”او ہیلو“
میں نے بس میں قدم رکھا تو اس نے مسکراتے ہوئے مجھے ”ویلکم““ کہا اور سیٹ نمبر پوچھا…… میں نے تین نمبر بتایا تو اس کے چہرے پر خوشی کا تاثر مزید گہرا ہو گیا…… ایک ایک کرکے مسافر اپنی اپنی سیٹیں سنبھالنے لگے۔ وہ ہر مسافر کے لئے لفظ ”ویلکم“ استعمال کرتے ہوئے مسکراہٹ بھی پھیلاتی رہی…… مگر میں نے محسوس کیا کہ ہر مسافر کے لئے وہ ”ڈیوٹی“ سمجھ کر مسکرا رہی ہے، مگرمیرے ساتھ اس نے ”ڈیوٹی“ نہیں نبھائی۔ میری سیٹ بالکل آگے تھی دائیں ہاتھ ڈرائیور کے پیچھے دو نوجوان بیٹھے ہوئے تھے۔ ڈرائیور بھی تقریباً نوجوان ہی تھا، گاڑی کے سامنے والے شیشے سے باہر کا منظر صاف نظر آ رہا تھا۔ بسیں، ویگنیں، رکشے اور چنگ چی رکشے بھاگتے دوڑتے نظر آئے۔ موٹرسائیکل والوں نے بھی سڑک کو سر پر اٹھا رکھا تھا…… ہماری بس کو چلنے میں دشواری پیش آ رہی تھی، کیونکہ ٹریفک بہت زیادہ تھی۔ اور ہر ایک اپنے ”ضابطے“ کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ یہ نہیں کہ کوئی ٹریفک والا موجود نہیں تھا۔
موجودہ تھے، مگر انہوں نے اپنا ”موج میلہ“ لگا رکھا تھا…… وہ سڑکوں کے کنارے کسی نہ کسی موٹرسائیکل والے کو روکتے ہوئے کچھ نہ کچھ ”خرچہ پانی“ حاصل کرنے کے چکر میں اپنے اصل فرائض سے بالکل بے خبر تھے۔ سو ٹریفک اللہ کے آسرے پر آگے بڑھ رہی تھی۔ موٹروے پر چڑھنے سے پہلے تک بس کی رفتار بہت سست تھی۔ موٹروے پر چڑھتے ہی بس کو پاؤں سیدھے کرنے کا موقع ملا۔
لڑکی نے مائیک سنبھالا۔ سفر کی دعا کے بعد اس نے مسافروں کو بتایا کہ ہم کتنے گھنٹوں میں اپنی منزل پر پہنچیں گے اور پھر یہ بھی بتانا ضروری سمجھا کہ ایک دوسرے سے کوئی بھی چیز کھانے سے گریز کریں۔ اعلان ختم کرنے کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا، آپ کہاں جا رہے ہیں۔ میں نے بتایا ”میانوالی“…… اس نے مسکراتے ہوئے کہا ”قسم سے“…… میں نے بھی مسکراتے ہوئے کہا، ”قسم سے“، اب اس نے کوک کا ایک گلاس مجھے دیتے ہوئے کہا، پی لیجئے، میں نے شکریہ ادا کیا تو اس نے کہا ”پی لیجئے پیسے تھوڑی لگتے ہیں“…… اب میری باری تھی، میں نے اسے کہا یہ الفاظ جو آپ بول رہی ہیں، مجھے سنے سنے سے لگتے ہیں۔ وہ مسکرائی اور کہا اُف اللہ ذرا سنو تو“ اور پھر مجھے بتایا کہ میں آپ کی ”فیس بک“ فرینڈ ہوں۔ یہ سب الفاظ آپ اکثر لکھتے ہیں۔ میں ابھی اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا کہ اچانک آواز آئی۔
”او ہیلو“
یہ آواز میرے دائیں ہاتھ بیٹھے ہوئے نوجوانوں میں سے ایک کی تھی لڑکی نے ’جی فرمایئے‘ کہتے ہوئے اپنا چہرہ ان کی طرف موڑ لیا۔ نوجوان نے لڑکی سے کہا۔ میرے ہیڈ فون میں آواز نہیں آ رہی اور میری سیٹ بھی پیچھے نہیں ہو رہی۔ لڑکی نے انہیں بتایا کہ آپ کی سیٹ کے ساتھ ایک بٹن ہے، اسے دبانے سے سیٹ پیچھے ہو جائے گی، البتہ آپ کا ہیڈ فون بدل دیتی ہوں …… پھر اس نے اپنے بیگ میں سے ایک ہیڈ فون نکال کے نوجوان کے حوالے کر دیا۔ میں نے نوجوانوں کی آنکھوں میں جھانکا تو ’بے غیرتی“ باہر نکلتی نظر آئی۔ لڑکی نے ایک بار پھر میرے ساتھ گفتگو شروع کی تو، پھر آواز گونجی اُو ہیلو“
یہ آواز بھی ان دو نوجوانوں میں سے ایک کی تھی، لڑکی نے پھر ”جی فرمایئے“ کہا تو انہوں نے پھر کہا کہ ان کی سیٹ پیچھے نہیں ہو رہی، لڑکی نے پھر بٹن دبانے کو کہا تو انہوں نے کہا ہمیں سمجھ نہیں آ رہی۔ آپ خود دبا دو“ لڑکی نے ناگواری کے لہجے میں کہا……”یہ میرا کام نہیں ہے“، نوجوان نے غصیلے انداز میں کہا تو پھر یہ کس کا کام ہے، کیا تمہارا کام صرف ”میک اپ“ کرکے گاڑی میں بیٹھنے کا ہے، مجھے نوجوانوں پر غصہ تو بہت آیا، مگر میں ضبط سے کام لیتے ہوئے اپنی سیٹ سے اٹھا اور ان کی سیٹ کا بٹن دباتے ہوئے سیٹ پیچھے کر دی…… نوجوان نے میرے اس عمل کو پسند نہیں کیا اور کہا تم کب سے اس لڑکی کے ساتھ ”عشق معشوقی“ فرما رہے
ہو…… اگر ایک دو منٹ کے لئے ہم ”دل پشوری“ کر لیں تو آپ کوکیا تکلیف ہے۔ یہ جملہ سنتے ہی مجھے غصہ تو بہت آیا مگر میں خاموشی سے اپنی سیٹ پر آ کے بیٹھ گیا۔لڑکی نے مجھے بتایا کہ اسے شعر و ادب سے گہری دلچسپی ہے اور فارغ وقت میں کتابیں پڑھنا اسے اچھا لگتا ہے، لڑکی کوئی بہت زیادہ خوبصورت بالکل نہیں تھی، مگر اپنی گفتگو اور شائستگی سے ”حوروں“ کو شرماتی تھی۔ کتاب دوستی نے اسے بہت خوبصورت بنا دیا تھا، غالب اور فراز اس کے پسندیدہ شاعر تھے۔ مزاح نگاروں میں یوسفی اور قاسمی کی مداح تھی۔ ”فیس بک“ ایک مردانہ نام کے ساتھ خود بھی لکھتی ہے۔ جو زیادہ تر خواتین کے مسائل کے بارے ہوتا ہے۔ البتہ کسی دن مزاح بھی لکھتی ہے۔ ہمارے درمیان گفتگو چل رہی تھی کہ آواز آئی۔
”اُو ہیلو“
یہ ایک بزرگ سے آدمی تھے۔ لڑکی نے ”جی فرمایئے“ کہا تو اس بزرگ نے کہا، میرے پوتے کو ”قے“ آئی ہے، مجھے ”شاپر“ دو۔ لڑکی نے چند شاپر بزرگ کے ہاتھ میں تھمائے۔ بس موٹروے پر اپنے پاؤں تیز کر چکی تھی تو ادھر بس میں سے ”او ہیلو“ کی آوازیں بھی تیز ہو گئیں۔ اُو ہیلو، پانی، او ہیلو، شاپر، او ہیلو، ہیڈ فون، لڑکی ہر او ہیلو کی آواز پر لپکتے ہوئے جاتی۔ مگر بس میں چلتے ہوئے اسے کسی نہ کسی سیٹ کا سہارا بھی لینا پڑ رہا تھا اور سہارے لیتے وقت اس کا ہاتھ کسی نہ کسی سواری کے جسم سے بھی لگ رہا تھا۔ گویا ”او ہیلو“ کی ساری تکرار محض اس لئے تھی کہ بس میں چلتی ہوئی لڑکی کا ہاتھ کسی نہ کسی کے جسم کو چھو رہا تھا۔ زیادہ تر لوگ صرف ہاتھ ”چھونے“ کی وجہ سے ”او ہیلو، او ہیلو“ پکار رہے تھے۔ایک سٹاپ پر اس نے مجھے چائے کی پیشکش کی۔ اتفاق سے میری بیگم نے تین روٹیاں اور کریلے گوشت کا سالن میرے ہاتھ میں تھما دیا تھا۔ میں نے اسے کھانے کی پیشکش کی وہ پہلے تو شرمائی…… مگر پھر کھانے پر آمادہ ہو گئی، میں نے اسے بتایا کہ یہ میری بیگم کے ہاتھوں کا بنا ہوا ہے،جواباً اس نے مجھے بتایا، تین سال پہلے اس کے والد کا انتقال ہو چکا ہے۔
اس کی ماں کپڑے سیتی ہے اور وہ پانچ بہن بھائی ہیں، باباکے انتقال کے بعد، ہم پر معاشی دباؤ بڑھ گیا تو میں نے یہ ”نوکری“ کر لی۔ اب میں اور میری ماں مل کے گھر کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ میں بہت زیادہ پڑھنا چاہتی تھی…… مگر حالات نے آگے نہ پڑھنے دیا۔ اب میری خواہش ہے کہ میرے بہن بھائی تعلیم میں پیچھے نہ رہیں، ایک سال سے ”او ہیلو“ بنی ہوئی ہوں …… ہم دونوں اس گفتگو میں مصروف تھے کہ ان دو نوجوانوں میں سے ایک نے میرے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا، آخر آپ نے اسے ”کھانا“ کھلا ہی دیا، میں نے لڑکے کے بازو کو پکڑتے ہوئے کہا، میں نے تو اسے کھانا کھلا دیا ہے، مگر تم یہ بتاؤ، کہ تم غیرت کب کھاؤ گے، کیا، ماں، بہن، بیٹی، صرف گھروں میں ہوتی ہیں۔ یہ جو بسوں میں ”او ہیلو“ ہوتی ہیں، یہ بھی تو کسی کی بہن، بیٹی ہوتی ہیں کہ نہیں، نوجوان نے کندھے اچکائے اور بس کے اندر داخل ہو گیا۔