ڈی چوک کو تحریر سکوائر نہ بنائیں
اب جبکہ عساکر پاکستان ملک کی ایک اہم جنگ میں مصروف ہیں، ہمیں اطراف سے جو اطلاعات پہنچ رہی ہیں وہ حوصلہ افزاءنہیں ہیں۔ ایک طرف 14اگست کے آزادی مارچ کا غوغہ ہے تو دوسری طرف آزادی پریڈ کی نوید مل رہی ہے۔ تاریخ سے ہمیں کافی گواہیاں مل جائیں گی کہ ہم نے ہمیشہ پشیمانی اور پریشانی کو دعوت دے کر ہی بلایا ہے۔ موجودہ سیاسی صورت حال کا جائزہ لیتے وقت اس بات کو سمجھنے میں زیادہ دانش کی ضرورت نہیں ہے کہ پریشانی کو دعوت دینے میں ہمارے سیاسی عمائدین کس قدر عقل سلیم رکھتے ہیں۔ آزادی مارچ کے نام سے عمران خان جو اقدامات اٹھانے جارہے ہیں، وہ ہماری قومی زندگی میں ارتعاش پیدا کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اس معمے کو سمجھنے کے لئے آزادی مارچ کے پس پردہ مصلحت کو جاننا ضروری ہے۔ عمران خان اور ان کے حواری یہ سمجھتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں ان کی حکومتی کارکردگی ایسی قابل ستائش نہیں ہے، جس کی بنیاد پر آئندہ الیکشن میں انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوسکتی ہے، اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ وسطی انتخابات کا ڈول ڈالا جائے تاکہ اگر زیادہ نہیں تو سابقہ نتائج بھی حاصل ہونے سے انہیں نئی زندگی مل سکتی ہے۔ مزید برآں تحریک انصاف کے پالیسی سازوں کو امید ہے کہ ان انتخابات سے پنجاب میں بھی ان کی سیاسی کامیابی کو مہمیز مل سکتی ہے۔
بہتر تو یہ ہوتا کہ عمران خان صوبے میں مہاجرین کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے لئے رات دن ایک کرکے قومی خدمت بجالاتے اور اپنے ہم وطنوں کے مصائب کا مداوا کرنے کی کوشش کرتے جو پاکستان کی آزادی اورسکون کی خاطر اپنے گھر بار کی قربانی دے کر ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں سب سے اذیت ناک سفر اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنا ہی ہوتا ہے۔ ایسے سفر کی اذیت ان لوگوں سے پوچھی جاسکتی ہے جو قیام پاکستان کے موقعہ پر ہندوستان سے اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان کے لئے ہجرت پر مجبور ہوئے۔ اس وقت مہاجرین کی بحالی ہمارا سب سے بڑامسئلہ ہے، جسے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو مل کر حل کرنا ہے، لیکن اس پر بھی سیاست ہورہی ہے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دونوں حکومتیں پارٹی سیاست سے بالاتر ہوکر اس مسئلے کو حل کرتیں، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے لئے پارٹی پالیٹکس سے اوپر اٹھنا ناممکن ہے، کیونکہ اس طرح کا سیاسی کلچر ہمارے ہاں پروان ہی نہیں چڑھ سکا۔
عمران خان آزادی کے دن ملین مارچ برپا کرنا چاہتے ہیں۔ شاید اس عمل کے عواقب وعوامل پر انہوں نے غور نہیں کیا۔ ان کو ادراک ہونا چاہئے کہ ملک اس وقت ایک بڑی جنگی صورت حال سے گزر رہا ہے۔ دہشت گردی کی اس مہیب جنگ میں ہمارا جتنا مالی اور جانی نقصان ہوا ہے، اس سے پیشتر کسی جنگ میں نہیں ہوا۔ علاوہ ازیں دہشت گردی کی وجہ سے خارجی طورپر ملک کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ہمیں اس بات کا احساس کیوں نہیں ہورہا کہ یہ جنگ ہماری بقا کی جنگ ہے اور اس کی کامیابی ہی ہماری منزل ہے، قوم کا سب کچھ اس کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے، اس میں ناکامی کا ملک متحمل ہوہی نہیں سکتا۔ ان حالات میں جبکہ ہمیں اتحاد، یگانگت یکسوئی، وحدت فکر اور یکجہتی کی اشد ضرورت ہے، ہم آزادی مارچ جیسی عیاشی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
عمران خان کو چاہئے کہ ملک کے مفاد کی خاطر اپنے دشمن کو یہ پیغام دیں کہ اس کے ساتھ نمٹنا ہماری اولین ترجیح ہے۔ آزادی مارچ میں عمران خان کا ساتھ اگر طاہرالقادری بھی دے دیں تو یہ بہت تشویش کی بات ہو سکتی ہے۔ مَیں نہیں کہتا کہ اس صورت حال سے حکومت کی تبدیلی عمل میں آجائے گی لیکن یہ بھی حقیقت ہے اس قسم کا سیاسی ارتعاش پیدا ہونے سے دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ تحریک انصاف کو اس سلسلے میں اپنی پالیسی کا ازسرنو جائزہ لینا چاہئے اور اپنی حکمت عملی میں ترمیم کرکے اس قسم کے مارچ کو کسی اور وقت پر اٹھا رکھنا چاہئے۔جہاں تک حکومت کا تعلق ہے، اس ضمن میں اس کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ یہ بات قابل افسوس ہے کہ حکومت کی پالیسی کی حمایت بھی نہیں کی جاسکتی۔ حکومت نے ایک ماہ تک آزادی کی تقریبات کا انعقاد کرنے کے لئے چار رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے اور عندیہ دیا ہے کہ ڈی چوک میں سات یوم تک جشن منایا جاسکتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ حکومت نے یہ اعلان کرکے اپنی مزاحمتی پالیسی کا بگل بجایا ہے۔ ڈی چوک میں آزادی پریڈ کے نام سے تماشہ لگانے کا جواعلان کیا ہے، اسے بھی دانائی کا نام نہیں دیا جاسکتا۔
یہ حقیقت ریکارڈ پر موجود ہے کہ ماضی میں چودھری شجاعت حسین جب عبوری وزیراعظم تھے تو انہوں نے بھی فوجی پریڈ یوم پاکستان کے موقعہ پر ڈی چوک میں منعقد کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر سابق صدر پرویز مشرف نے اسے منسوخ کروا کر کنونشن سینٹر منتقل کروادیا تھا،حالانکہ پریڈ وغیرہ کی تمام تیاریاں ہوتی آرہی تھیں۔ اب جبکہ تحریک انصاف نے آزادی مارچ کا اعلان کیا ہے تو حکومت نے بھی مزاحمتی پالیسی اپناتے ہوئے ضد کا مظاہرہ کیا ہے اور فوجی پریڈ کو ڈی چوک ہی میں منعقد کرنے کا پروگرام بنایا ہے، حکومت پر زیادہ فرض عائد ہوتا ہے کہ امن وامان کی صورت حال کو مخدوش بنانے سے گریز کرتے ہوئے اپنے پروگرام پر نظرثانی کرے اور اشتعال کی سیاست سے پرہیز کرے۔ حکومت کے جن وزراءکو مخاصمت کی اس فضا کو بڑھاوا دینے کے لئے مامور کیا گیا ہے،ان کو بیان بازی سے منع کرے۔ ان لوگوں کوہوش کے ناخن لیتے ہوئے جلتی پر تیل کا کام کرنے کی بجائے مفاہمت کی فضاءقائم کرنی چاہئے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ چند حکومتی وزراءنتائج کی پروا کئے بغیر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے دوسرے فریق کو اشتعال دلانے کی کوشش کررہے ہیں، اگر تحریک انصاف سے اپنے احتجاجی پروگرام میں ترمیم کا تقاضہ کیا جارہا ہے تو حکومت کو بھی یہ سمجھنا چاہئے کہ حسب سابق یہ فنکشن کنونشن ہال میں کیوں نہیں کروایا جاسکتا؟ کیا ایسا کرنے سے حکومت کی مونچھ کے نیچے ہونے کا تاثر ملے گا؟ اگر ایسا ہی ہوتو بھی ارباب اختیار ہوتے ہوئے امن وامان کے قیام کے لئے اسے پہل کرنا ہوگی اور سیاسی مخاصمت کو کم کرنے کے لئے کوشش کرنی ہوگی۔ اس سلسلہ میں حکومت چودھری نثار کی خدمات سے استفادہ کرسکتی ہے جو زیرک سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ عمران خان صاحب کے لئے بھی قابل قبول ہوسکتے ہیں، کیونکہ بات چیت سے بڑے سے بڑے مسائل ہوسکتے ہیں۔
دانش مندی کا پہلا ثبوت حکومت کی طرف سے آنا چاہئے۔ اگرچہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف یہ تاثر دینے کی کوشش میں ہیں کہ عمران خان کے آزادی مارچ سے ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، لیکن کیا اس اعصابی جنگ کو دانش کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اگر تحریک انصاف سیاسی حکمت عملی کے اس مظاہرے سے اپنے سیاسی اہداف حاصل کرنا چاہتی ہے تو یہ اس کے لئے مناسب وقت نہیں، کیونکہ اس بات کی کون ضمانت دے سکتا ہے کہ اس ہیجان انگیز صورت حال کے نتیجے میں کوئی منفی صورت حال پیدا نہیں ہوسکتی۔ اگرچہ ہر سیاسی جماعت کو اپنی سیاسی حکمت عملی کے ذریعے حکومت بدلنے کا حق حاصل ہے، لیکن ایسا کرنا قوم کے مفاد کے منافی نہیں ہونا چاہئے۔ بے شمار اندرونی اور بیرونی قوتیں اس بات کے لئے کوشاں ہیں کہ ملک میں امن اور سکون کی فضا پیدا ہو۔ ایسی فضا کو پیداہونے سے روکنا ہی اس وقت قومی خدمت ہے ، کیونکہ حکومت کے ساتھ سکور برابر کرنے کے کئی اور مواقع آئیں گے۔ حکومت کو فوراً انا کا مسئلہ چھوڑ کر ملکی امن اور قومی یکجہتی کی خاطر آگے بڑھ کر عمران خان، طاہر القادری اور دیگر مخالف سیاسی زعماءسے بات کرنے میں پہل کرنا ہوگی۔
وزیراعظم کو معاملات چند ناعاقبت اندیش ساتھیوں پر نہیں چھوڑنے چاہئیں اور حالات کی ڈوراپنے ہاتھ میں رکھنی چاہئے،کیونکہ اس تاریخی دوراہے پر جو فریق پہل کرے گا، وہ اپنا سیاسی مقام بلند کرسکتا ہے اور انا کا مسئلہ بنانے والے فریق کو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔ جب جمہوریت کی بقا کی بات ہوگی تو یہ تبھی ممکن ہوگا جب انا کا بت توڑ کر افہام وتفہیم اور عقل ودانش سے کام لیتے ہوئے سیاسی زعماءقوم کی امنگوں کی ترجمانی کریں گے، ہوسکتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن امن وامان کے معاملے میں سنجیدہ ہوں، لیکن عوام کے بڑے اژدہام میں کسی طرف سے کوئی شرارت ہوگی تو نتائج کی ہولناکی کی ذمہ داری فریقین پر ہوگی، اس لئے ہمارا مشورہ ہے کہ ہمارے سیاسی زعماءمدبر سیاستدان ہونے کا ثبوت فراہم کریں اور صورت حال کو مزید بگاڑسے بچا یا جائے ۔ اس ضمن میں حکومت پہل کرتے ہوئے چار متنازعہ حلقوں میں رضاکارانہ طورپر دوبارہ گنتی پر راضی ہوجائے تو حالات کو سنگین تر ہونے سے بچایا جاسکتا ہے ایسا کرنے سے سارے انتخابی عمل پراثر نہیں پڑسکتا۔ اگر تین چار ایسی شخصیات پر اس کی زد پڑتی ہے تو ملک اور قوم کے لئے بڑی قربانی نہیں اور نہ ہی حکومت کے لئے یہ کوئی گھاٹے کا سودا ہوگا، بلکہ یہ اس کی سیاسی جیت ہوگی اور عمران خان کے لئے بھی اس سے آگے بڑھ کر امن وامان کا مسئلہ پیدا کرنا مشکل ہوجائے گا، اس لئے ڈی چوک کو تحریر سکوائر بنانے سے گریز کرنا چاہئے، کیونکہ تحریر سکوائر میں لگی ہوئی آگ آج تک بجھائی نہیں جاسکی۔