گلدستہ اہل بیت سلام اللہ رضوانہ علیہم ایک کتاب کا نام ہے ،جو حال ہی میں چھپ کر اہل علم حضرات تک پہنچی ہے۔ یہ کتاب مولانا طارق جمیل کی زیرنگرانی لکھی گئی۔ اس کی نشر و اشاعت جامعۃ الحسنین پاکستان کے اہتمام سے ہوئی۔ مولانا طارق جمیل کی شناخت محض ایک روایتی عالم کی حیثیت سے نہیں، بلکہ مبلغ اسلام کی حیثیت سے ہوئی اور بڑھتی چلی گئی۔ رفتہ رفتہ ان کی یہی شناخت پورے عالم اسلام میں پھیلی اور پھیلتی چلی گئی۔ اس وقت عالم اسلام کا کوئی کونا ایسا نہیں، جہاں مولانا طارق جمیل جانے نہ جاتے ہوں۔
پورے عالم اسلام بلکہ عالم کفر میں بھی مولانا طارق جمیل کو جاننے اور پہچاننے والے موجود ہیں اور ان کی گفتگو کی سماعت کا شوق رکھتے ہیں۔ ان کے بیان میں عام علماء کے انداز سے ہٹ کر علمی وجاہت ہوتی ہے۔ وہ تقریر کا منفرد انداز رکھتے ہیں۔ بیان کے اسلوب کا مرکزی نکتہ اگرچہ تبلیغ ہوتا ہے، تاہم اس کے اندر چاشنی اور جاذبیت بدرجہ اتم ہوتی ہے، جو سننے والوں کے دلوں کو موہ لیتی ہے۔ دل چاہتا ہے مولانا بولتے رہیں اور سماعت میں رس گھولتے رہیں۔ دلچسپی کی کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ ان کے نام ہی سے بکھرا مجمع وقت سے قبل ہی انتشار کو اجتماع کی شکل دے دیتا ہے۔ بسا اوقات تو مجمع کا سانس یا تنفس بھی رکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ پوری فضا ساکت و صامت۔۔۔بیان پر کان لگائے ہوتی ہے۔
مولانا طارق بھی ہیں اور جمیل بھی۔ گفتگو کرتے ہیں تو قرآنی آیت وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِق وَمَا اَدْرٰ کَ مَا الطَّارِقُ النَّجْمُ الثَّاقِبُ کی عملی تصویر نظر آتے ہیں۔ تقریر روایتی انداز میں نہیں، بلکہ غیر روایتی انداز میں کرتے ہیں اور پورے مجمعے کو اپنی شخصی کشش میں گم کر لینے کا گر جانتے ہیں۔ اللہ نے حافظہ بھی مثالی عطا کر رکھا ہے۔ پوری تقریر میں گھن نہیں گرج نہیں، بلکہ بہتے پانی کا ٹھہراؤ ہوتا ہے اور بات دل میں گھر کرتی چلی جاتی ہے۔ اس بات کا احساس اس دقت ہوتا ہے جب مولانا طارق جمیل گفتگو بند کرکے لوگوں سے وقت دینے کا مطالبہ کرتے ہیں تو پورے مجمعے کا سکوت ٹوٹ جاتا ہے اور لوگ پورے اشتیاق سے اپنا نام لکھوانا شروع کرتے ہیں۔ نام لکھوانے والا ایک نہیں ہوتا، بلکہ درجنوں ہوتے ہیں۔
نام دینے والوں کی فہرست اتنی بڑھتی ہے کہ قرطاس و قلم اپنی کم مائیگی پر شہادت دیتے ہیں۔ مولانا قلم کے نہیں، بلکہ عمل کے آدمی ہیں۔ ان کا یہی وصف سننے والوں کو عمل پر آمادہ کرتا ہے۔ مولانا عام علماء کی طرح توڑ کی بات نہیں کرتے، بلکہ جوڑ کی بات کرتے ہیں۔ گفتگو کے اندر طنز ،طعن و تشنیع کا سرے سے گزر ہی نہیں ہوتا۔ ہر سننے والا دل ہی دل میں اپنی سابقہ ز ندگی پر نادم ہونے لگتا ہے۔ عالم خیال میں رب کے حضور حاضر ہو کر اشک ندامت رخساروں پر بہہ پڑتے ہیں اور انسان دل ہی دل میں اللہ کے حضور مناجات کرتے ہوئے کہتا ہے:
دل کی کالک دھونے آیا ہوں
تیرے در پر تیرا ہونے آیا ہوں
ان کی تقریر ہر سامع کو شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث کی جکڑ بندیوں سے آزاد کرتی ہے، پیغام محبت عطا کرتی ہے اور سننے والا خود کو آزاد فضا میں سانس لیتے ہوئے محسوس کرتا ہے ۔ مولانا طارق جمیل ایک کرب اور تڑپ کا نام ہے۔ وہ پوری امت کو امت واحدہ کی لڑی میں پروئے دانوں کی تسبیح کی شکل میں دیکھنے کے متمنی ہیں۔ یہی ان کی خواہش ہے اور یہی ان کی زندگی کا مقصد و مشن ہے۔ لوگ کچھ بھی کہیں وحدت امت کا حصول ان کی زندگی کا اصول ہے۔ اس کے لیے وہ ناصبیت کی تہمت بھی قبول کرنے میں مضائقہ نہیں سمجھتے۔ وہ فرماتے ہیں:
ان کان رفضاً حب آل محمد
فلیشہد انثقلان انی رافضیٌ
اگر محبت اہل بیت کا نام رافضیت ہے تو جن و انس گواہ رہیں کہ مَیں بھی رافضی ہوں۔
اٰلُ النبی ذریقی وھُمو الیہ وسیلتی
ارجوا بھم اُعطی غدًا
بیدی الیمین صحیفتی
ال رسول میرے لئے ذریعہ نجات ہے اور وہی حضرات حق تعالیٰ کے حضور میرا وسیلہ ہیں۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ کل قیامت کے دن انہی کے وسیلے سے میرا نامۂ اعمال مجھے داہنے ہاتھ میں تھمایا جائے گا۔ مولانا طارق جمیل صاحب نسبت ہیں۔ معروف خطاط سید نفیس الحسینی ؒ سے ان کو چاروں سلاسل سے خلافت کا شرف حاصل ہے۔ ایک مجلس میں سید نفیس الحسینیؒ نے سب حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : ’’تم سب گواہ رہو کہ مَیں نے مولوی طارق جمیل صاحب کو چاروں سلسلوں میں خلافت دی ہے۔
مبارک ہیں وہ لوگ جو اس نسبت سے ناطہ جوڑتے ہیں اور ہر قسم کے شرک و بدعت سے ناطہ توڑتے ہیں اور قرب الہٰی حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں‘‘۔۔۔۔مولانا طارق جمیل کی یہ کتاب ان کے قلم سے نہیں اور نہ ہی املائی کتاب ہے، بلکہ ان کے ایما پر ان کے چیدہ چنیدہ شاگردوں کے ذوق مطالعہ کا ثمر ہے، جس کو انہوں نے مولانا کی نگرانی میں ایک گلدستے کی شکل میں جمع کیا ہے۔ یہ کتاب چھ سو ستائیس صفحات پر مشتمل ہے، جس کے چار ابواب ہیں۔ پہلے باب کا عنوان بنیادی باتیں ہے جس کی چار فصول ہیں۔ دوسرے باب کا عنوان ازواج مطہرات ہے، جس میں گیارہ امہات المومنین کی سیرت و مناقبت کا تذکرہ ہے۔ تیسرا باب اولاد اطہار کی سیرت و مناقبت پر ہے۔ جو انسان کو دعوت عمل پر انگیخت دیتے ہیں۔
تیسرے باب کی پہلی فصل میں صاحبزادوں کا تذکرہ ہے، جبکہ فصل دوم میں صاحبزادیوں کا ذکر ہے۔ چوتھے باب میں ائمہ اہل بیت کے حالات کا تذکرہ ہے، جو امیر المؤمنین حضرت علیؓ کی سیرت سے شروع ہوتا ہے۔ امام حسنؓ کے احوال ان کی صُلبی اولاد کے تذکروں پر مشتمل ہے۔ اسی طرح امام حسینؓ صاحبزادگان، امام باقر، امام زید، امام جعفر، امام اسماعیل، موسیٰ کاظم، امام علی رضا، امام محمد تقی، امام علی نقی، امام حسن عسکری کا پاکیزہ تذکرہ ہے۔ پوری کتاب کا مرکزی نکتہ مسلمانوں میں باہم اتحاد و اتفاق کی فضا پیدا کرنا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ باہمی نفرتوں اور تفریق کی فضا میں اس کتاب کی ترتیب و تدوین میں مولانا نے پل صراط کا کٹھن سفر بڑی کامیابی سے سر کیا ہے۔ مولانا طارق جمیل کی یہ کوشش انتہائی مستحسن ہے۔ امید ہے مولانا کی یہ کوشش مسلمانوں کو جوڑنے کا موثر ذریعہ ثابت ہوگی اور سب مسلمان :
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
کی عملی تصویر ثابت ہوں گے اور مسلمانوں کو ماضی کا جاہ و جمال پھر حاصل ہوگا۔