کورونا اور پولیس کے فرنٹ لائن سولجر

کورونا اور پولیس کے فرنٹ لائن سولجر
کورونا اور پولیس کے فرنٹ لائن سولجر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پولیس والوں کو اکثر سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ عوام نے ہمیشہ ہی ان کی خدمات اور کاوشوں کو نظر انداز کیا ہے لیکن کورونا وبا کے پاکستان میں پھوٹنے کے بعد سے بیشتر لوگوں کی رائے میں کچھ تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ پولیس نے کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ جذبہ ایثار کا بھی مظاہرہ کیا۔ کورونا وبا سے لڑتے ہوئے 2580 پولیس اہلکار اس سے متاثر ہوئے اور ان میں سے 17 پولیس ملازمین کو شہادت نصیب ہوئی۔ اس وقت 1064 پولیس والے زیر علاج ہیں جبکہ 960 صحت یاب ہو چکے ہیں۔ کورونا وبا کے پاکستان میں پھیلنے کے بعد سے پولیس کو غیر معمولی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ کم وسائل اور کم تربیت یافتہ ہونے کے با وجود انہوں نے صحت عامہ کو یقینی بنانے کے لیے لگی پابندیوں جیسے لاک ڈاؤن اور سوشل ڈسٹنسنگ پر عمل پیرا کرانے کے لیے جدو جہد کی۔ پاکستان میں کورونا کے دو لاکھ پچھتر ہزار کیس ہیں اور تقریباً چھ ہزار لوگ اس وبا کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ لوگوں کی لاپروائی کا ملبہ اٹھا کر پولیس پر پھینکنا کسی بھی صورت جائز نہیں۔ جب پاکستان میں کورونا وائرس آیا تو حکومت نے لاک ڈاؤن نافذ کرنے میں دو تین ہفتے ضائع کیے۔ انہی دنوں کچھ اہم شخصیات نے کورونا کو ایک معمولی فلْو کے مترادف ٹھہرایا جس کے باعث عوام نے بھی اس مہلک بیماری کو ہلکا لے لیا۔ چند ہی دنوں میں پاکستان میں کورونا وائرس کا گراف تیزی سے بڑھتا چلا گیا۔ جب حکومت کو محسوس ہوا کہ پانی سر کے اوپر آنے لگا ہے تو انہوں نے فوری طور پر سمارٹ لاک ڈاؤن کا منصوبہ پیش کردیا۔ سمارٹ لاک ڈاؤن میں یہ ہوتا ہے کہ جن علاقوں میں کورونا کے کیسز زیادہ ہوتے ہیں، انہیں محدود مدت کے لیے سیل کردیا جاتا ہے اور باقی علاقوں میں معاشی سرگرمیوں پر پابندی پر نرمی لائی جاتی ہے۔ اپریل، مئی، جون کی تپتی دھوپ کے تلے پولیس اہلکار اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے لیکن پھر بھی کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکام رہے۔ جب پوری طرح سے لاک ڈاؤن نافذ کرایا گیا تھا تو تب آدھی عوام تو یہ دیکھنے باہر نکلی تھی کہ شہر میں لاک ڈاؤن ہے یا نہیں۔ پاکستان میں شرح خواندگی 65 فیصد ہے۔ ان پڑھ کو تو بندہ کیا ہی کہے،تعلیم یافتہ لوگوں نے بھی اس بات کی رٹ لگائی ہوئی تھی کہ کورونا ہے ہی نہیں اور اس آڑ میں وہ آرام سے گھومتے پھرتے تھے۔ پولیس والے کہتے رہے کہ نہ نکلیں، کچھ لوگوں کو فائن بھی کیا، سزا بھی دی گئی مگر لوگ باز نہ آئے۔ عوام عیدالفطر تک کورونا کے وجود کا انکار کرتی رہی اور لاک ڈاؤن ہونے کے باوجود کھل کر عید منائی۔ پوری دنیا میں عید پر سخت لاک ڈاؤن نافذ تھا اور پاکستان سمارٹ لاک ڈاؤن پر تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صرف ایک دن یعنی 14 جون کو ہی کورونا کے 6825 نئے کیسز سامنے آئے۔ ان تمام حالات میں پولیس ہر بار سب سے آگے کھڑی رہی اور ہماری سلامتی کی خاطر انھوں نے اپنی زندگیاں داؤ پر لگائے رکھیں۔ ڈی آئی جی آپریشنز رائے بابر سعید لاہور پولیس کی نگرانی کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس رسپونس یونٹ (پی آر یو) اور ڈولفن فورس کے اہلکاروں سمیت لاہور کے ہر ڈویژن سے دس پولیس افسران منتخب کیے گئے ہیں اور پھر انہیں کنگ ایڈورڈ کالج کے پروفیسر عارف رشید کے ذریعہ وبائی مرض سے متعلق ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تربیت دی گئی۔ پولیس والوں کو کہا گیا ہے کہ جب انہیں محکمہ صحت کی طرف سے کال موصول ہو تو وہ پوری طرح تیار ہو جائیں اور کورونا کے مریض کو اسپتال منتقل کرنے کے لیے فوری طور پر روانہ ہو جائیں۔ افسران کو لازمی طور پر حفاظتی کٹ پہننا ہوگی اور سینیٹائزر اور صابن کو پولیس موبائل میں رکھنا ہوگا۔ اس کے بعد وہ کورونا وبا سے متاثرہ مریض کے گھر جانے پر محکمہ صحت کے عملے کی ہدایات پر عمل کرینگے۔ یہ بھی لازمی ہے کہ وہ مریض کی محفوظ منتقلی کے لیے ایمبولینس کے ساتھ رہیں۔ پھر مریض کے ہمراہ پولیس کا ایک دستہ اسپتال جاتا ہے۔ اگر متاثرہ شخص اسپتال میں دم توڑ جاتا ہے تو تدفین کی ذمہ داری بھی سرکاری احکامات کے مطابق پولیس پر عائد ہوتی ہے۔ اسپتالوں کو حکومت نے ہدایت کی ہے کہ وہ 15 ہنگامی ہیلپ لائن کے ذریعے کورونا کے مریض کی موت کی اطلاع پولیس کو دیں۔ جس کے بعد پولیس کنٹرول روم متعلقہ ڈویژن کو اطلاع دیتا ہے اور ایس پی علاقے کے ایس ایچ او کو متوفی کا رہائشی پتہ فراہم کرتا ہے۔ اس کے بعد تربیت یافتہ اہلکار میت کو قبر میں نیچے اتارتے ہیں جبکہ لواحقین 40 میٹر کے فاصلے سے نماز جنازہ پڑھتے ہیں۔ پولیس نے کورونا مریضوں کا بھی خوب خیال رکھا۔ مریض کو کبھی بھی کسی چیز کی ضرورت پڑی تو جوان دوڑ کر لے کر آئے۔ ان سب خدمات کے باوجود کچھ لوگ ابھی بھی پولیس پر طرح طرح کے الزامات لگاتے ہیں کہ پولیس نے لوگوں پر تشدد بہت کیا۔ ہماری قوم اگر پیار سے بات ماننے والی ہوتی تو آج ہم کہاں کے کہاں ہوتے۔ جب کوئی حکومت کے احکامات کی خلاف ورزی کرے گا تو اسے لازمی روکا جائے گا۔ کیا پتا جو شخص باہر گھوم رہا ہو اس پر کورونا کے جراثیم آ بھی گئے ہوں لیکن وہ اپنی قوت مدافعت کی وجہ سے بچ جائے پر کیا ضروری ہے کہ اس کے گھر والوں یا آس پڑوس میں رہنے والوں میں بھی اس جیسی قوت مدافعت ہو؟۔ لہٰذا جب کسی پرتنقید کریں تو معاملے کے مثبت پہلوؤں کو بھی سامنے رکھیں۔

مزید :

رائے -کالم -