ملاوٹ کے انسداد کی مہم!
صوبائی حکومت نے اشیاء خوردنی میں ملاوٹ کی روک تھام کے لئے موجودہ قانون میں ترمیم کر کے اسے ناقابلِ ضمانت جرم قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے بعد سزا میں بھی اضافہ کیا جائے گا، وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں فوڈ کنٹرول اتھارٹی کی کارکردگی کو سراہا گیا اور یہ بھی طے ہوا کہ اس کا دائرہ کار دوسرے شہروں تک بھی بڑھایا جائے۔ وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ راولپنڈی، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور ملتان سمیت کم ازکم آٹھ شہروں میں یہ اتھارتی قائم کی جائے۔وزیراعلیٰ لاہور اتھارٹی کی کارکردگی سے اتنے مطمئن تھے کہ انہوں نے سربراہ کو تعریفی سند سے نوازا۔لاہور میں فوڈ کنٹرول اتھارٹی کے قیام کے بعد سے عملے نے چھوٹے بڑے ہوٹلوں اور ریستورانوں تک بلاتخصیص چھاپے مارے اور ملاوٹ سے ناقص صفائی تک کے حوالے سے چالان اور جرمانے کئے، بعض حضرات کو حوالات اور جیل کی بھی سیر کرانا پڑی۔ ریستورانوں کے مالکان نے احتجاج بھی کیا اور کر رہے ہیں کہ فوڈ اتھارٹی غیر ہنر مند ہے۔ تاہم اتھارٹی حکام کا کہنا ہے کہ صفائی کے حوالے سے مہارت کے لئے کسی ڈگری کی تو ضرورت نہیں اور ناقص خوراک بھی ہر ایک کو نظر آ جاتی ہے۔ اب اس اتھارٹی کے دائرہ کار کو بھی بڑھایا جائے گا اور خوراک کے علاوہ اشیاء خوردنی کے نمونے بھی لے سکے گی، جن پر حتمی کارروائی لیبارٹری کے نتائج کے بعد ہو گی۔ وزیراعلیٰ نے بجا کہا کہ کسی کو منافع کی خاطر انسانی زندگیوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
فوڈ کنٹرول اتھارٹی کی سرگرمیوں اور اس کی طرف سے جانچ ہڑتال اور کارروائی پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے، خصوصاً جو ریستوران یا دکاندار صفائی اور خالص اشیاء کا دھیان رکھتے ہیں ان کو فکر مندی کیوں؟ یہ حقیقت ہے کہ شہری زیادہ قیمت خرچ کر کے بازار سے کھاتے اور بیماریاں خرید کر آتے ہیں، جو لوگ اس عمل سے رزق کماتے ہیں،ان کو تو اپنی شہرت کی خاطر صفائی اور معیار کا خیال رکھنا چاہئے، فوڈ کنٹرول اتھارٹی کے چھاپوں سے بہتری آئی تو یہ اچھا اقدام ہے۔جہاں تک ملاوٹ کے کاروبار کا تعلق ہے تو یہ کھلے بندوں ہوتا ہے، اشیاء خوردنی میں ملاوٹ عام ہے اور انتہائی مضر صحت اشیاء کی ملاوٹ کی جاتی ہے، جو بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔دراصل قانون میں سقم تھے ان کو دور کرنے کی ضرورت ہے اور ادھر وزیراعلیٰ نے توجہ دی تو بہتر کیا ہے، کیونکہ حالات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مذموم کاروبار کرنے والے کمزور قانون کا فائدہ اٹھاتے ہیں، اس سلسلے میں وزیراعلیٰ کی توجہ اشیاء خوردنی کی ملاوٹ ٹیسٹ کرنے والی لیبارٹری کی طرف بھی دلانا ہے کہ لاہور میں ضلعی حکومت کے زیر اہتمام ایک ہی لیبارٹری ہے جو دورِ جدید کی سہولتوں سے بہرہ ور نہیں، لاہور میں ایسی دو تین لیبارٹریوں کی ضرورت ہے، جو ہر قسم کی اشیاء مع دودھ اور مٹھائی کی بھی پڑتال کر سکیں۔ اس کے علاوہ یہ امر بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ لیبارٹری سے نتیجہ مثبت حاصل نہ کیا جا سکے اور جو حقیقی ہو وہی حکام کو دیا جائے۔ خوراک اور اشیاء خوردنی کے معیار کو سو فیصد درست بنا کر ہی امراض سے نجات مل سکتی ہے۔