انسانیت کی بقائ

انسانیت کی بقائ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 انسانی حیات کی بقاءکے لئے ابھی تک زمین ہی واحد جگہ ہے۔ یہ زمین جہاں زندگی کی نمو کے لئے تمام ضرورتیں پوری کرتی ہے، وہیں اس پر قدرتی آفات اور بیماریاں بھی موجود ہےں، لیکن انسانی حیات ”انسانیت کی بقائ“ پر قائم ہے۔ زمانہ قبل از وقت سے ہی انسان نے یہ راز پالیا تھا کہ اُس کی بقا تبھی ممکن ہے ،جب وہ مل جُل کررہے گا۔ جبلی طور پر زمین پر موجود ہر مخلوق اپنی نسل کو آگے بڑھانے کی شدید خواہش رکھتی ہے۔ انسان نے بھی اپنی بقاءکے لئے خاندان، قبائل اور پھر اقوام بنائیں اور اپنی ذہنی طاقت کی وجہ سے باقی مخلوقات سے آگے بڑھ گیا، جس میں رہنے والے افراد نے آپس میں زندہ رہنے اور اپنی افزائش کو آگے بڑھانے کے لئے معاہدے کئے اور اس طرح جدید انسانی معاشرے کی تشکیل ہوئی اور یہ سفر جاری ہے،لیکن جب کچھ معاشروں میں مادیت پرستی حد سے آگے بڑھ گئی ،ان معاشروں میں بگاڑ پیدا ہوا اور ایسے معاشرے بگڑتے یا فنا ہوتے رہے، انسان انسان کے ہاتھوں برباد ہوتا رہا اور یہ عمل آج بھی جاری ہے۔
 کسی بھی معاشرے میں موجود برائی کی قوتیں اپنے ذاتی مفادات کے لئے خرافات (Myths) کو فروغ دیتی ہےں۔ ہر دور کی اپنی ضرورتیں ہوتی ہےں اور معاشرے ان ضرورتوں کے مطابق اصول وضع کرتے رہتے ہےں۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ اصول پرانے ہوجاتے ہےں اور وقت کی نئی سچائیوں کا ادراک نہیں کرسکتے ،لیکن ان اصولوں سے فائدہ حاصل کرنے والی قوتیں لوگوں میں ان اصولوں کے لئے محبت یا لگاو¿ کا جذباتی تعلق پیدا کردیتی ہےں،جس سے اُن میں ان اصولوں کے مستند ہونے کا یقین ایمان کی حد تک پختہ ہوجاتا ہے۔ معاشرے میں موجود مثبت سوچ کے حامل افراد اور دانشور لوگوں کے سامنے نئے نظریات اور خیالات پیش کرتے ہےں اور لوگوں کو آگاہ کرتے ہےں کہ اب پرانے اصول وقت کا ساتھ نہیں دے سکتے، اس لئے تبدیلی کی ضرورت ہے۔جو معاشرے اس تبدیلی کو قبول کرلیتے ہےں، وہ آگے بڑھتے ہوئے ترقی کی راہ پر نکل جاتے ہےں، لیکن وہ معاشرے جو پرانے اصولوں کو مذہب کا درجہ دےتے ہوئے ان کو اپنی روایات، رسم و رواج کا نام دے دیتے ہےں، جمود کا شکار ہوکر بگاڑ کا باعث بن جاتے ہےں اور ان کے باسی خرافات اور مغالطوں کے عشق میں مبتلا ہوجاتے ہےں۔
پاکستانی معاشرہ بھی اپنے ارد گرد ہونے والی تبدیلیوں کو قبول نہیں کرپارہا۔ خرافات کا شکارپاکستانی معاشرہ مادیت پرستی کے موذی مرض میں مبتلا ہے اور یہاں رہنے والوں میں بھی زیادہ سے زیادہ پیسہ اکٹھا کرنے کے لئے دوڑ لگی ہوئی ہے۔ مال کی محبت اور کثرت کی خواہش کے نتیجے میں تکبر، حرص، بخل، ہوس اور خودغرضی عام ہے۔ اس افراتفری کے دور میں چند لوگ اور کچھ ادارے ایسے بھی ہےں جو انسانیت اور انسانی زندگی کے بارے میں سوچتے اور کام کرتے ہےں۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال اس بات کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے، جہاں پر کینسرجیسے مہنگے ترین مرض کے غریب مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔پاکستان میں کینسر کے مریضوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے، لیکن حکومت کی طرف سے عوام کے لئے صحت کی سہولتیں نہ ہونے کے باعث ملک بھر کے کینسر کے مریضوں کے علاج کا بوجھ اسی ہسپتال پر پڑتا ہے۔ یہ ہسپتال پھر بھی اپنی استعداد سے بڑھ کر انسانی خدمت کررہا ہے۔
ہسپتال نے اسی ضرورت کے مدّنظر پشاور میں کینسر کے نئے جدید ہسپتال کی تعمیر شروع کردی ہے، جس سے خیبر پختونخوا کے لوگوں کو ان کے گھر کے نزدیک کینسر کے علاج کے لئے جدید سہولیتیں میسر آسکیں گی۔ مزید برآں، روزگار اور جدید تربیت کے نئے ذرئع بھی پیدا ہوں گے۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال عوام سے جمع کئے گئے زکوٰة وعطیات کو شفافیت سے غریب مریضوں پر خرچ کرکے بطور ادارہ بھرپور ترقی کررہا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں اصلاح کی بہت ضرورت ہے۔ ایسے اداروں اور دانشوروںکی ضرورت ہے جو عوام کو بتائیں کہ حالات اور وقت کی تبدیلی کی وجہ سے کون سی مثبت تبدیلیاں ہےں ،جو رائج ہونی چاہئیں اور کون سی خرافات ہےں ،جن کو اب ماضی کا قصہ بن جانا چاہئے۔ عوام کو چاہئے کہ وہ ایسے اداروں کو مالی اور جذباتی مدد فراہم کریں جو معاشرے کے تنزل پذیر طبقات کو سہارا دے رہے ہےں اورجن کا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے۔ اللہ ہمیں نیک کام کرنے کی توفیق دے۔ آمین!  ٭

مزید :

کالم -