مربوط قانون کی ضرورت!
اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ حکومت چیف آف آرمی سٹاف کے حوالے سے ملازمت میں توسیع کے لئے جو قانون سازی کرے گی وہ تینوں سروسز چیف اور چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کی مدت ملازمین پر بھی محیط ہو گی۔ انگریزی معاصر کی خبر کے مطابق اٹارنی جنرل نے توسیع کے حوالے سے ان کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ عدالت عظمیٰ کی فاضل فل بنچ نے اپنی توجہ اسی مسئلہ پر رکھی تاہم جب عدالتی ہدایت کے مطابق آرٹیکل 243کے حوالے سے قانون سازی ہو گی تو اس میں ایئر فورس اور نیوی چیف کے علاوہ چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی مدت ملازمت اور توسیع وغیرہ کے امور کو بھی شامل کیا جائے گا۔ چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے جو کچھ عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران پیش آیا وہ سب کے سامنے ہے۔ یہ مسئلہ جس کی اب نشاندہی ہوئی یہ بھی ایک اخبارنویس کے توجہ دلانے کے بعد ہی سامنے آیا اور وہ بھی اٹارنی جنرل نے وضاحت کی ہے۔ حکومت، ان کے مشیر اور وکلاء ٹیم تو اب تک چیف آف آرمی سٹاف والے فیصلے کے اثر سے ہی باہر نہیں نکلے اور شادیانے بجا کر اپنی فتح کا اظہار کرکے اپوزیشن پر تنقید بھی کر رہے ہیں، حالانکہ یہ بہت اہم تھا کہ صرف آرمی چیف ہی نہیں باقی سربراہوں کی شرائط ملازمت کا بھی تصفیہ ہو جائے۔ سماعت کے دوران حکومت کی قانونی ٹیم کی مہارت سب کے سامنے ہے اور فیصلے کے بعد وزیراعظم نے اپنے خطابات میں جن خیالات کا اظہار کیا اس سے حزب اختلاف کو بھی جواب دینا پڑا ہے یہ امر قانون سازی کے وقت مشکل پیدا کر سکتا ہے۔ اب اٹارنی جنرل نے جو کہا یہ صائب اور بہتر ہے۔ حکومت کو سب کچھ بھلا کر توجہ اس طرف دینا چاہیے کہ اب ایک مربوط قانون بن کر متفقہ طور پر منظور ہوسکے اور ایک مشکل حل ہو جائے۔ اگر آرٹیکل 243میں ترمیم کی ضرورت ہوئی تو پھر دوتہائی والا مسئلہ پیدا ہو گا۔ بہتر ہوگا کہ تنازعات اور بیان بازی کو چھوڑ کر توجہ اس طرف مبذول کرائی جائے۔