دنیا کی گیارہویںبڑی معیشت
اس نے بڑے عجیب انداز سے مجھے دیکھا۔مَیں نے غور کیا۔ اس کی آنکھوں میں ایک بے بسی تھی۔لاچاری تھی۔احتجاج تھا۔شاید میری بات اسے اچھی نہیں لگی تھی۔ میری مجبوری تھی، مجھے ایک ضروری میٹنگ میں پہنچنا تھا۔ میں گاڑی میں بیٹھ چکا تھاکہ اچانک وہ آگیا۔مَیں اور وہ بچپن میں اکٹھے رہے اور میٹرک تک اکٹھے پڑھتے رہے ۔بعد میں ہمارے راستے جدا ہوگئے، مگر پھر بھی مہینے دو مہینے بعد ہماری ملاقات ہو جاتی ہے، مگر آج وہ بغیر اطلاع آ گیا تھا،اس لئے مَیں نے معذرت کی اور اسے کسی اور وقت آنے کا کہا، مگر اس کی آنکھیں پڑھ کر مَیں رک گیا۔
کیا بات ہے کچھ اداس ہو، پریشان لگتے ہو،گھر میں تو خیریت ہے،بچے ٹھیک ہیں۔بھابھی کیسی ہیں۔میرے یکدم اتنے سوالوں کے جواب میں اس نے میری طرف دوبارہ دیکھا۔لگتا تھا ان آنکھوں میں ایک تلاطم ہے اور اگر مََیں نے کوئی مزید سوال کیا تو اس دربائے تلاطم سے آنسوﺅں کا ایک سیلاب اُچھل کر اس کے چہرے کو سیراب کر جائے گا، مگر اس نے بڑے ضبط اور حوصلے سے کہا: ” کچھ مشکل ہے، اسی لئے تو آیا ہوں“۔ ”کیا مشکل ہے؟مَیں گاڑی سے باہر آکر اس کی بات سننے لگا.... مَیں جس فیکٹری میں کام کرتا تھا۔اس کے مالک نے گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ سے تنگ آکر فیکٹری بند کردی ہے،کیونکہ ان حالات میں اس کے اخراجات پورے نہیں ہو رہے تھے۔ ملازمین کے بقایا جات بھی ادا نہیں کئے۔دس پندرہ دن سے بیکار ہوں۔کوشش کے باوجود نیا کام نہیں مل سکا۔گھر کے حالات بگڑتے جا رہے ہیں۔اب تو موٹرسائیکل میں پٹرول ڈلوانا بھی مشکل ہو رہاہے۔گھر میں بچوں کا سامنا کرنا بہت کٹھن ہے، کیونکہ وہ پوچھتے ہیں کہ کوئی کام ملا۔کہیں سے یپسے ملے۔تمہارے وسیع تعلقات ہیں، کہیں چھوٹی موٹی نوکری ڈھونڈ دو۔یہ مشکل وقت کٹنے کا کچھ بہانہ تو ہو جائے۔
مالی، سماجی اور معاشی اعتبار سے ہم شاید پاکستانی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔حالات میں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔مالی اعتبار سے ہم ایک کرپٹ قوم ہیں۔پیسے کے حصول کے لئے ہم عزت نفس بھی داﺅ پر لگا دیتے ہیں۔سماجی اعتبار سے بھی صورت حال افسوسناک ہے۔اخلاقی قدریں دم توڑ رہی ہیں۔ہر شخص اپنی ذات میں مگن ہے۔کسی کی مدد تو درکنار ،اس کی تکلیف کے بارے میں سننا یا دیکھنا بھی گوارہ نہیں ۔پنے اپنے مفادات کا کھیل جاری ہے۔بے حسی اپنی انتہا پر ہے اور ملک کی معاشی ابتری کا اندازہ میرے دوست کی باتوں سے ہوجاتا ہے، مگر حکمرانوں کو لوگوں کی حالت اور اس کے نتیجے میں آنے والے طوفان کی کچھ خبر نہیں۔فرانس کی ملکہ میری کے بارے میں مشہور ہے کہ جب انقلاب فرانس آ رہا تھا۔لوگ روٹی کے لئے نعرے بازی کررہے اور جلوس نکال رہے تھے تو ملکہ نے مشورہ دیا تھا کہ اگر انہیں روٹی نہیں ملتی تو کیک کھا لیں۔
یہی صورت حال پاکستان کی ناکام معاشی پالیسیوں کے خالق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ہے،جو بضد ہیں کہ پاکستان معاشی ترقی کی طرف گامزن ہے اور بہت جلد دنیا کی گیارہویں بڑی معاشی قوت ہوگا،جو حکومت کے بہترین معاشی اقدامات کا نتیجہ ہے۔وہ کہتے ہیں کہ انہیں ورثے میں 9ارب ڈالر کا قرضہ ملا ہے۔1999ءمیں پاکستان کا قرض 2946ارب تھا جو بعد کے دور میں 12ارب سے زیادہ ہو چکا ہے، مگر اب انہوں نے ملک کی معیشت کو صحیح راستے پر گامزن کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور نوازشریف کی ہدایات کی روشنی میں ایک بہترین بجٹ تشکیل دیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی بجٹ ہے ،جس میں عوام کو قربان گاہ کی نذر کیا گیا تھا اور جس کے نتیجے میں مہنگائی کا ایسا طوفان اٹھا ، جو اب تک رکنے کا نام نہیں لیتا۔ڈالر بھاگ بھاگ کر ایک سو دس روپے کی حد عبور کرچکا ہے۔اسے منا کر تھوڑا کم کرتے ہیں، مگر وہ ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔
اسحاق ڈار مزید فرماتے ہیں کہ وزیراعظم کے صوابدیدی فنڈ کو ختم کردیا گیا ہے اور وزیراعلیٰ ہاﺅس کے اخراجات میں 40فیصد کمی کردی گئی ہے، مگر انہوں نے یہ بات نہیں بتائی کہ کون سے وزیراعلیٰہاﺅس کی بات کررہے ہیں۔وزیراعلیٰ ہاﺅس تو چھ سات ہیں۔وزیراعظم ہاﺅس بھی یقینا ایک سے زیادہ ہیں۔پتہ نہیں کس کے اخراجات میں کمی آئی ہے۔ڈار صاحب نے مزید فرمایا کہ پچھلی حکومتیں اپنے اقتدار کے دوران سیاسی مفادات کے حصول کے لئے بجلی کے نرخوں میں اضافہ نہیں کرتی تھیں۔ہم نے عوامی مفادات کے حصول کے لئے بجلی کے نرخ بڑھا دیئے ہیں، مگر بقول ان کے انہوں نے غریبوں پر خاص نظر کرم کی ہے کہ 200یونٹ تک استعمال کرنے والوں کے لئے نرخ نہیں بڑھائے۔وزیرخزانہ کے بقول معیشت میں اس قدر بہتری آئی ہے کہ 33چیزوں کی قیمتوں میں استحکام رہا ہے۔دس کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، جبکہ صرف 13چیزوں کی قیمت میں انتہائی معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اسحاق ڈار بنیادی طور پر اکاﺅنٹنٹ ہیں،ماہر معیشت نہیں۔ان کا کام اعداد سے کھیلنا ہے،جس فرم کے لئے کام کرتے ہیں،اس کے اخراجات کو اس قدر خوبصورتی سے ترتیب دیتے ہیں کہ اصلیت کہیں گم ہو جاتی ہے۔ذاتی اخراجات بھی فرم کے اخراجات میں مدغم ہو جاتے ہیں۔فرم کے مالک کے مفادات کے تحفظ کے لئے وہ ہر کام کر گزرتے ہیں۔اب بھی وہ مسلم لیگ کے مفادات کے امین ہیں، انہیں شاید عوام کے مفادات سے کوئی غرض نہیں، انہیں بہتر معیشت کا مفہوم پتہ ہے، مگر وہ بتانا نہیںچاہتے۔معاشی اعتبار سے بہتری تو اس وقت پیدا ہوتی ہے ،جب ملک میں انڈسٹری پھیل رہی ہو۔ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ رہا ہو، بیروزگاری ختم ہو رہی ہو، حکومتی اقدامات کے نتیجے میں نہ صرف وسائل میں بہتری آ رہی ہو، بلکہ عام آدمی کے رہن سہن اور طرزِ زندگی میں اورخوشگوار تبدیلی آئے۔لوگوں کے مصائب کم ہوں، خوشحالی محسوس ہو۔ ٭