تحریک انصاف، قومی اسمبلی میں بڑی جماعت، نمبر گیم مشکل ہوگئی
پاکستان تحریک انصاف کو قومی سطح پر دوسری سیاسی جماعتوں کی نسبت زیادہ نشستیں ملیں تاہم سادہ اکثریت نہ مل سکی جس کی وجہ سے آزاد اراکین اور ہم خیال جماعتوں سے مل کر حکومت سازی کی کوشش کی جارہی ہے، عمران خان وزیر اعظم کے لئے نامزد ہو چکے اور وہ بن بھی جائیں گے کہ مطلوبہ نصف تعداد نہ بھی میسر ہوئی تو رن آف الیکشن میں جیت جائیں گے بہر حال اعتماد کا ووٹ پھر بھی لینا پڑے گا اس لئے گن کر تعداد 172 سے زیادہ کرنا ہوگی جو مخلوط حکومت کے بغیر ممکن نہیں، عمران خان اس سے گریز پا ہیں اور اسی لئے پہلی ترجیح اور توجہ آزاد اراکین پر ہے اس کے علاوہ جو جماعتیں انتخابی عمل میں ساتھ تھیں ان کے منتخب اراکین اس نمبر گیم میں شامل ہوں گے اور یہ سندھ سے جی، ڈی ، اے اور پنجاب سے مسلم لیگ (ق) ہے، ہر دو جماعتوں کے ساتھ عام انتخابات میں باقاعدہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوئی تھی چنانچہ اب بھی یہ تحریک انصاف کے ساتھ ہوں گی، اسی لئے جب لاہور میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے پنجاب حکومت بنانے کے لئے رابطہ کیا گیا تو چودھری شجاعت حسین کی طرف سے جواب دے دیا گیا قومی اسمبلی میں چودھری پرویز الہٰی سمیت دو اور پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کی سات نشستیں ہیں اور ان سات نشستوں سے نمبر گیم میں فرق پڑا ہے کہ تحریک انصاف کی نشستیں 123سے 130 ہوگئیں، اس کے علاوہ اب تک سات آزاد اراکین شامل ہوچکے اور مزید شامل ہورہے ہیں یوں تحریک انصاف کا دعویٰ چالیس سے زیادہ کا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ مطلوبہ اکثریت حاصل ہوگئی، مسلم لیگ (ن) نے بھی ہتھیار نہیں ڈالے کہ یہ جماعت 129 نشستوں والی ہے، دعویٰ یہ ہے کہ نو آزاد اراکین بھی شامل ہوں گے اور پیپلز پارٹی کے چھ ملاکر تعداد پوری ہوگی، آزاد ذرائع ابھی کسی کے دعوے کی تصدیق نہیں کرتے یہ تو نوٹیفکیشن ہونے اور حلف برداری کی تقریب کے بعد ہی واضح ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میں سے کون سی جماعت پنجاب میں حکومت بنائے گی، دوڑ جاری ہے۔
دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے پتے بہت سنبھال کر کھیلنے کا فیصلہ کرلیا ہے، طے کیا گیا کہ اقتدار کی دوڑ میں شامل ہونے کی بجائے سیاسی استحکام اور پارلیمنٹ کے کردار پر توجہ دی جائے گی، ان کی پالیسی کے مطابق عمران خان کو کھلی چھٹی دی جائے کہ وہ حکومت بنائیں اور چلا کر دکھائیں، اسی لئے یہ تجویز رد کر دی گئی کہ وفاق میں تحریک انصاف مخالف جماعتوں کے وسیع تر اتحاد کے ساتھ حکومت بنائی جائے، ایسی صورت میں مسلم لیگ (ن) سے تعاون کرنا پڑتا، جو ایم، ایم، اسے اور دوسری چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملاتی لیکن پیپلز پارٹی نے اس سے گریز کیا ہے، الٹا دوسری جماعتوں کو اپنے موقف پر قائل کرنے کی کوشش کی، مسلم لیگ (ن) کو حلف اٹھانے پر قائل کیا اور مولانا فضل الرحمان کو بھی نیم رضا مند کرلیا، ان کو کسی سہارے کی ضرورت ہے جو وہ پھر سے اے، پی، سی بلا کر حاصل کرلیں گے اور یہ سب پارلیمنٹ میں ایک مضبوط حزب اختلاف ثابت ہوں گے، اسی طرح تحریک انصاف پنجاب میں حکومت سازی میں کامیاب ہوتی ہے تو یہاں بھی بہت مضبوط اور بھاری بھرکم اپوزیشن کا سامنا کرنا ہوگا۔ سیاسی گرما گرمی اور ہلچل جاری ہے، جلد ہی سارے نتائج سامنے ہوں گے، کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان فی الحال تو قومی اسمبلی سے آؤٹ ہوئے لیکن مستقبل میں پھر بھی داخلہ مل سکتا ہے کہ کے پی کے ہی میں کئی ضمنی انتخابات متوقع ہیں، اسی طرح چودھری نثار بھی ایک بار پھر قسمت آزمائی کریں گے کہ تحریک انصاف کے سرور خان کو انہی دونشستوں میں سے ایک خالی کرنا ہوگی جو وہ چودھری نثار سے جیتے ہیں۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بہت ضدی اور منہ پھٹ بھی ہیں ان کے گزشتہ پانچ سالہ ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ان کے منتخب اراکین کو سوچنا اور غور کرنا چاہئے کہ وہ کوئی خلاف منشاء حرکت برداشت نہیں کریں گے، تمام انتخابات کے نتائج کے بعد لاہور ہی میں دو واقعات ہوگئے ایک میں نو منتخب رکن صوبائی اسمبلی ندیم عباس بارا ملوث ہوئے تو دوسرے میں قومی اسمبلی کے لئے منتخب رکن کرامت کھوکھر کے صاحبزادے کے خلاف ایف، آئی، آر کٹ گئی، مبینہ طور پر ندیم عباس بارا کے ڈیرے پر فتح کی خوشی میں ہوائی فائرنگ ہوئی، جب تھانے کی پولیس موقع پر گئی تو ایس، ایچ، او سمیت پولیس والوں کو زرو کوب کیا گیا اور وردی تک پھاڑ دی، اس کا نوٹس چیف جسٹس پاکستان نے لیا، پولیس نے دو درجن سے زائد افراد حراست میں لئے اور بارا نے خود جاکر گرفتاری دے دی، کرامت کھوکھر کے صاحبزادے اور دوستوں کے خلاف بھی ہوائی فائرنگ کا مقدمہ درج ہوا، ابھی کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی کپتان کو ایسے واقعات کا نوٹس تو لینا ہی ہوگا۔