خواجہ صاحب، عید مبارک

خواجہ صاحب، عید مبارک
 خواجہ صاحب، عید مبارک

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جن لوگوں نے سیاست کی کیچڑ میں چلتے ہوئے بھی اپنے کپڑے مقدور بھر اجلے رکھے ان میں خواجہ سعد رفیق سر فہرست ناموں میں ہیں۔کیچڑ کا لفظ بھی ذرا پارلیمانی ہے۔ ٹھیک صورت حال کے لئے موزوں لفظ تلاش کیے جائیں تو کیچڑکا لفظ ان کے سامنے کمتر محسوس ہونے لگے گا۔ ہم جیسے کالم نگاروں کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں ہرسیاسی جماعت میں کچھ لوگ اچھے لگتے ہیں خواہ وہ جماعت باقاعدہ بری ہی کیوں نہ لگتی ہو۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف ذہنی طو رپر مائل رہنے والوں اور انہیں اپنا قیمتی ووٹ دینے والوں میں یہ کالم نگار بھی ہے۔ اس کی سزا مسلم لیگ نے یوں دی کہ ہر بار پہلے سے بڑھ کر مایوس کیا۔ مایوسی ہی نہیں ووٹ دینے پر شرمندگی الگ۔ سیاسی قلابازیوں نے تو خیر مسلم لیگ کے کسی نظریے کی دھجی پہلے بھی باقی نہیں چھوڑی تھی۔ وہ لوگ جو دوسری پارٹیوں سے ٹوٹ کر شامل ہوتے رہے اور پھراس شاخ سے کسی اور پیڑ کے لئے اڑان بھرتے رہے،ذہنی طور پر مسلم لیگ سے ہم آہنگ تھے ہی نہیں اور یہی بربادی کا سبب بھی ہیں۔ دور اقتدار کی بے حساب نظریاتی، مالی، اخلاقی کرپشن کی ہولناک داستانوں میں سے چلو بھر بھی درست ہوں، تو وہ بھی جہاز ڈبونے کے لئے بہت تھیں جبکہ یہاں تو خوشامدی نااہلوں کی ایک طویل قطار مقربین میں شامل ہوچکی تھی۔


بات خواجہ سعد رفیق کی تھی۔ سعد رفیق تو میرے ہم شہر بھی ہیں یعنی لاہوری لیکن ان سے باقاعدہ ملاقات کوئی ایک بھی نہیں بلکہ وہ مجھ گمنام سے واقف بھی نہیں ہوں گے، لیکن پسندیدگی اور ناپسندیدگی کے لئے ملاقات اور واقفیت شرط نہیں۔کئی وصف ہیں لیکن خواجہ سعد رفیق کی وفاداری بشرط استواری تنہا ایسی نایاب صفت ہے جوان کے کردار میں سرخاب کا پر لگاتی ہے۔ مسلم لیگ پر بڑے مشکل ادوار گزرے جن میں سے ایک سے وہ ہنوز گزر رہی ہے، لیکن 1980ء کی دہائی کے آغاز سے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہونے والا نوجوان سعد رفیق 2020ء میں بھی وہ رفاقت نبھا رہا ہے۔ یہ استقامت طالع آزماؤں کے حصے میں نہیں آتی۔ محض اس کا نصیب ہوتی ہے جو مکمل ذہنی ہم آہنگی کے ساتھ سیاست میں شامل ہوا ہو۔ ان کے والد خواجہ محمد رفیق پکے مسلم لیگی گھرانے سے تھے اورذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں مزاحمت کا جھنڈا اٹھا کر نکلنے والوں میں تھے۔ خواجہ محمد رفیق کی 1970ء کی دہائی میں شہادت نے بھی نوجوان سعد اور سلمان کے ذہنوں پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ یہ خاندان اس شہادت کو آج تک بھولا نہیں۔ وہ اس کا ذمے دار ذوالفقار علی بھٹو کو سمجھتے ہیں اور یہ زخم کبھی مندمل نہیں ہوا۔ لیکن محض وفاداری اور استقامت ہی ایک ایسی صفت نہیں جو خواجہ سعد رفیق کا نقش دل پر ثبت کرتی ہو۔ سیاسی مباحثوں، جلسوں، انتخابی مہم، بیانات، انٹرویوز اور اسمبلی کی تقاریر میں مجھے کبھی یاد نہیں ہے کہ خواجہ سعد رفیق نے گھٹیا اورذاتی حملے کیے ہوں۔

ممکن ہے کبھی کبھار ایسا ہوا بھی ہو لیکن ان کا تاثر ایک متوازن، سوچ سمجھ کر بولنے والے اور ذخیرہئ الفاظ رکھنے والے سیاسی رہنما کا رہا ہے جو اپنی وضع دارخاندانی حیثیت کو برقرار رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پرویز رشید سے لے کر خواجہ آصف تک ہر مسلم لیگی رہنما کو اپنے کہے پر کئی بار پچھتانا پڑا ہے یا کم از کم رفع دفع کے لیے معافی مانگنی پڑی ہے، لیکن خواجہ سعد رفیق کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ وہ نشہ ئ اقتدار، جوشیلے پن اور تیز تقریروں میں بھی آپے سے باہر نہیں ہوتے۔ پھرکسی معاملے میں ان کا مؤقف غلط ہو یا صحیح، لیکن وہ ذہن اور دل کے ساتھ اس سے وابستگی رکھتے ہیں اور اس کے دو ٹوک، عام فہم، جرأت مندانہ اظہار میں بھی ممتاز ہیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی کے مسلم لیگ چھوڑنے کے فیصلے سے سعد رفیق مطمئن نہیں تھے اور انہوں نے بار بار اپنی دیرینہ محبت کا حق بھی نبھایا۔ وقت نے ثابت کیا کہ ان کا مشورہ اس لحاظ سے جناب جاوید ہاشمی کے لیے درست تھاکہ ان کا مزاج پی ٹی آئی سے ہم آہنگ نہیں ہوسکا، لیکن خود مسلم لیگ نے جاوید ہاشمی کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا تھا۔یہ الگ کہانی ہے۔


کسی کا شعر ہے
عروجِ شب کا نوحہ لکھ رہا ہوں
سحر کا بنتا جاتا ہے قصیدہ
قصیدہ گوئی تو نہ مجھ سے کبھی ہوئی، نہ ہوسکے گی، لیکن کیا کریں کہ اس دور ِزوال میں سیاست دانوں میں کم کم لوگ ایسے ہیں جن کی صفات پر بات کی جاسکتی ہے۔اقدار کا نوحہ لکھیں تو کچھ نایاب صفات کا قصیدہ بننے لگتا ہے۔ خواجہ سعد رفیق کی تعریف نامکمل رہے گی اگر ان کا بطور وزیر ریلوے سابقہ دور کی کارکردگی کا ذکر نہ کیا جائے۔ انہوں نے گویا ایک شکستہ حال، پٹڑی سے اتری ہوئی گاڑی کو پوری قوت سے نہ صرف پٹڑی پر چڑھایا بلکہ اسے اس قابل بھی بنایا کہ اس میں لوگ بیٹھ سکیں۔کسی مثالی صورت حال تک تو یہ ادارہ نہیں پہنچا تھا لیکن یہ توقع ہونے لگی تھی کہ آہستہ آہستہ پہنچ جائے گا۔ خواجہ صاحب کے جاتے ہی اور موجودہ وزیرکے آتے ہی پھر یہ ریل کیسے ڈی ریل ہوئی۔یہ سب دیکھ سکتے ہیں۔ سو سعد رفیق کے کھاتے میں صرف تقریریں ہی نہیں کار کردگی بھی رہی ہے۔


وزارت ہو یا اپوزیشن۔کوئی اخلاقی یا مالی سکینڈل بھی خواجہ سعد سے کبھی منسوب نہیں ہوا۔کم از کم میرے علم کی حد تک۔ حالانکہ وہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی پوری صلاحیت اور استعداد رکھتے تھے۔ 40سالہ سیاسی کیرئیر میں یہ پیراگون کا سکینڈل ان سے منسوب ہوا جس سے دو دن پہلے عدالت نے انہیں باعزت بری کردیا یا ایک ذاتی معاملے کی گونج سنی گئی۔ ایسا تو کوئی نہیں ہے کہ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں لیکن اتنے طویل عرصے میں یہ تر دامنی بھی نایاب بات ہے۔


اوپر نوحے اور قصیدے کا ذکر ہوا ہے۔خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق کو پیرا گون ہاؤسنگ سوسائٹی کے مقدمے سے بری کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے جو نوحہ لکھا ہے اس پر عدالت کا قصیدہ لکھاجانا بنتا ہے۔دل کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان پر پولیس یا نیب لمبے چوڑے مقدمات بھی بنا دے تب بھی ان الزامات کی صداقت پر یقین نہیں آتا۔اور کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں عدالتیں بری بھی کردیں تو ان کی بے گناہی دل میں بیٹھتی ہی نہیں۔ یہ نقارہئ خدا ہے جو زبان خلق سے ادا ہوتا ہے۔ نیب خود کسی بھی دور میں سیاسی انتقام کے لئے استعمال ہونے اور آلہئ کار بننے کے الزام سے باہر نہیں رہی، اور ان میں وہ ادوار بھی شامل ہیں جن میں خواجہ سعد رفیق کی جماعت برسر اقتدار رہی ہے۔پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ تاثر مزید گہرا ہوا ہے۔ یہ ایک طرف نیب کے لیے تو مہلک ہے ہی۔ حکومت کے لیے بھی قاتل ہے۔ لمبے چوڑے الزامات کے ساتھ گرفتاریاں، عدالت میں کمزور مقدمہ، عدم دل چسپی اور عدم پیروی اور بالآخر متعلقہ ملزم کی بریت۔ ایک سلسلہ ہے جو ختم ہی نہیں ہورہا۔ ایک ہی فلم ہے جو بار بار دہرائی جارہی ہے۔حد ہے کہ عدالت نے یہ بھی لکھا کہ کمپنی کے خلاف ریفرنس میں 5الزامات لگائے گئے لیکن نیب نے درخواست گزاروں سعد رفیق اور سلمان رفیق سے ایک سوال بھی اس حوالے سے نہیں کیا گیا جب کہ ان سے پوچھ گچھ کئی بار کی گئی جس کا آغاز مارچ 2018 ء سے ہوچکا تھا۔


سواقبال کے مصرعے کے مطابق خواجہ کی بلند بامی برقرار ہے۔ مقدمے سے بریت خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کو مبارک ہو۔ اس تمام کھیل سے حکومت کے حصے میں کیا آیا؟ بلکہ یہ سوال اقتدار میں رہنے والی سب سیاسی جماعتوں سے بنتا ہے کہ نیب اگر بد نیت ہے تب بھی،اور اگر نااہل ہے تب بھی۔ باری باری نیب کے ذریعے شکنجے میں کسنے والوں اور بالآخر اسی شکنجے کا خود شکار ہونے والوں کے حصے میں کیا آیا؟
تفصیلی فیصلے میں انگریز فلسفی جان سٹوارٹ مل کا قول نقل کرتے ہوئے عدالت نے لکھا۔”ایک ریاست جو اپنے عوام کو چھوٹا کرکے دکھائے تاکہ وہ اس کے ہاتھوں میں اچھے مقاصد کے لئے ہی سہی، آلہئ کار بنے رہیں۔ یہ جان لے گی کہ چھوٹے آدمیوں سے کوئی بڑا کام نہیں لیا جاسکتا“
کیا یہ بات سب لوگ سوچیں گے؟ وہ لوگ جو باری باری ظالم بھی ہیں اور مظلوم بھی۔

مزید :

رائے -کالم -