وزیر اعلی پنجاب سے کرپٹ پولیس افسران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
سرکاری اداروں بالخصوص پولیس میں رائج کرپشن کا کلچر ایک ایسا موضوع ہے جس پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ عام شہری سے لے کر صنعتکار اور بااثر ترین عوامی عہدوں پر رہنے والے سیاستدان بھی پولیس میں کرپشن کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں ہے کہ محکمہ پولیس میں کام کرنے والا ہر شخص ہی کرپٹ یا بدعنوان ہے لیکن یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پولیس کی اکثریت اس برائی میں ضرور مبتلا ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اب کرپشن کو ایک برائی یا عیب تصور نہیں کیا جاتا بلکہ ہر شخص اپنا جائز یا ناجائز کام کروانے کے لئے ”سپیڈ منی“ دینے اور فائلوں کو ”پہیے“ لگانا معمول سمجھتا ہے۔ کرپشن ہمارے قومی تشخص کو کس طرح مجروح کر رہی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ملک میں قانون کی رٹ کمزور اور ریاستی ادارے افراتفری کا شکار ہیں۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سرکردہ اور طاقتور عناصر بھی ہولناک جرائم میں ملوث پائے جارہے ہیں جس سے اداروں کی ساکھ اور انصاف و قانون کی بالادستی پر سوالیہ نشان پیدا ہورہے ہیں، عوام میں شدید اضطراب اور بے چینی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔بلاشبہ عدلیہ اپنا کردار بحسن خوبی ادا کررہی ہے اور راست اقدامات اور فیصلوں کے باعث جرائم پیشہ عناصر کی گوشمالی بھی کی جارہی ہے۔کئی معاملات میں عدلیہ کے فیصلوں کو بھی متنازعہ بنادیا گیا ہے اور ان کے احکامات کو بھی نظر انداز کرنا معمول بن گیا ہے۔ ایسے واقعات محکمہ پولیس کی کمزوری اور پولیس افسران کا جرائم کی پشت پناہی کرنے جیسے الزامات سے عوام کا اعتبار اداروں سے اٹھتا جارہا ہے۔ قانون کی بے قدری کا یہ عالم کسی ایک صوبہ میں نہیں بلکہ ملک کا کوئی بھی صوبہ اس کمزوری سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ ملک بھر بالخصوص پنجاب میں سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کے پیش نظر پنجاب پولیس کو عوامی تنقید کا سامنا ہے جس سے ان کی کارکردگی بھی متاثر ہورہی ہے۔تمام اداروں کے چھوٹے ملازمین میں کرپشن کی شکایات تو روٹین کی کارروائی سمجھ میں آتی ہے تاہم اب یہ شکایات بڑے افسروں کے بارے میں تیزی سے سامنے آرہی ہیں جوکہ نہایت ہی افسوس ناک ہیں۔لاہور پولیس کے سربراہ کی ہدایت پرصوبائی دارالخلافہ میں ایس پی عہدے کے چند افسران کو فیلڈ سے صرف اس لیے ہٹایا گیا ہے کہ ان پر الزام تھا کہ وہ سنگین مقدمات کے ملزمان سے بھی رشوت لے کر انہیں فائدہ پہنچانے میں ملوث تھے جبکہ اس سے پہلے کرپشن میں برخاست ہونے والے ڈی ایس پیزاور کئی ایک ایس ایچ اوزکی وجہ سے بھی صوبہ بھر کی پولیس کا مورال ڈاؤن ہوا ہے۔ یہ ہی نہیں ایسی ہی شکایات کئی ڈی پی او،اور صوبہ بھر میں تعینات کئی ایس پیز صاحبان کے بارے میں بھی سامنے آئی ہیں۔صوبائی دارالحکومت میں ان شکایات کی روک تھام کے لیے لاہور پولیس کے سربراہ بلال صدیق کمیانہ نے ایس ایچ اوز کی پوسٹنگ ٹرانسفر کے لیے نئے قوائدو ضوابط وضع کیے ہیں۔انہوں نے کرپٹ اور ناقص کارکردگی والے ایس ایچ اوز اور انچارج انوسٹی گیشن کے احتساب کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب انہیں دوبارہ پوسٹنگ نہیں ملے گی۔ناقص کارکردگی والوں کو جوڈیشل ونگ جبکہ کرپٹ ایس ایچ اوز اور انچارج انوسٹی گیشن کے خلاف محکمانہ کارروائیوں میں تیزی لائی جائے۔یہ ہی عمل انہوں نے ڈی ایس پیز اور ایس پیز کے لیے وضع کیا ہے کہ جو کرپٹ یا نااہل ہو گا وہ لاہور میں نہیں رہے گا۔لاہور پولیس کے سربراہ کی ہدایت پر اچھی کارکردگی کے حامل تھانیداروں کوایس ایچ اوز اور انچارج انوسٹی گیشن لگانے کے لیے ان کے انٹرویوز کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے۔پاکستان کی ترقی وخوشحالی میں جہاں دہشت گردی اور سیاسی کشیدگی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں وہی کرپشن، قومی خزانے کی لوٹ مار، اختیارات کے ناجائز استعمال، رشوت خوری اور جعلسازی نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ملک سے کرپشن اور رشوت خوری کے خاتمے کیلئے احتساب کے ادارے قائم تو کردیے گئے مگر کرپٹ افسران کے گرد گھیرا تنگ کرنے کیلئے بنائے جانے والے یہ ادارے خود کرپٹ افراد کا آلہ کار بن گئے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ جب بھی کبھی کسی کرپٹ مافیا کا انکشاف ہو تا ہے توکوئی یقین سے یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ اب اس کا گھیراؤ کر لیا جائے گا کیونکہ گھیراؤ کرنے والے اداروں کی کاکردگی پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔احتساب کے یہ ادارے مضبوط کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت جس کا کام انہیں مضبوط کرنا ہے آجکل وہ خود ان اداروں کی مدد سے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں مصروف ہیں اگر ان اداروں کی کا رکردگی کو فوکس کرکے بہترکر لیا جائے تو کرپشن کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔پاکستان میں آئے روز بڑھتی ہوئی کرپشن کا براہ راست اثر غریب آدمی پر پڑ رہا ہے جس سے اس کا معیار زندگی دن بدن گر رہا ہے۔اب تو بات خودکشیوں تک پہنچ گئی ہے۔خیال رہے کہ پاکستان میں سیاستدانوں ان کے رشتے داروں،بیوروکریٹس اور کئی ایک پولیس افسران پر ملک کو بے دریغ لوٹنے کا الزام ہے۔ہمارا یہ المیہ ہے کہ ان کرپٹ عناصر کا محاصبہ نہیں کیا جاتاجس سے ہمارے ادارے آہستہ آہستہ کھوکھلے ہو تے جارہے ہیں۔ آج کی حکومت سابق دور میں اقتدار میں رہنے والوں کے رشتے داروں اور دیگر احباب پر کرپشن کے الزامات لگا رہی ہے ان کے جانے کے بعد نئی آنیوالی حکومت ان کے رشتے داروں پر کرپشن کے الزام لگائے گئی یہ سلسلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ملک ڈیفالٹ ہونے کے قریب پہنچ گیا ہے، پاکستان میں محکمہ پولیس کے متعلق عوام کی رائے اچھی ہو، ایسا نہیں ہے کہ پولیس کا سارا محکمہ ہی گندا ہے، کرپٹ ہے یا ظالم ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ان گنت نیک نیت، ایماندار اور فرض شناس لوگ اس محکمے میں ایسے بھی ہیں جن کی وجہ سے پولیس کے محکمے کی عزت برقرار ہے۔ افواج پاکستان کی طرح پولیس کے شہداء کی بھی ایک لمبی لسٹ ہے جو وطن عزیز اور اس کے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرگئے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ اداروں کی کارکردگی کو اس وقت تک بہتر نہیں بنایا جاسکتا جب تک انہیں غیر سیاسی نہ کر دیا جائے۔