جنّ کے مجبور کرنے پر بھری محفل میں ڈانس کرنے والی لڑکی کی شرمناک وڈیو دیکھ کر اسکی ہونے والی سسرال والوں نے کیا سلوک کیا ،جان کر آپ کا سر شرم سے جھک جائے گا 

جنّ کے مجبور کرنے پر بھری محفل میں ڈانس کرنے والی لڑکی کی شرمناک وڈیو دیکھ کر ...
جنّ کے مجبور کرنے پر بھری محفل میں ڈانس کرنے والی لڑکی کی شرمناک وڈیو دیکھ کر اسکی ہونے والی سسرال والوں نے کیا سلوک کیا ،جان کر آپ کا سر شرم سے جھک جائے گا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میرا ایسے گھرانے سے تعلق ہے جہاں زیادہ جبر اور سختی نہیں کی جاتی ۔نماز پڑھتے ہیں لیکن زدوکوب کرکے نہیں بلکہ دلوں میں ایمان کی تڑپ پیدا کرکے اولاد کو اس بات پر قائل کرنے کی روایت پائی جاتی ہے کہ پھر ساری عمر بچے اپنی اقدار سے جڑے رہتے ہیں ۔مجھ پر گھریلو تربیت کا گہرا اثر تھا اس لئے میں نے جب کراچی کی یونیورسٹی میں ایڈمشن لیا تو مجھ میں دینی استقامت موجود تھی۔میں اگرچہ سب کلاس فیلوز سے ملتی اور بات چیت ہوتی رہتی لیکن حیا اور ایمان کا تقاضا جہاں ہوتا اسے پورا کرتی اور یہ بات سبھی کلاس فیلو جانتے تھے ۔
لیکن پھر یوں ہوا کہ میری زندگی میں ایک عجیب و غریب جنگ شروع ہوگئی ۔یہ کیسے شروع ہوئی ،یہ نہیں جانتی مگر اتنا معلوم ہے کہ میرے اندر یکایک اکتاہٹ بے زاری اور ہر اچھے کام سے نفرت اور الجھن ہونے لگی ۔مجھے کوئی نیکی اور اچھائی کی بات سمجھاتا تو میں الجھ جاتی اور لڑپڑتی ۔ مجھے راتوں کو خوفناک خواب آنے لگے۔کوئی خواب میں آتا اور مجھے بلاتا اور کہتا کہ تم میری ہو اور میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔
اس دوران میرے اندر جسمانی طور پر بھی مسئلے پیدا ہوئے ۔مجھے کئی کئی ماہ تک پیریڈ نہیں ہوتے تھے ۔خواب برابر آتے اور ایک بار تو وہ قوت جو مجھے خواب میں ملتی تھی اس نے میرے سامنے آکر بھی کہا کہ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔اسکی شکل سانولی تھی اور عجیب سی نظروں سے دیکھتا تھا ۔مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے یا خود یہ شیطان نما کوئی جنّ ہے جو مجھے تنگ کررہا ہے ۔اسکا ذکر میں نے والدہ سے کیا تو انہوں نے اپنی دوست عالمہ سے بات کی ۔
عالمہ باجی حافظ قرآن تھیں ،خواتین کو درس دیا کرتی تھیں۔بے حد نیک اور روحانی تھیں۔عمل اور وظائف بھی جانتی تھیں اور اکثر خواتین ان سے تعویذ لیتی تھیں۔انہوں نے مجھے دیکھا اور پھر امی کو بتایا کہ اس پر ایک جن عاشق ہوگیاہے ۔خیر انہوں نے تعویذ دیا اور میری جان آہستہ آہستہ اس جنّ سے چھوٹنے لگی۔ میں پھر سے نارمل ہونے لگی ۔لیکن یہ شاید میری بھول تھی ۔
ایک روز یونیورسٹی میں کلاس فیلوز نے گیٹ ٹوگیدر کیا اور خوب ہلہ گلہ ہوا۔کئی لڑکیوں نے ڈانس بھی کیا ۔میوزک کا شور تھا ۔لڑکے بھی ان کے ساتھ ناچ رہے تھے ۔میں ایک جانب دوستوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔میں نے ایک دو بار اٹھنے کی کوشش کی لیکن کوئی چیز مجھے وہاں سے جانے نہیں دے رہی تھی ۔اچانک میری ایک دوست جو سب سے زیادہ ناچ رہی تھی وہ میرے پاس آئی اور میرا ہاتھ تھام کر بولی ’’ آو کچھ ہوجائے ‘‘
میں نے پہلے تو اس سے اپنا ہاتھ کھینچا لیکن اس نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا ۔اسے دیکھ کر باقی کلاس فیلوز بھی اکٹھے ہوگئے اور سب بیک وقت آوازیں لگانے لگے کہ ’’ مایا ایک بار ہوجائے ‘‘ کلاس فیلوز کے اس اصرار کے سامنے میں ہار گئی اور میں بھی اس شیطانی محفل میں شامل ہوگئی اور سب کے ساتھ ڈانس کرنے لگی۔میرا دوپٹہ کہیں سے کہیں جاگرااور میں دیوانوں کی طرح ایسا ناچ کرنے لگی کہ خود میں بھی حیران تھی کہ اس سے پہلے تو مجھے کبھی ناچ کا اتفاق نہیں ہوا تھا پھر یہ کیسے ہوگیا ۔۔
پارٹی ختم ہوگئی ۔سب کلاس فیلوز نے میری تعریف کی ۔سیلفیاں بنائیں ،ڈانس کی وڈیوز بنیں ۔میں بھی کافی دیر تک خوش رہی ۔کلاس فیلوز نے اس دن مجھ سے وعدہ لیا کہ اب آئیندہ بھی میں ان کی محفلوں میں شریک ہوا کروں گی ۔لیکن جب میں گھر پہنچی تو موبائل دیکھ کر پریشان ہوگئی۔میری دوستوں نے وٹس ایپ پر مجھے ڈانس کی وڈیوز بھیجی تھیں ۔میں اپنا ڈانس دیکھ کر دم بخود رہ گئی۔میرے ساتھ ایک کلاس فیلو ناچ رہا تھا جس نے مجھے اپنے ساتھ کئی بار لپٹا بھی لیاتھا ۔ مجھے اچانک شرمندگی محسوس ہونے لگی کہ میں نے یہ کیا کام کردیا ۔اس قدر بے حیائی ۔میں نادم ہوکر رونے لگی ۔ساری رات روتی رہی ۔
پھر میری اچانک آنکھ لگ گئی تو خواب میں وہی بد خصلت جنّ ظاہر ہوا اور قہقہے لگانے لگا ۔’’آج تجھے پوری محفل میں نچوایا ہے اور دیکھ لینا اب تو ساری عمر ناچتی رہے گی ۔تو میری نہ ہوسکی اور اب کسی کی نہ ہوسکوگی‘‘
میری آنکھ کھلی تو میں مزید پریشان ہوگئی ۔میں سمجھتی ہوں کہ میں نے سب سے اچھا کام یہ کیا کہ اپنی امی کو ساری باتیں بتادیں ۔انہوں نے اسی روز عالمہ باجی سے رابطہ کیا اور ایک تعویذ لینے کے علاوہ ایک وظیفہ بھی دیا کہ میں یہ پڑھتی رہا کروں ۔تعویذ کے علاوہ وظیفہ کی وجہ سے پھر وہ شیطان میری زندگی میں نہیں آیا ۔۔۔۔۔۔ لیکن انسان اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کی سزا لازمی پاتا ہے ۔انہی دنوں میرے رشتہ کی بات چلی اور پھر میرا نکاح بھی ہوگیا ۔ابھی نکاح کو ہوئے ایک ہفتہ گزرا تھا کہ میری سسرال والوں نے میرے ڈانس کی وڈیوز میرے والدین کو دکھا کر کہا’’ ہم تو مایا کو آپ کی بیٹی سمجھ کر اپنی بہو بنا رہے تھے مگر یہ آپ کی خاندانی روایات اور دین کی پاسدار نہیں ،ہم ایسی لڑکی کو بہو نہیں بنا سکتے ۔اچھا ہوا کہ رخصتی سے پہلے ہی اسکے لچھن سامنے آگئے‘‘ ابو کو اس کا گہرا صدمہ ہوا لیکن امی نے انہیں اعتماد میں لیکر میری زندگی کے ان مسائل سے انہیں پہلے ہی آگاہ کردیا تھا کہ آسیبی اثرات کی وجہ سے مایا کچھ خطائیں کربیٹھی ہے ۔میرے ابو نے واقعی ایک ہمدرد اور محبت کرنے والے باپ کا ثبوت دیا اور طلاق کے غم کو سہہ لیا ۔ میری عمر اب پینتیس سال ہوچکی ہے ،شادی ابھی تک نہیں ہوسکی ۔جو رشتہ آتا ہے وہ میری وائرل وڈیو کی وجہ سے رد کردیا جاتا ہے ۔عالمہ باجی نے جن کو تو مجھ سے دور کردیا تھا لیکن سماج کو چمٹے ہوئے جنّ کو کون اتارے ،یہ بڑا تلخ سوال ہے ۔میں اس بارے کس کو دوش دوں ،اس جنّ کو یا معاشرے کو ۔میرا خیال ہے کہ میرا مجرم میرا سماج ہے جس کے سر میں خناس سمایا ہوا ہے جو کسی تعویذ دھاگے سے دور نہیں ہوپائے گا ۔جو بیٹیوں کی ایک چھوٹی سی غلطی اور کوتاہی جس میں انکا اپنا دوش بھی نہیں ہوتا ،انکو بہت کڑی سزا دیتا ہے۔میں آخر میں اپنی بہنوں اور انکے والدین کو یہ بات بتانا چاہتی ہوں کہ ضروری نہیں آپ کی بیٹیاں اپنی رضا سے بے حیائی کے کاموں میں ملوث ہوں،کوئی شیطانی قوت بھی انہیں اس کام پر اکساتی ہے جیسا کہ میرے ساتھ ہوچکا ہے ،للہ اس حساس بات کو سمجھیں اوراپنی اور دوسروں کی بیٹیوں کی زندگیاں اجاڑنے سے گریز کریں اور بیٹیوں کے مسائل کو دل سے سمجھیں ۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔