"شکریہ شوکت خانم "زہرہ کا ڈاکٹر بننے کا خواب اب پورا ہو سکتا ہے

"شکریہ شوکت خانم "زہرہ کا ڈاکٹر بننے کا خواب اب پورا ہو سکتا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


زہرہ شفیق کو دو سال کی عمر میں کینسر ہوا تھا۔ ماشاللہ سے آج ان کی عمر 12سال ہے کینسر سے شفا یاب ہونے کے بعد اب وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ خوشگوار زندگی گزار رہی ہیں۔ کینسر کی لڑائی کی اس جنگ میں جہاں زہرہ نے تکلیف اٹھائی وہیں ان کی والدہ نجمہ شفیق نے بھی اپنے دن رات ایک کیے۔ زہرہ کی والدہ نے کینسر کے خلاف اس طویل لڑائی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ " ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو عمر کی مختلف منازل طہ کرتے ہوئے بڑا ہوتا ہوا دیکھیں۔ بچے کو ہنستا کھیلتا دیکھنا والدین کو خوشی دیتا ہے اور اگر بچے کو کوئی تکلیف ہو جائے تو والدین کو یہ تکلیف بچے سے بھی زیا دہ محسوس ہوتی ہے۔ آج سے 10سال قبل میری بیٹی زہرہ، جب اس کی عمر دوسال تھی، ایک تکلیف میں مبتلا ہوئی تھی ایسی تکلیف نے جس نے اس کا بڑھنے کا پھلنے پھولنے کا عمل روک دیا "۔


" اگرچہ اس بات کو اب دس سال گزر چکے ہیں لیکن مجھے وہ سب چھوٹیسے چھوٹی تفصیل کے ساتھ یاد ہے۔ شروع میں جب زہرہ کو ٹانگوں میں درد اوربخار کی شکایت رہنے لگی توہمیں خوف سا محسوس ہوا کہ کہیں ہماریبیٹیکو پولیو نہ ہو گیا ہو۔ اس خوف کے تحت ایک آرتھو پیڈک کنسلٹنٹ سے زہرہ کا معائینہ کروایا جنہوں نے کچھ دوائیں تجویز کیں۔ ان دواؤں کو استعمال سے زہرہ کو بہت افاقہ ہوا۔ کچھ ہی دنوں میں یہ پہلے کی طرح چلنا پھرنا اور اپنے کھلونوں سے کھیلنا شروع کر دیا ۔ یہ سب بس کچھ ہی دن اچھا رہا اور اس کے بعد زہرہ ایک دفع پھر چلنے پھرنے سے قاصر ہو گئی ۔ اس نے پھر سے گھٹنوں کے بل چلنا شروع کر دیا تھا یہ سب بہت ہی تکلیف دہ تھا۔ اپنے بچے کو آگے کی بجائے پیچھے کا سفر کرتے دیکھنا دکھ دیتا ہے۔ اس دفع ہم نے زہرہ کا معائینہ ایک دوسرے آرتھو پیڈک کنسٹلنٹ سے کروانے کا فیصلہ کیا تا کہ ہمیں ایک مختلف رائے مل سکے۔ انہوں نے خون کے کینسر کے خدشات کے تحت مختلف طرح کے ٹیسٹ کروائے جس کے بات یہ بات کنفرم ہو گئی کہ زہرہ کو بلڈ کینسر ہے ۔" اس وقت کی تکلیف کو یاد کرتے ہوئے زہرہ کی والدہ آبدیدہ ہو گئیں۔


انہوں نے کہا کہ "ایک صدمے کی سی کیفیت میں ہم اپنی بیٹی کو علاج کی غرض سے ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال لے کر پھرتے رہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔کہیں مطلوبہ مشینری نہیں تھی تو کہیں تجربہ کار ڈاکٹرز نہ تھے۔ ایک ڈاکٹر نے تومجھے ڈھکے چھپے الفاظ میں کسی بھی ممکنہ حادثے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنے کا مشورہ بھی دیا۔بلا شبہ یہ میری زندگی کا مشکل ترین وقت تھا۔ میری پیاری بیٹی میرے سامنے کینسرکے سامنے مجبور ہوتی جارہی تھی اور میں سوائے بے بسی سے دیکھنے کہ اور کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ لیکن ہم نے اپنی جدو جہد جارہی رکھی اور خوش قسمتی سے ایک دوست کا مشورہ ہمیں شوکت کانم میموریل کینسر ہسپتال تک لے آیا۔یہاں سب سے پہلے تو ڈکٹرز اور عملے کی خوش اخلاقی اور تعاون نے ہمیں حیران کر دیا ۔ یہاں کے ڈاکٹرز انتہائی قابل اور تجرکار تھے جنہوں نے زہرہ کی تیزی سے خراب ہوتی صورتحال کے پیشِ نظر ایک فوری طور پر ایک ٹریٹمنٹ پلان بنایا اور اس پر عمل بھی شروع کر دیا گیا۔ زہرہ کا بخار علاج شروع ہونے کے بعد پچیسویں دن ختم ہو ا اس سارے عرصے میں ڈاکٹرز زہرہ کی صحت کے حوالے سے خود بھی پر امید رہے اور ہمیں بھی حوصلہ دیا۔ یہاں سے میری ساری فیملی نے کینسر کے خلاف ایک لمبی لڑائی کا آغاز کیا ۔ اس لڑائی میں کبھی امید بڑھ جاتی تھی توکبھی مایوسی، کبھی ڈر لگتا تھا تو کبھی یوں محسوس ہوتا تھا کہ بس اب کینسر ختم ار میری بیٹی بالکل ٹھیک ہو جائے گی۔ اگرچہ زہرہ کی صحت بہت آہستگی سے بہتر ہو رہی تھی لیکن زہرہ کی زندگی کی امیدہماری اس جدو جہد میں ہمارا سب سے بڑا سہارا تھی"۔


زہرہ کی فیملی کی یہ جدو جہد تین سال تک جاری رہی ۔ یہ تین سال بہت طویل تھے لیکن ان تین سالوں کی تمام مشقت کے بدلے انہیں جو خوشی ملی تھی وہ ان سب مشکلات پر بھاری تھی۔ یہ خوشی میری بیٹی کی صحت یابی کی خبر تھی۔ مس نجمہ شفیق نے بتایا کہ " ڈاکٹرز نے جب ہمیں بتایا کہ زہرہ کا کینسر مکمل طور ر ختم ہو چکا ہے اور اب اسے مزید علاج کی ضرورت نہیں تو یہ خوش خبری سننے کے بعد میری ساری فیملی خدا کے حضور سجدہ ریز ہو گئی۔ ہم اس ہسپتال کے سارے عملے اور ڈاکٹرز کے بھی بے حد مشکور ہوئے ۔ میری بیٹی کو علاج کی تمام جدید ترین سہولیات بالکل بلا معاوضہ فراہم کی گئیں تھی۔ اس بات کے لیے میں جہاں اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتی ہو ں وہیں میں اس ہسپتال کوبنانے اور چلانے والے تمام افراد اور خصوصی طور پر عمران خان کی مشکور ہوں کہ ان کے بنائے ہوئے اس ہسپتال میں ہزاروں قیمتی زندگیا بچائی جاتی ہیں"۔


زہرہ کی والدہ کا کہنا تھا کہ آج انبیٹی زہرہ گھر کی رونق ہے۔ ایک وقت میں انہیں لگتا تھا کہ شایدوہ اسے کھو دیں گے لیکن اس نے چھوٹی سی عمر میں کینسر کو شکست دے کر عزم اور ہمت کی مثال قائم کی ہے ۔ ایک ماں کے طور پر یوں تو میں وہ سارے بچوں سے ہی محبت کرتی ہوں لیکن زہرہ کے لییان کے دل سے خصوصی دعائیں نکلتی ہی۔

مزید :

رائے -کالم -