیں گے تو پٹڑی پر ٹرین کیسے چلے گی۔مزدور بابا ریلوے سٹیشن سے نکل سڑک کی بھیڑ میں گم ہو گیا اور میں سوچنے لگا کہ ریلوے کو سہارا دینے کے لئے حکومتی اور محکمے کی سطح پر کتنی ہائی لیول میٹنگز ہو رہی ہیں، اربوں روپے کی ڈیمانڈ کی جارہی ہے۔ریلوے کی بحالی کے لئے غیر ملکی ماہرین سے مشاورت کی جارہی ہے، لیکن ساری زندگی ٹرین کے ڈبوں کے ساتھ بھاگنے والے اور دوسروں کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اُٹھانے والے اس مزدور کی بات میں کتنی تلخ حقیقت ہے؟ جب تک ہم وقت کی قدر نہیں کریں گے اور ٹرین وقت پر نہیں آئے گی تو اربوں روپے بھی اس ادارے کی بحالی کے لئے ناکافی ہیں....مجھے فرانسیسی یہودی افسر کی بات پر یقین ہوگیا کہ چاہے کتنے وسائل لگ جائیں، وقت ضائع کرنے والوں کو تلاش کرکے قرار واقعی سزا ضرور دینی چاہئے۔ ٭