فدا حسین گِل کے لئے
فدا حسین گل اس طرح دنیا سے رخصت ہوئے کہ فیملی سے باہر کسی کو کم کم ہی خبر ہوئی ہوگی۔ شاید اس لئے وہ روایتی سماجی یا سیاسی کارکن نہیں تھے۔ وہ جو اچھائیاں بانٹتے تھے ان کا ذکر ان کے لاہور میں مخصوص حلقے تک محدود تھا۔ جو ان کی ریٹائرمنٹ اور بیماری کے باعث مزید سمٹ کر رہ گیا تھا۔ ایک وقت تھا جب وہ اپنے حلقے میں بہت مقبول تھے۔ اپنی شگفتگی، لطیفہ گوئی، چٹکلے بازی، زندہ دلی اور خوش مزاجی کے باعث وہ بہت جلد توجہ کا مرکز بن جاتے تھے اور ان کی موجودگی کے بغیر کوئی محفل نہیں سجتی تھی۔ دردِ دل رکھنے والا اتنا اچھا انسان اب اس دنیا میں نہیں رہا تو یہ رائٹر، جو فدا حسین گل کا بہت معتقد تھا، ضروری سمجھتا ہے کہ اس کی یادیں اپنے پڑھنے والوں سے شیئرکرے۔
آگے بڑھنے سے پہلے میں ان سے اپنے تعلق کی نوعیت بیان کرنا چاہتا ہوں۔ میرے لئے وہ ’’باغبانپورہ سکول آف تھاٹ‘‘ کے ایک اہم اور مقبول رکن تھے۔ یہ سکول آف تھاٹ کیا تھا یہ میں ابھی بتاتا ہوں۔ پہلے میں یہ بتا دوں کہ میرا ان سے ذاتی رشتہ کیا تھا۔ وہ میری بیگم کے خالو تھے۔ وہ زیادہ عرصہ کوئنز روڈ اور شاہ جمال میں رہے اور گزشتہ دس پندرہ سال سے ڈیفنس میں اپنے ذاتی گھر میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے ساتھ میری دوستی کبھی نہیں رہی کیونکہ رشتے کی نوعیت کے سبب درمیان میں احترام کا فاصلہ حائل رہا۔ لیکن میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ میرے سسرالی عزیزوں میں میری ان سے جتنی انڈرسٹینڈنگ تھی اتنی کسی اور سے نہیں تھی۔
میری طرح فدا حسین گل کے سسرال کا تعلق بھی باغبانپورہ سے تھا۔ یعنی ہم دونوں کا سسرالی گھرانہ ایک ہی تھا۔جس زمانے میں ڈاکٹر مبشر حسن انجینئرنگ یونیورسٹی میں پروفیسر تھے اس وقت ان کے پڑوس کی وسیع و عریض کوٹھی میں یونیورسٹی کے رجسٹرار شیخ بشیر حسین رہتے تھے جو بعد میں فدا گل کے سسر بنے۔ وہ میری بیگم کے نانا تھے۔ گھر کا ماحول بہت تعلیمی تھا جس کے باعث فدا حسین گل کی بیگم اور ہماری آنٹی رشیدہ نے ایم اے انگلش کیا اور طویل عرصہ اپوا کالج میں لیکچرررشپ کی۔ میں خود جب باغبانپورہ کی اس باغ و بہار فیملی کا داماد بنا تو میں نے اس فیملی کے مخصوص انداز فکر کے لئے ’’باغبانپورہ سکول آف تھاٹ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی، جو بہت مقبول ہوئی، جسے میری بیگم کے چچا بریگیڈیئر حفیظ الرحمن مرحوم نے بہت پسند کیا جو اسی گھرانے میں بیاہے گئے تھے۔
یہ خاندان بہت زندہ دل، کھلاّ ڈلاّ، تکلفات سے بے نیاز اور مشکل سے مشکل حالات میں مسکرانے اورہر تکلیف کو ہنسی میں اُڑا دینے میں ماہر تھا اور ہے۔ فدا حسین گل نے اس فیملی کی زندہ دلی اور شگفتگی میں اپنے انداز میں اضافہ کیا۔ انہوں نے لاہور میں اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز سٹیٹ لائف میں ایک انشورنس ایجنٹ کے طور پر کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی ملنساری اور تعلقات عامہ میں مہارت کے باعث کارپوریشن کے لئے سب سے زیادہ بزنس لانے والوں میں شمار ہو گئے۔ بعد میں وہ اس کارپوریشن میں افسر بنے اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے سینئر حیثیت میں ریٹائر ہوئے۔
یہ معلوم نہیں کہ انہوں نے انشورنس کی خاطر محفل بازی شروع کی یا اپنی محفل باز فطرت کے باعث انشورنس میں آئے، لیکن انہیں اپنا بزنس حاصل کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس لئے کہ لاہور کا ہر اہم بیورو کریٹ یا بزنس مین اگر ان کا دوست نہیں تھا تو انہیں اچھی طرح ضرور جانتا تھا۔ ان کی طبع ہی ایسی تھی کہ انہیں بزنس دینے میں نہ کرنا بہت مشکل کام تھا، لیکن حقیقت یہ تھی کہ پہلے پہل بزنس کا حصول ان کا مقصد ضرور تھا، لیکن پھر وہ افسر بن کر اس سے بہت آگے نکل گئے تھے۔ وہ محفلوں میں خوش رہتے تھے۔ وہ تعلقات بنانے، نبھانے اور برقرار رکھنے کا بہت سلیقہ رکھتے تھے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے چونکہ میری ان کے ساتھ دوستی نہیں تھی، اس لئے ان محفلوں میں ان کے ساتھ کبھی شریک نہیں ہوا۔ البتہ خاندان میں کوئی تقریب ہو یا ملنے کا کوئی بہانہ ہو تو وہاں ان کے ساتھ ملکی حالات اور پاکستانی سوسائٹی کے تکلیف دہ رجحانات پر ہم اپنے دکھ سکھ کا اظہار ضرور کرتے تھے اور مجھے ان کے ساتھ اس جائزے کے دوران ہمیشہ یہ محسوس ہوتا تھا کہ ہم ہر معاملے پر ایک ہی Wavelengthپر ہیں۔
ابھی مئی کے آخر میں سخت گرمی کے عالم میں اپنی بیگم اور سب سے چھوٹی بیٹی بسما کے ساتھ ایک ماہ لاہور میں رہ کر آیا ہوں جس پر میں نے ایک کالم لکھا اور اس میں ڈیفنس میں کرنل مرتضیٰ اور ان کی بیگم آنٹی نجمہ کی دعوت کا ذکر کیا تھا۔ یہی وہ دعوت تھی جہاں فدا حسین گل سے میری آخری ملاقات ہوئی۔ جب ان کی لاہور میں رحلت کی اطلاع ملی تو تکلیف بہت ہوئی اور ساتھ اطمینان بھی ہوا کہ چند ہفتے قبل ان سے ملنے اور گپ شپ کرنے کا موقع قدرت نے فراہم کر دیا۔ وہ پاکستانی سیاست سے بہت نالاں تھے۔ پاکستان میں کرپشن، بدنظمی اور بے ترتیبی پر وہ بہت پریشان ہوتے تھے اور پھر پریشانی دور کرنے کے لئے اس سے متعلق لطیفے اور چٹکلے بیان کرکے محظوظ کرتے تھے۔ ان سے جو آخری ملاقات ہوئی اس میں انہوں نے ہمیشہ کی طرح پاکستانی گھرانوں میں بچیوں پر ہونے والے مظالم پر بہت دکھ کا اظہار کیا اور اس بات پر بہت خوش تھے کہ میری سوچ بھی ان سے ملتی جلتی ہے اور میں ان موضوعات پر لکھتا رہتا ہوں۔
ان کی اپنی دو بیٹیاں ہیں، جو دونوں بیاہی گئی ہیں۔ جس گھر میں میں گل صاحب سے گپ شپ کررہا تھا وہاں ان کی سب سے بڑی بیٹی عائشہ گل بیاہی ہوئی ہے۔ اس نے ایم اے انگلش کر کے بیکن ہاؤس میں پڑھانا شروع کیا اور پھر لاہور گرامر سکول جائن کیا، جس کی وہ پرنسپل بنی اور اب وہ اس کی ڈائریکٹر بن چکی ہے۔ چھوٹی بیٹی رابعہ نے LUMSسے ایم بی اے فنانس کیا جو اب شادی کے بعد ایک بہت اچھا جاب کررہی ہے۔ ان کا بیٹا کا شف بھی شادی شدہ ہے اور ان کے ساتھ ہی رہتا ہے۔ اس کا اپنا بہت اچھا پرائیویٹ بزنس ہے۔ گل صاحب اس دعوت میں روزہ افطار ہونے کے بعد باہر لان میں نماز پڑھنے کے لئے چلے گئے۔ میں کھڑکی میں سے انہیں نماز پڑھتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ وہ دل ہی دل میں کتنے خوش اور خود کو کتنے مطمئن محسوس کررہے ہوں گے کہ ان کی اولاد اچھا پڑھ لکھ کر اپنے اپنے گھروں میں کتنی اچھی طرح SETTLEہو چکی ہے۔
فدا حسین گل کا حلقہ احباب وسیع تھا، جس میں بہت نامور لوگ بھی شامل تھے لیکن انہیں کبھی اپنی شہرت کی فکر نہیں ہوئی بلکہ وہ شہرت سے دور بھاگتے تھے۔ میں نے جب بھی ان سے کسی اہم موضوع پر تبادلہ خیال کیا تو ان کے علم تدبر اور متوازن تجزیے نے ہمیشہ مجھے حیران کیا۔ وہ نماز روزے کے پابند تو تھے ہی ان کا دل محروم انسانوں کے دکھوں پر بہت بے چین رہتا تھا۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ کوئی ایسا طریقہ ہونا چاہیے کہ ان غریبوں کے دکھ کم ہوں اور انہیں بھی کچھ سکون ملے۔ میں ان سے کہتا کہ اس کی ایک صورت ہے کہ آپ ان کے لئے کوئی فلاحی ادارہ کھولیں۔ اس پر وہ ایک آہ بھر کر کہتے کہ اس کا جذبہ تو بہت ہے لیکن عمر کے اس مرحلے میں اتنی ہمت نہیں رہی۔ پھر ہنس کر کہتے میرے پاس الہٰ دین کا کوئی چراغ ہوتا تو میں کم از کم اپنے ملک میں کسی کو دکھی نہ رہنے دیتا۔
جب میں لاہور کے میڈیا میں سرگرم تھا اور پھر امریکن سنٹر میں چلا گیا تو وہ کبھی کبھار میرے پاس آتے تھے کیونکہ کوئینز روڈ پر میرے دفتر کے قریب آگے جا کر اسی سڑک پر ان کا گھر تھا۔ اس وقت میں نے نوٹ کیا کہ میں نے میڈیا اور ثقافتی شعبے کی جس شخصیت کاان سے ذکر کیا، ان سے ان کی پہلے ہی واقفیت تھی۔ بہت سے معروف لوگوں سے ان کی بے تکلف دوستی تھی۔ دلدار پرویز بھٹی مرحوم کا کلچر کے شعبے میں بڑا نام تھا۔ ان کی لچھے دار گفتگو اور چٹکلے بازی کا ایک زمانہ معترف تھا۔ میں نے انہیں فدا حسین گل کے سامنے انتہائی مودبانہ انداز میں بیٹھے ہوئے دیکھا ہے۔ گل صاحب فقرہ پھینکتے تھے تو بھٹی صاحب کو جواب نہیں سوجھتا تھا۔ فدا حسین گل ایک انتہائی ذہین شگفتہ اور باغ و بہار شخصیت تھے اور محروم لوگوں کے لئے ان کا درد دل انہیں چین نہیں لینے دیتا تھا۔ وہ عملاً شاید کچھ نہیں کرسکے لیکن ان کی سوچ بہت فلاحی تھی، نیک تھی اور اخلاص سے بھری ہوئی تھی۔ مجھے یقین ہے اور میں نے ان کی بیٹی عائشہ کے نام پیغام میں بھی یہ لکھا تھا کہ جس طرح اس سچے اورکھرے مسلمان کی سوچ بلند تھی اسے ابدی مقام بھی بلند ہی مل چکا ہوگا۔اللہ یقیناًان سے راضی ہوگا اور وہ اللہ سے ہماری سفارش کے محتاج نہیں رہے ہوں گے۔
فدا حسین گل خواب ضرور دیکھتے تھے لیکن خوابوں کی دنیا میں گم رہنے والے نہیں تھے۔ وہ ایک عملی انسان بھی تھے۔ وہ بسا اوقات اپنی حیثیت سے بڑھ کر چھلانگ لگا لیتے تھے جس کے بعد وہ تنگ بھی ہوتے تھے اور زیر بار بھی ہوجاتے تھے لیکن قدرت ان پر مہربان رہی۔ شاید وہ ان کے حوصلے کو دیکھ کر ان کی حیثیت بڑھا دیتی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ شاہ جمال میں کرائے کے گھر میں رہتے ہوئے انہوں نے جو خواب دیکھا تھا اس کی تکمیل اس طرح ہوئی کہ وہ ریٹائرمنٹ کے وقت ڈیفنس میں اپنے ذاتی اچھے خاصے گھر میں رہ رہے تھے۔ وہ اتنے اعتماد سے بات کرتے تھے کہ دوسرا ان کی بات کو رَد کرنے کی جرأت ہی نہیں کرسکتا تھا۔ اسی طرح انہوں نے خود بھی نہ کرنا سیکھا ہی نہیں تھا۔ کسی نوعیت کا چھوٹا بڑا کام ان سے کسی نے کہا تووہ ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، وہ کرنے کے لئے فوراً تیار ہو جاتے تھے۔ شرط صرف اتنی تھی کہ وہ جائز ہونا چاہیے۔ میرا اور ان کا سسرالی خاندان مشترکہ تھا جہاں وہ معاملے میں مداخلت کریں نہ کریں لیکن ان کی نظر ہر بات پر ہوتی تھی۔ اگر کہیں خرابی کی صورت ان کے علم میں آئے تو اسے درست کرنے کے لئے وہ سب سے آگے آگے ہوتے تھے۔
اسی طرح خاندان میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ ایک لڑکی نے اچانک ایک لڑکے سے شادی کا ارادہ ظاہر کردیا۔ جب لڑکے سے پوچھا گیا تو اس نے کہا میرا تو کوئی تعلق ہی نہیں۔ لڑکی بضد رہی تو اس کے والد نے کہا کہ اگر تم اپنی بات پر قائم رہتی ہو تو اسی وقت میرے گھر سے نکل جاؤ کیونکہ تمہاری اس گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ گل صاحب کو خبر ہوئی تو انہوں نے ڈانٹ کر کہا کہ ابھی کچھ نہیں کرنا ہم سب معاملات درست کریں گے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کاشف کو بھیجا اور اس لڑکی کو اپنے گھر لے آئے۔ انہوں نے اپنی عادت کے مطابق لڑکی کو اچھا اچھا سبق پڑھایا دوسرے لفظوں میں اس کی برین واشنگ کی۔ جب لڑکی کا ذہن درست ہوا تو پھر اسے اس کے گھر بھیج دیا۔ اس کے بعد مکمل سکون آگیا اور خاندان کا ایک بہت بڑا بحران ٹل گیا۔
لاہور میں ایک مرتبہ ایک لطیفہ نما واقعہ بہت نشر ہوا لیکن اسے انجوائے کرنے والوں کو یہ نہیں پتا کہ وہ اصل میں فدا حسین گل کا سچا واقعہ تھا۔ سفر کے دوران ہر کسی پر مشکل وقت آسکتا ہے۔ ایک مرتبہ وہ بس پر سفر کررہے تھے کہ راستے میں کسی کھوکھا ٹائپ ہوٹل پر بریک ہوا۔ سب مسافروں کی طرح وہ بھی بس سے اترے اور ایک میز پر بیٹھ کر چائے کا ایک کپ اور کچھ رس منگوائے۔ چائے ختم ہوگئی لیکن رس ابھی باقی تھے۔ انہوں نے جائزہ لیا تو انہیں پتہ چلا کہ چائے کا ایک اور کپ منگوانے کے لئے ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔ انہوں نے ساتھ بیٹھے مسافر سے جو چائے پی رہا تھا سوال کیا کہ’’ تہاڈی چائے وچ رس ڈبو لواں؟‘‘
یعنی آپ کی چائے میں رس ڈبو لوں۔ وہ صاحب اس سوال سے اتنا محظوظ ہوئے کہ انہوں نے فوراً گل صاحب کے لئے اپنے اکاؤنٹ میں چائے اور بسکٹ کا آرڈر دیا اور اس طرح ان کی اچھی طرح پیٹ پوجا ہوگئی۔ انہوں نے واپس لاہور آکر خود یہ واقعہ دوست احباب کو سنایا جو دیکھتے ہی دیکھتے بہت مقبول ہو گیا۔
نیک لوگ بہت ہوتے ہوں گے لیکن نیک دل لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ میں اپنے مشاہدے اور ان کے بارے میں سنی ہوئی باتوں کی بنیاد پر اللہ کو حاضر ناظر جان کر گواہی دیتا ہوں کہ وہ بھی بہت نیک دل انسان تھے۔ وہ سبھی بچوں سے بہت شفقت کرتے تھے اور اپنی بیٹیوں عائشہ اور خصوصاً چھوٹی رابعہ سے بہت پیار کرتے تھے۔ میران ان سے کہنا ہے کہ جتنی جلد ہو سکے اپنے باپ کے بغیر زندگی کے عادی ہو جاؤ۔ اس یقین کے ساتھ کہ آپ ایک قابل فخر نیک دل باپ کی بیٹیاں ہو۔