چیف جسٹس کی شگفتہ بیانی: وکلاء اور ججوں کو یاددہانی
ملتان میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے لاہور ہائیکورٹ بار ملتان کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جس شگفتہ انداز میں تقریر کی، میرے ذہن میں ان کی سخت گیری اور خشک مزاجی کا جو تاثر قائم تھا، وہ بھاپ کی طرح زائل ہو گیا۔ اپنی تقریر کا آغاز انہوں نے سرائیکی زبان میں کیا۔ سرائیکی ایک بڑی میٹھی اور نرم زبان ہے۔ انہوں نے کہا جب بندہ اپنے گھر آئے تو اسے مہمان نہیں کہتے۔ مَیں اپنے گھر آیا ہوں، کیونکہ میری پروفیشنل زندگی کا آغاز اسی شہر سے ہوا ہے،
پھر انہوں نے اپنی یادیں تازہ کیں اور ہال میں بیٹھے ہوئے سینئر وکلاء کا نام لے لے کر انہیں یاد کیا۔ پھر انہوں نے وکالت میں اپنے استادوں مرزا منظور اور پرویز آفتاب کو بھی خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اپنے اردو، انگریزی اور سرائیکی خطاب میں انہوں نے بڑے سادہ لفظوں میں انتہائی سنجیدہ اور پتے کی باتیں وکلاء اور ججوں تک پہنچائیں۔ اگر وہ یہ ہلکا پھلکا انداز اختیار نہ کرتے تو شاید یہ سخت باتیں بھی نہ ہوتیں۔ عام خیال یہ تھا کہ وہ ایک روز پہلے چیف آف آرمی سٹاف کی توسیع کے مقدمے کی بابت کچھ کہیں گے، مگر انہوں نے اپنا فوکس صرف ججوں کی ذمہ داری اور وکلاء کی موجودہ صورتِ حال تک محدود رکھا۔ مجھے یوں لگا جیسے ایک دانشور نے مسئلے کا سارا کچا چٹھا بیان کر دیا ہو۔ صرف مسئلہ ہی نہیں،بلکہ اس کا حل بھی پیش کیا، تاکہ بہتری کی کوئی صورت پیدا ہو سکے۔
انہوں نے بڑی مہارت سے وکلاء کے رویوں میں آنے والی اصل جڑ کی نشاندہی کر دی۔ انہوں نے ماضی کے چیف جسٹس صاحبان کی طرح یہ نہیں کہا کہ وکلاء میری طاقت ہیں یا کالا کوٹ ملک میں جمہوریت اور انصاف کی علامت ہے، بلکہ انہوں نے یہ کہا کہ آج کے وکلاء کو استاد میسر نہیں ہیں، وہ بے استادے ہیں، اس لئے ان کے رویوں میں اعلیٰ روایات کا تسلسل موجود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک زمانہ تھا جب نیا وکیل ایل ایل بی کرکے آتا تو اسے کسی سینئر کے ساتھ پانچ سات برس کام کرنے کا موقع ملتا، وہ وکالت اور ادب و آداب کے رموز سیکھتا۔ سینئر کے احترام کا جو سلسلہ چلا آ رہا تھا، وہ آگے بڑھتا، مگر اب جس وکیل کی دو سال پریکٹس نہیں ہوتی، اس کے آگے بیس شاگرد وکلاء ہوتے ہیں، انہوں نے طنزاً کہا کہ پرائیویٹ کالجوں میں جو ایک سال پڑھا لیتا ہے،
اسے کالج والے فرسٹ ائر لاء کے طالب علموں کو پڑھانے پر لگا دیتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سینئر وکلاء سے سیکھنے کی روایت دم توڑ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بار ایسوسی ایشنوں میں بھی نئے وکلاء عہدیدار بن جاتے ہیں، کیونکہ سینئر وکلاء اب الیکشن میں اس خیال سے حصہ نہیں لیتے کہ جو نوجوان وکلاء ہیں وہ تو انہیں جانتے ہی نہیں،نہ ہی انہیں سینئرز کے احترام کی عادت ڈالی گئی ہے۔ انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن پاکستان کے صدر ملک حیدر عثمان ہیں،جو اس وقت بھی صدر ہوا کرتے تھے، جب وہ ملتان میں موجود تھے۔ ایسے سینئرز وکلاء کا دم غنیمت ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وکلاء کو اپنی درخشاں روایات دوبارہ اپنانی چاہئیں۔ جونیئر وکلاء کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے سینئرز کی عزت کریں اور ان سے سیکھیں، تاکہ اس عظیم پیشے کے بارے میں جو سوالات اٹھ رہے ہیں، انہیں اپنے بہتر عمل سے دور کیا جا سکے۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ بار اور بنچ ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی اس کا ذکر کیا، مگر ایک دوسرے پیرائے میں انہوں نے کہا کہ بار اور بنچ انصاف کی گاڑی کے دو پہیے ضرور ہیں، مگر ایک تیسرا بھی ہے، جو اصل میں اس گاڑی کو چلا رہا ہے اور وہ سائل ہے،اسی کے لئے وکالت کا شعبہ بنا ہے اور اسی کو انصاف دینے کے لئے عدالتیں قائم کی گئی ہیں۔ اگر ہم اس تیسرے پہیے کو بھول جاتے ہیں تو درحقیقت ہم اس گاڑی کو روک دیتے ہیں۔اگر وکیل بحث کرنے کی بجائے تاریخ لیتا ہے اور جج فیصلہ کرنے کی بجائے تاریخ دیتا ہے تو اس کا مطلب ہے جو اصل فریق ہے، یعنی سائل ہے اور جس کی وجہ سے سب کی روزی روٹی چلتی ہے، وہ بے چارہ دربدر ہو جاتا ہے۔ پھر انہوں نے اپنے بارے میں بتایا کہ پانچ سال پہلے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ صرف دو صورتوں میں التوا دیں گے یا وکیل وفات پا جائیں یا جج صاحب دنیا سے رخصت ہو جائیں۔اس پر وہ آج بھی سختی سے عمل کر رہے ہیں۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک بڑی سخت مثال سے فیصلہ نہ کرنے والے ججوں کو نائب قاصد کے مماثل قرار دیا۔
انہوں نے کہا مَیں جب بھی جوڈیشل اکیڈمی میں نئے ججوں کو لیکچر دیتا ہوں تو ان کے سامنے ان کی عدالت کا منظر رکھتا ہوں۔ ان کی عدالت کے باہر ایک ہرکارہ موجود ہوتا ہے،جو مقدمے کی آواز لگاتا ہے۔ اندر جج صاحب اور ان کا سٹاف موجود ہوتا ہے۔ روسٹرم پر مقدمے کے وکیل اور سیٹوں پر دیگر مقدمات کے انتظار میں بیٹھے ہوئے سائلین و وکلاء ہوتے ہیں۔ اگر جج صاحب مقدمہ سننے کے بعد فیصلہ نہیں دیتے تو ان میں اور دروازے پر کھڑے ہوئے ہرکارے میں کوئی فرق نہیں۔وہ بھی آواز لگا کر بری الذمہ ہو جاتا اور جج صاحب بھی تاریخ دے کر سرخرو ہو جاتے ہیں۔ایسی کھٹی میٹھی باتوں سے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جہاں تقریب کو خوشگوار بنائے رکھا، وہاں انہیں تالیاں بجا کر بار بار داد بھی دی جاتی رہی۔ صاف لگ رہا تھا کہ ان کی باتیں حاضرین کے دلوں میں ترازو ہو رہی ہیں اور وہ کڑوا سچ جو اکثر نہیں بولا جاتا، گل قند میں لپیٹ کر پیش کیا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے خطاب سے یہ بات واضح تھی کہ وہ وکلاء سیاست دانوں اور وکیلوں کے رویے کی موجودہ صورت حال سے مطمئن نہیں۔ انہوں نے بڑے واضح انداز میں یہ کہا کہ ماضی اور حال میں بڑا فرق ہے۔ ماضی میں یہ تصور موجود نہیں تھا کہ کوئی وکیل جج کی توہین کا سوچے، ادب و احترام کی ایک لکیرہر وقت وکیل اور جج کے درمیان رہتی تھی۔ انہوں نے اس کی نصف ذمہ داری بالواسطہ طورپر جج صاحبان پر بھی ڈالی اور اس کی وجہ مقدمات کی زیادتی کو قرار دیا، جس کے باعث وہ ہر وکیل کو تسلی سے نہیں سنتے، جس کے نتیجے میں ایسے واقعات جنم لیتے ہیں، تاہم ان کا اشارہ صرف عدالتوں کے اندر ہی نہیں، بلکہ باہر اور معاشرے میں وکیلوں کے عمومی رویے کی طرف بھی تھا،جس کے باعث معاشرے کا یہ سب سے پڑھا لکھا اور قانون کی حفاظت کا دعویدار طبقہ اپنی منزل کھو رہا ہے۔ انہوں نے بجا طو رپر یہ کہا: ”بار ایسوسی ایشنوں کو کوئی ایسا طریقہء کار وضع کرنا چاہیے، جس کے ذریعے جونیئر وکلاء کو لازمی طورپر سینئر وکلاء کی رہنمائی اور سرپرستی میسر آئے، تاکہ وہ اس پیشے کی روایات اور تقاضوں کو جان سکیں“۔ فی الوقت تو صورتِ حال یہ ہے کہ بار ایسوسی ایشنیں نوجوان وکلاء کے ہاتھوں میں یرغمال بن چکی ہیں۔
نوجوان وکلاء تشددکے واقعات میں ملوث ہوں یا کسی جج کی توہین بھی کر دیں، تب بھی ان کی سرزنش کرنے کی بجائے یہ ایسوسی ایشنیں انہیں تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ ان کے غلط کاموں پر بھی ہڑتال کی کال دیتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے عہدیدار بننے کے لئے انہی وکیلوں کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔بار ایسوسی ایشنوں کے انتخابات کروڑوں روپے کی سرگرمی بن گئے ہیں، جن میں اب کوئی عام مگر سینئر وکیل حصہ ہی نہیں لے سکتا۔ بار ایسوسی ایشن کی باڈی کو چیف جسٹس کی باتوں پر توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے معاشرے میں اس اہم پیشے کے احترام میں کمی آنے کا جو ذکر کیا ہے، وہ سینئر وکلاء کے لئے باعث تشویش بات ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے صحیح معنوں میں ایک بزرگ کی حیثیت سے ججوں اور وکلاء کو انصاف اور وکالت کے گُر سمجھائے۔
وہ سیاسی باتیں بھی کر سکتے تھے، دیگر قومی اداروں کے مقابلے میں عدلیہ کی عظمت کے گن بھی گا سکتے تھے، وہ بار اور بنچ کو ملک کی سب سے بڑی طاقت بھی کہہ سکتے تھے، مگر انہوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا، بلکہ اپنی زندگی بھر کا نچوڑ سامنے رکھ کر سمجھایا کہ اپنے طبقے اور خود اپنی عزت کرانے اور لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے کے لئے دیانت داری سے اپنا فرض ادا کرنا پڑتا ہے۔ آسان لفظوں میں اپنی روزی حلال کرنا پڑتی ہے۔