عمران خان کا دورہ امریکہ کیا کھویا، کیا پایا؟
بزنس ایڈیشن
حامد ولید
وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کے حوالے سے بحث قدرے تھم چکی ہے اور آئے روز نت نئے چیلنجز اور بدلتی ہوئی معاشی صورت حال نے اس دورے کی چمک دمک کو ماند کردیا ہے۔ اس سے بڑھ کر اس دورے کی کامیابی کیا ہوسکتی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ازخود کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ان سے کشمیر پر ثالثی کے لئے کہا ہے۔ اس پر وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے جس ردعمل کا اظہار کیا وہ سونے پر سہاگہ ثابت ہوا اور برصغیر پاک و ہند سمیت دنیا کے ہر امن پسند شخص کے دل کی آواز ثابت ہوئی۔ چنانچہ وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کی ساری بحث اس ایک نکتے پر ٹک گئی کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بھارتی وزیر اعظم کی امریکی صدر سے گزارش کی حقیقت کیا ہے اور یہ پاکستان کی کتنی بڑی کامیابی ہے۔ جہاں تک معاشی کامیابی کا تعلق ہے تو وہ اس طرح سے میڈیا کی بحثوں میں اپنی جگہ نہ بناسکی جس کا خیال ظاہر کیا جا رہا تھا۔ وزیر اعظم کے دورہ امریکہ سے قبل پاکستان کی معاشی صورت حال پر امریکی اثرورسوخ کی باتیں زباں زد عام تھیں۔ بزنس کمیونٹی اپنے تاثرات میں اس بات پر زور دیئے ہوئے تھی کہ پاکستانی معیشت کو سنبھالا دینے کے وزیر اعظم عمران خان کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کیا گزارشات کرنی چاہئے اور امریکہ پاکستانی معیشت کو سنبھالا دینے کے کیا کردارادا کرسکتا ہے۔ وزیر اعظم کے دورہ امریکہ سے قبل عمومی تاثر یہ تھا وزیراعظم عمران خان اپنے موجودہ دورہ امریکہ کے موقع پر امریکی قیادت کے ساتھ ترجیحی تجارت کا معاہدہ طے کرنے کیلئے بات چیت کریں گے کیونکہ اگر امریکہ پاکستان کے لئے تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرے اور پاکستانی مصنوعات کو اپنی منڈیوں میں ترجیحی رسائی فراہم کرے تو دونوں ممالک کی باہمی تجارت کو موجودہ تقریبا 6ارب ڈالر سے بڑھا کر چند سالوں میں 12ارب ڈالر کیا جا سکتا ہے۔بزنس کمیونٹی نے توقع ظاہر کی تھی کہ وزیراعظم پاکستان کا امریکہ کا پہلا دورہ پاکستان کی معیشت کیلئے فائدہ مند نتائج کا باعث ہو گا اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری کو مزید فروغ ملے گا۔اس دورہ کے موقع پر امریکہ قیادت کے ساتھ دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ باہمی تجارت و سرمایہ کاری وزیراعظم پاکستان کی اہم ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔یہ بھی کہا گیا کہ نائن الیون کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کیا جس وجہ سے ہمارے ملک نے بے شمار جانی قربانیاں دیں جبکہ ہماری معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا۔ لہذا وزیراعظم عمران خان امریکی قیادت کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کریں کہ وہ ان نقصانات کاکچھ ازالہ کرنے کیلئے تمام ٹیرف اور نان ٹیرف رکاوٹوں کو دور کرے اور پاکستان کی مصنوعات کو اپنی منڈیوں میں ترجیحی رسائی فراہم کرے۔
بزنس کمیونٹی کا یہ بھی خیال تھا کہ امریکہ کو چاہیے کہ وہ صنعتی اداروں کو مضبوط بنانے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کرے اور پاکستان کی معیشت کے مختلف شعبوں میں مزید جوائنٹ وینچرز قائم کرنے کے ساتھ ساتھ نئی سرمایہ کاری کرے۔ پاکستان زیادہ تر ٹیکسٹائل مصنوعات امریکہ کو برآمد کرتا ہے تاہم امریکہ کی کل درآمدات میں پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کا حصہ صرف 3فیصد تک ہے۔لہذا وزیراعظم عمران خان اپنے موجودہ دورہ کے موقع پر امریکہ قیادت کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کریں کہ وہ پاکستان سے ٹیکسٹائل مصنوعات کی درآمدات کو مزید بڑھائے جس سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا، ادائیگیوں کی توازن کا مسئلہ حل ہو گا اور معیشت مشکلات سے نکل کر بہتری کی طرف گامزن ہو گی۔پاکستان کی حکومت نے ملک میں جاری اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لیے وزیر اعظم نئی اقتصادی ٹیم بناچکے ہیں جس میں حفیظ شیخ کو مشیر خزانہ، ڈاکٹر رضا باقر کو گورنر سٹیٹ بینک اور شبر زیدی کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔پاکستان کی معیشت کو ان دنوں کئی چیلنجز کا سامنا ہے اور سٹیٹ بینک کے گورنر کی حیثیت سے ڈاکٹر رضا باقر کو روپے کی قدر اور زرمبادلہ کے ذخائر سمیت کئی مسائل درپیش ہیں۔ مزید یہ کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے اس کے اطمینان کے مطابق فوری اقدامات کرنے کی بھی ضرورت ہے۔سٹیٹ بینک کے گورنر کی حیثیت سے انہیں جو چیلنجز ہیں، وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہو پائیں گے،اس بارے میں تجزیہ کار کہتے ہیں کہ معاشی شرح نمو میں بہتری کے لیے سٹیٹ بینک کا مرکزی کردار ہے، لیکن اس وقت سب سے اہم کام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے مطالبات کو پورا کرنا ہو گا جس کے لیے اہم ترین پہلو نقد رقوم کی بنیاد پر چلنے والی قومی معیشت کو بینکنگ سیکٹر کے اندر لانا ہے۔اس وقت خطے میں کیش کی بنیاد پر سب سے زیادہ کاروبار پاکستان میں ہوتا ہے جو کہ کل معیشت کا 33 فیصد ہے۔ جب کہ بنگلہ دیش میں یہ شرح 25 اور بھارت اور سری لنکا میں 30 فیصد ہے۔ایف اے ٹی ایف کی کئی شرائط میں سے ایک معیشت کو دستاویزی شکل دینا ہے، گورنر سٹیٹ بینک کے لیے یہ کرنا کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں۔
پاکستان میں بچت کی شرح بھی خطے کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں کم ہے جسے بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی بچتیں بڑھنے سے سرمایہ کاری کی شرح میں اضافہ ہو گا۔سٹیٹ بینک کے گورنر کی حیثیت سے ڈاکٹر رضا باقر کے لیے شرح سود میں کمی بھی کسی اہم چیلنج سے کم نہیں ہے کیونکہ اس وقت ملک میں شرح سود بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے نجی شعبہ کم قرضے لے رہا ہے،جس سے سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔اس کے علاوہ بینکنگ نظام میں اصلاحات، چھوٹے کاروباری طبقے اور ہاؤسنگ کے شعبے کو قرضے فراہم کرنے کی جانب بینکوں کو راغب کرنا از حد ضروری ہے۔سٹیٹ بینک کا کام ملک میں روپے کی قدر کو مستحکم رکھنا ہے، لیکن گزشتہ کئی ماہ سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ نئے گورنر کے لیے روپے کی قدر کو مستحکم کرنا ایک اہم چیلنج ہو گا، لیکن اقتصادی ماہر ین گورنر سٹیٹ بینک اور وزیر اعظم عمران خان کی موجودہ معاشی ٹیم سے کچھ زیادہ پرامید دکھائی نہیں دیتے۔
ان کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بینک پاکستانی کرنسی کی گرتی ہوئی قدر کو نہیں روک سکتا کیونکہ اس کا تعلق تجارتی خسارے سے ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملکی برآمدات اور درآمدات میں عدم توازن ہے جو ماضی کے آئی ایم ایف پروگراموں کے سبب بھی بڑھتا جا رہا ہے۔زرمبادلہ کے ذخائر کو قرضے کی مدد سے مستحکم کرنے کا طریقہ مصنوعی ہے اور اس سے معیشت کی بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ہمارے ہاں بینکنگ قوانین کافی مضبوط اور مناسب ہیں اور ان میں کسی خاص تبدیلی کی ضرورت نہیں۔
ادھر بینکنگ کے شعبے سے منسلک ماہرین کا کہنا ہے کہ رضا باقر کے لیے سب سے اہم چیز مرکزی بینک کی خودمختاری کو برقرار رکھنا ہے۔ ان کے مطابق سٹیٹ بینک کے سابق گورنر سے ان کی مدت ملازمت مکمل ہونے سے قبل ہی استعفیٰ مانگنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ مرکزی بینک اب بھی حکومتی مشینری کے ماتحت ہے۔آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کا نیا معاہدہ آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے اور ایک بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ وہ پاکستان کے لیے کتنی نرم شرائط پر قرضہ لینے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط ایسی ہونی چاہیئیں جس سے معیشت میں استحکام کے ساتھ ساتھ شرح نمو میں بھی کمی نہ ہو کیونکہ اس سے غربت اور بے روزگاری بڑھتی ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو مختلف طرح کے چیلنجز درپیش ہیں۔ معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے وہ بنیادی اقدامات کرنے پڑیں گے جن کے متعلق اب تک صرف بیانات ہی دیئے جاتے رہے ہیں۔ ان اقدامات میں سے معیشت کو
دستاویزی شکل دینا اور ٹیکس نیٹ میں توسیع سرفہرست ہے، لیکن بدعنوانی کے راستے بند کیے بغیر اصلاحات سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکیں گے۔
اب آئیے اس سوال کی جانب سے وزیرِاعظم عمران خان کے دورہ واشنگٹن سے پاکستان نے کیا کھویا اور کیا پایا ہے۔ اس دورے کا سب سے بڑا حاصل امریکی کمپنیوں کا پاکستان کی جانب رخ کرنا ہے۔ امریکی صدر نے ملاقات میں دوطرفہ تجارت کی بات کی۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ زراعت اور توانائی کے شعبے میں تعاون کے امکانات موجود ہیں۔ زراعت کو سرِفہرست لانے کا مقصد چین جیسی بڑی منڈی سے ہاتھ دھونے والے امریکی کسانوں کے لیے نئی منڈیاں تلاش کرنا ہے۔ چین کے ساتھ تجارتی تنازع میں امریکا کی سویا بین کی برآمدات شدید متاثر ہوئی ہیں۔
توانائی کے شعبے میں جنرل الیکٹرک پہلے ہی پاکستان میں بڑے توانائی منصوبوں کے لیے ٹربائنز فراہم کرچکی ہے اور پاکستان کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات کے نئے منصوبوں میں بھی امریکی کمپنی کو مزید حصہ ملے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ امریکا ایل این جی اور قدرتی گیس کے شعبوں میں بھی دلچسپی لے رہا ہے۔ امریکی کمپنیوں کے آنے سے تجارتی سرگرمیاں بڑھیں گی لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ تجارت تجارتی خسارے کو بڑھانے کا سبب نہ بن جائے۔ پاکستان کو برآمدات کے لیے امریکا سے تجارتی رعایتیں درکار ہوں گی جن کا اعلان نہیں ہوا۔
جہاں تک بات ہے امریکی مالی امداد کی جو جنوری 2018ء میں ایک ٹوئیٹر پیغام کے بعد امریکی صدر نے بند کردی تھی، اس کے فوری بحال ہونے کے کوئی آثار نہیں۔ڈومور کی بات صرف افغان امن عمل تک محدود نہیں بلکہ امریکا افغانستان اور بھارت کے درمیان تجارت کے لیے راہداری بھی کھلوانا چاہتا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ تجارتی راہداری کھلنے سے ہی پاکستان کی خطے میں امن کے لیے سنجیدگی ظاہر ہوگی۔ اس کے ساتھ عسکری تنظیموں کی گرفتار قیادت کے خلاف ٹھوس قانونی کارروائی کا تقاضا کیا جا رہا ہے۔ امریکی حکام نجی طور پر یہ کہتے ہیں کہ گرفتاریاں پہلے بھی ہوتی رہیں، حافظ سعید کی گرفتاری ساتویں بار ہوئی۔امریکی حکام نے سی پیک پر بھی تحفظات کا اظہار کیا اور سی پیک منصوبوں پر سرمایہ کاری اور قرضوں کو پاکستان کی خودمختاری کے خلاف قرار دیتے ہوئے ہلکی سی تنبیہ بھی کی گئی۔ اس کے ساتھ سب سے بڑا اور فوری ایشو فائیو جی (5G) ٹیکنالوجی کا ہے۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ ہواوے سے فائیو جی ٹیکنالوجی لینے والے اس کے مضمرات سے ضرور آگاہ رہیں۔ ہواوے کے ساتھ کاروبار کرنے والے ملکوں اور کمپنیوں کو امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تاہم مشکلات میں گھری پاکستانی معیشت کے لیے اس دورے سے فوری کمک دستیاب نہیں ہوسکی۔ امریکا کے کاروباری صدر نے فوری دستیاب پیشکش اور تعاون کا جواب خوش دلی سے استقبال کرکے دیا۔ 1.3 ارب ڈالر سالانہ سیکیورٹی امداد کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ پاکستان مزید پیشرفت دکھائے تو ممکن ہے امداد بحال کردی جائے۔ فوری فائدہ اگر ممکن ہوا تو ستمبر میں ایف اے ٹی ایف کا جائزہ اجلاس پاکستان کے اقدامات پر مثبت رپورٹ دے گا، لیکن اس کا بھی کہیں وعدہ یا بیان دیکھنے کو نہیں ملا۔
سرخیاں
دورے کا سب سے بڑا حاصل امریکی کمپنیوں کا پاکستان کی جانب رخ کرنا ہے۔
جنرل الیکٹرک پہلے ہی پاکستان میں بڑے توانائی منصوبوں کے لیے ٹربائنز فراہم کرچکی ہے
1.3 ارب ڈالر سالانہ سیکیورٹی امداد کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ پاکستان مزید پیشرفت دکھائے
فوری فائدہ ہوا تو ستمبر میں ایف اے ٹی ایف کا جائزہ اجلاس پاکستان کے اقدامات پر مثبت رپورٹ دے گا
تصاویر
وزیر اعظم اور ٹرمپ کی ملاقات کی تصاویر
وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ
پینٹاگون میں آرمی چیف کو توپوں کی سلامی
ٹیکسٹائل انڈسٹری