منصوبوں پر افتتاحی تختیاں لگانے کا شوق فراواں ہمارے حکمرانوں کا مشترکہ ذوق ہے

منصوبوں پر افتتاحی تختیاں لگانے کا شوق فراواں ہمارے حکمرانوں کا مشترکہ ذوق ...
منصوبوں پر افتتاحی تختیاں لگانے کا شوق فراواں ہمارے حکمرانوں کا مشترکہ ذوق ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : قدرت اللہ چودھری

ہمارے حکمرانوں اور حکومتوں کے درمیان جہاں بہت سے اختلافات ہوتے ہیں، وہاں بعض باتیں ایسی ہیں جو تقریباً ہر حکمران میں پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر ترقیاتی منصوبوں پر افتتاحی تختیاں لگانا ہمارے حکمرانوں کا مشترکہ ذوق و شوق ہے۔ منصوبہ مکمل ہو نہ ہو، کام تاخیر کا شکار ہو جائے یا سرے سے نامکمل منصوبہ ہی برسوں غفلت کا شکار رہے، لیکن افتتاحی تختی ضرور لگنی چاہئے۔ وزیراعظم عمران خان کہتے تو یہی ہیں کہ وہ پہلے حکمرانوں سے مختلف ہیں، لیکن افتتاحی تختی کی کشش ان کے اندر بھی پائی جاتی ہے۔ 28 نومبر کو انہوں نے سیالکوٹ میں خواتین یونیورسٹی کے نئے کیمپس کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا۔ جہاں انہوں نے اہل وطن کو یہ باور کرانا ضروری سمجھا کہ ان کی حکومت تعلیم کو ترجیح دیتی ہے، ہم سڑکیں نہیں بنائیں گے، تعلیمی ادارے بنائیں گے۔ یہ عزم تو مبارک ہے لیکن انہیں شاید ان کے وزرأ یا سٹاف میں سے کسی نے نہیں بتایا کہ جس یونیورسٹی کی تعمیر کی افتتاحی تختی اب ان کے نام سے لگی ہے، ایسی تختی تو شہباز شریف اپنی وزارت علیا کے دور میں مئی 2017ء میں لگا چکے ہیں، اب ڈیڑھ سال بعد انہوں نے یہاں اپنے نام کی دوبارہ تختی لگا دی اور خوش ہوگئے کہ ان کی حکومت تعلیم کو ترجیح دے رہی ہے جبکہ سابق حکومت سڑکیں بناتی تھی۔
وزیراعظم عمران خان کو دھوکے میں رکھا گیا یا انہوں نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی دوبارہ افتتاح کرنا قرین مصلحت سمجھا، اس بارے میں تو ہمیں علم نہیں لیکن سیاستدان یہ بہرحال جانتے ہیں کہ عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے، وہ چیزوں کو جلدی بھول جاتے ہیں، اس بات کو سمجھنے کے لئے ذرا ماضی میں جانا ہوگا، آپ کو یاد ہوگا کہ جب نواز شریف پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تھے تو انہوں نے لاہور اسلام آباد موٹروے کی تعمیر کا تیز رفتاری سے آغاز کر دیا تھا، جس پر حزب مخالف نے اس کے خلاف زبردست طوفان کھڑا کر دیا۔ بینظیر بھٹو اس وقت قائد حزب اختلاف تھیں، انہوں نے اس منصوبے پر شدید نکتہ چینی کی اور کہا کہ یہ منصوبہ سارے وسائل ہڑپ کر جائے گا اور دوسرے ترقیاتی منصوبوں کے لئے کچھ نہیں بچے گا، یہ بھی کہا گیا کہ اس کی بجائے جی ٹی روڈ کو کشادہ کر دیا جائے تو مقابلتاً بہت تھوڑے پیسے سے ہوسکتی ہے، لیکن نواز شریف نے موٹروے پر کام شروع کرا دیا، ان کی پہلی حکومت (صدر) غلام اسحاق خان نے ختم کی تو سپریم کورٹ کے گیارہ رکنی فل کورٹ بنچ نے 1-10 سے یہ حکومت اور اسمبلی بحال کر دی۔ بحالی کے بعد انہوں نے پھر اعلان کیا کہ وہ موٹر وے کے منصوبے کو التوا کا شکار نہیں ہونے دیں گے، لیکن ان کی بحال شدہ حکومت زیادہ دیر نہ چل سکی اور انہیں اور غلام اسحاق خان کو اپنے عہدے سے استعفا دینا پڑا۔ نئے انتخابات میں بینظیر بھٹو دوبارہ وزیراعظم بن گئیں تو موٹروے کی مخالفت کے باوجود انہیں اس کی تعمیر روکنے میں کامیابی نہ ہوئی، کام جاری رہا اور اس کے کئی سیکشن مکمل ہوگئے۔ بینظیر کا خیال تھا کہ وہ موٹروے کا افتتاح کر دیں، ان کی حکومت اور پارٹی میں بہت سے رہنما یہ رائے رکھتے تھے کہ وہ چونکہ اس منصوبے کی بڑی شد و مد سے مخالفت کرتی رہی ہیں، اس لئے اب اگر وہ افتتاح کریں گی تو انہیں اس کا سیاسی طور پر فائدہ نہیں نقصان ہوگا، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ یہ منصوبہ نواز شریف نے شروع کیا اور آپ نے اس کی مخالفت کی، تاہم بینظیر بھٹو کا خیال تھا کہ عوام کی یادداشت اتنی مضبوط نہیں ہوتی، وہ جب ہمارا افتتاح دیکھیں گے تو اسے یاد کریں گے۔ یہ بحث ابھی جاری تھی کہ فاروق لغاری نے ان کی حکومت برطرف کر دی، جس کے نتیجے میں ہونے والے انتخابات میں نواز شریف دوسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے اور انہوں نے ہی موٹروے کا افتتاح کیا۔ اپنے دوسرے دور میں اسلام آباد پشاور موٹروے بھی شروع کراچکے تھے، جس کا تعمیراتی کام اس وقت رک گیا جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا۔ تعمیراتی کمپنی کو اس پر یہ اعتراض تھا کہ وہ منصوبے کا بڑا حصہ مکمل کرچکی ہے، اس لئے کام روکنا نہ صرف پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوگا بلکہ کمپنی قانونی چارہ جوئی بھی کرے گی، پھر یہ سوچا گیا کہ اس موٹروے کو چھ کی بجائے چار رویہ کر دیا جائے، لیکن کمپنی اس پر بھی تیار نہ ہوئی۔ کیونکہ سارے پل چھ رویہ کے حساب سے بن چکے تھے۔ طوعاً و کرہاً اس منصوبے کو مکمل کرنا پڑا اور پھر اس کا افتتاح وزیراعظم شوکت عزیز نے کیا۔ پنڈی بھٹیاں، فیصل آباد موٹروے کا کام بھی رک رک کر شروع کیا گیا، آج یہ موٹروے بھی پوری طرح چل رہی ہے، اب تو لاہور ملتان موٹروے بھی مکمل ہوچکی ہے، لیکن اسے ٹریفک کے لئے نہیں کھولا جا رہا۔
لاہور میں والٹن کے مقام پر باب پاکستان کی تعمیر کا منصوبہ بھی کئی بار افتتاح کے باوجود آج تک ادھورا اور نامکمل پڑا ہے، جو حکمران بھی آتا ہے اپنے نام کی تختی لگا کر رخصت ہو جاتا ہے، منصوبہ وہیں کا وہیں ہے، اب غالباً وزیر ریلوے نے اعلان کیا تھا اس منصوبے میں ایک یونیورسٹی کی تعمیر بھی شامل کی جائے گی، یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ منصوبہ عملاً کب شروع ہوگا اور کب مکمل ہوگا اور یونیورسٹی بنے گی یا نہیں، لیکن یہ عین ممکن ہے ہمارے شعبدہ باز وزیر اس منصوبے پر بھی وزیراعظم عمران خان کے نام کی تختی لگوا ہی دیں ویسے کیا حرج ہے جہاں اتنے سارے حکمرانوں نے اس منصوبے پر اپنی عظمت کے نقوش ثبت کئے اگر ایک اور حکمران ایسا کر دے گا تو کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے لیکن گزارش صرف اتنی ہے کہ اگر ایک اور تخی لگ کر یہ منصوبہ مکمل ہوتا ہے تو یہ مہنگا سودا نہیں ہے، دیا میر بھاشا ڈیم کا سب سے پہلے افتتاح جنرل پرویز مشرف نے کیا تھا بلکہ یاد پڑتا ہے انہوں نے اس موقعہ پر اعلان کیا تھا کہ ہم کالا باغ ڈیم بھی بنائیں گے انہوں نے دونوں ڈیموں کی تکمیل 2014ء یا 2016ء میں کرنے کا اعلان کیا تھا چونکہ ان کے حامی سیاستدان انہیں دس مرتبہ وردی میں صدر منتخب کرانے کا مصمم اعلان کر چکے تھے اس لئے غالباً وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ 2016ء تک صدر رہیں گے ویسے تو وہ اپنے تئیں 2013ء تک اس عہدے کے لئے منتخب ہو چکے تھے لیکن پھر انہیں 2008ء ہی میں استعفا دینا پڑا دیا میر بھاشا ڈیم منصوبے کا افتتاح یوسف رضا گیلانی نے بھی کیا تھا لیکن منصوبے کی تعمیر تک شروع نہیں ہو سکی۔ گزشتہ برسوں کے وفاقی بجٹ میں اس منصوبے کی راہ میں آنے والی زمینوں کے مالکان کو 150ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئیں اب جناب چیف جسٹس اس کے لئے فنڈز جمع کر رہے ہیں، دیکھیں یہ منصوبہ کب شروع اور کب مکمل ہوتا ہے۔

مزید :

تجزیہ -