نہری نظام، پنجابی عوام اور جمہوریت
میرے اس مضمون کا عنوان 3 مختلف موضوعات سے متعلق ہے۔ ایسٹ اِنڈیا کمپنی کے آنے سے پہلے مغل بادشاہت زوال پذیر ہو چکی تھی۔ سکھوں کی بادشاہت ملتان سے پشاور اور افغانستان تک پھیلی ہوئی تھی، صوبہ پنجاب تمام ہندوستان میں زرخیز خطہ سمجھا جاتا تھا، لیکن اصل زرخیز پنجاب صرف مرکزی اور مشرقی پنجاب پر مشتمل تھا۔ مغربی پنجاب بے آب اور بنجر علاقہ تھا۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ تھی۔ غربت، بے کسی اور جہالت نے یہاں کے مسلمانوں کی خودداری ختم کر دی تھی،یہاں کے مسلمان عوام سکھوں کی زمینوں پر مزدوری کر کے گزر بسر کرتے تھے۔ سکھوں کی یہاں بڑی زمین داریاں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے سے ہی تھیں۔ بڑے بڑے مسلمان زمیندار ابھی معرضِ وجود میں نہیں آئے تھے۔ اِن کا ظہور ایسٹ انڈیا کمپنی بہادر کی خدمات اور نہری نظام کے بعد ہوا۔ بڑی بڑی جاگیریں حاصل کرنے والے وہ مسلمان سردار، مخدوم اور چودھری تھے، جنہوں نے جنگ ِ آزادی میں باغیوں کے خلاف انگریز کا ساتھ دیا،ورنہ اِن سرداروں کی خوشحالی بھی بارشوں پر منحصر تھی۔ انگریز نے اِن ٹوڈیوں کو خطابات سے نوازا۔ نواب، خان بہادر، خان صاحب، کرسی نشین اور سفید پوش کے خطابات سے اِن مسلمانوں جاگیرداروں کی درجہ بدرجہ توقیر بڑھائی۔
بقیہ غریب عوام کو اِن نوابوں اور سرداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ غریب مسلمان عوام اِن سرداروں،چودھریوں اور وڈیروں کی بھی اُسی طرح چاکری کرنے لگے، جیسے وہ سکھوں کی کرتے تھے۔1858ء کے بعد ہندوستان پربرطانوی راج قائم ہوا تو انگریزی حکومت نے پنجاب کا زرعی سروے کیا۔ دیکھا تو پتہ چلا کہ پنجاب کا بڑا حصہ، جو مغربی پنجاب کہلاتا تھا، ریگستانی، پہاڑی اور تھلوں کی سر زمین تھی۔ بارشوں میں کوئی فصل ہو جاتی تو کچھ گزارہ ہو جاتا تھا۔ مغربی پنجاب کی قریباً تمام اراضی Crown land قرار دے دی گئی۔ اس بنجر زمین کو کارآمد بنانے کے لئے برطانوی حکومت نے نہری نظام کا عظیم منصوبہ بنایا۔ نہری نظام بنانے کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود نہیں تھا، بلکہ برطانوی اِنڈسٹری کے لئے خام مال کی فراہمی تھا۔
1885ء میں لارڈ ایچی سن نے مغربی پنجاب کے اُجاڑ اور بے آب و گیا، خطے کو نہری نظام کے ذریعے زرخیز بنانے کی بنیاد ڈالی۔ 1885ء سے 1940ء تک ایک کروڑ40لاکھ ایکڑ زمین قابل ِ کاشت بنائی گئی۔ اس زمین پر سر توڑ محنت مالکانِ زمین ہی کر سکتے تھے۔ مغربی پنجاب کے مسلمان کاشتکار غریب تھے،اس لئے انگریز نے واگذار اراضی کے بڑے بڑے قطعات مشرقی اور مرکزی پنجاب کے کاشتکاروں کو فروخت کئے،جو بعد میں آباد کار کہلائے۔اِن خریداروں میں ہندو، سکھ اور مسلمان شامل تھے۔ انگریز نے کافی سے زیادہ زمین اپنے وفاداروں کو گھوڑی پال سکیم کے تحت مفت دی۔ ایسی زمین کے مالک زیادہ تر مسلمان جاگیردار ہوئے۔ مغربی پنجاب اور سندھ کے مزدور کسان صدیوں سے بڑے زمینداروں کی خدمت کرتے ہوئے ایک قسم کی غلامانہ زہنیت کے مالک ہو چکے تھے۔انگریز کے جاری کردہ بلدیاتی نظام میں یہ غریب کاشتکار مزدور صرف ووٹ دینے کے کام آتے تھے۔
اِن کا ووٹ اپنے جاگیردار مالک کے لئے ہوتا تھا۔ مغربی پنجاب اورجنوبی سندھ کا کسان زندہ رہنے کے لئے اپنے سردار یا وڈیرے کے رحم و کرم پر ہوتا تھا۔ خوشامد اور جی حضوری اُس کی سرشت میں شامل ہو چکی تھی۔انگریز نے اپنی ایڈمنسٹریشن کی سہولت کے لئے بلدیاتی نظام متعارف کروایا۔ڈسٹرکٹ بورڈ کے الیکشنوں میں یہی خطاب یافتہ چودھری، سردار اور مخدوم کھڑے ہوتے تھے اور اِن کو ووٹ دینے والے یہی غریب اور جاہل دیہی مسلمان ہوتے تھے، کیونکہ ووٹنگ کا نظام جداگانہ انتخابات،یعنی Separate electorate ہوتے تھے۔ مسلمانوں کے ووٹ صرف مسلمان اُمیدواروں کو دئیے جا سکتے تھے۔ مسلمان Captive voter اپنے ہی وڈیرے، سردار، چودھری یا مخدوم کو ووٹ دیتے تھے۔ یہ غریب ووٹر اُمیدوار کی خوشا مد بھی کرتے،اُسے ووٹ بھی دیتے اور وڈیرے کی لعن طعن بھی سُنتے تھے۔
جب پاکستان وجود میں آیا تو یہی وڈیرے پاکستان کی سیاست اور عادی خوشامدی ووٹروں کے مالک ہو گئے۔ آج کا جو پاکستان ہے، اس کی سیاست میں پنجاب کا زیادہ بڑا حصہ ہے اور اُس کے بعد سندھ کا نمبر آتا ہے۔ نہری نظام نے اِن دونوں صوبوں میں بڑی بڑی زمینداریاں پیدا کیں۔اِن بڑے زمینداروں کے نیچے غریب کاشتکار غلامی کرتے تھے۔ ایسے حالات میں جو جمہوریت پاکستان میں عالم ِ وجود میں آئی،وہ آزاد جمہوریت نہیں ہو سکتی تھی۔ ہماری پہلی آئین ساز اسمبلی کے پہلے69 ارکان اُن لوگوں پر مشتمل تھے، جو 1996ء کی قانون ساز کونسل میں الیکٹ ہوئے تھے۔ یہ ارکان مشرقی بنگال (ایسٹ پاکستان)اور مغربی پاکستان کے بڑے زمینداروں کے خاندانوں سے تھے یا بڑے وکیل تھے۔
اِن ارکان میں کوئی متوسط یا غریب طبقے سے نہیں تھا۔ مغربی پاکستان کی حد تک ووٹر دیہی پس منظر سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کا ووٹ اپنے سردار، اپنے مخدوم اور اپنے وڈیرے کے لئے ہوتا تھا،خواہ وہ سردار اِن غریب ووٹروں کی عزتوں سے کھیلتا تھا۔ دراصل 1900ء سے مغربی پاکستان کی سیاست دیہی ماحول کے گرد گھومتی ہے۔ 1900ء سے پہلے بڑے زمیندار جو ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی، ہندو ساہوکاروں سے اپنی عیاشی کے لئے قرض لیتے تھے اور جب وہ قرض واپس کرنے کے قابل نہ ہوتے تو شہری ساہوکار اپنا قرض واپس لینے کے لئے زمینداروں کی اراضی کی قرقی کروا لیتے تھے اور زمیندار اپنی اراضی سے بے دخل ہو جاتا تھا۔ ساہو کار چونکہ کاشتکاری سے ناواقف تھا،اس لئے Absentee landlordism کی بہتات ہونے لگی۔ انگریز کے لئے یہ صورتِ حال نقصان کا باعث تھی۔ انگریز کی انڈسٹری کا دارومدار فصلوں پر تھا۔ انگریز حکومت نے فوراً ہی ساہو کارہ نظام کو مفلوج کرنے کے لئے Land Aliation Act 1900 بنایا، جس کی وجہ سے قرض خواہ ساہوکار صوبہ پنجاب اور سندھ میں مقروض سرداروں کی اراضی کو Attach نہیں کر سکتا تھا۔ انگریز کے اس اِقدام سے وڈیرے اور سردار انگریز کے اور زیادہ وفادار ہو گئے۔ لوکل باڈیز کے چناؤ میں یہی زمیندار اپنے Captive ووٹروں کے ذریعے مقامی حکومتوں میں آ جاتے تھے۔
پنجاب اور سندھ کی اَن پڑھ آبادی،جو خوشامد، جی حضوری اور ذلّت آمیز تابعداری کی وجہ سے جمہوریت کی صحیح روح کو جان ہی نہیں سکتی تھی،اپنا ووٹ ”بڑوں“کو ہی دیتی تھی اور اَب بھی دیتی ہے۔ نہری نظام نے بڑی بڑی جاگیریں تو پیدا کر دیں، لیکن پنجاب اور سندھ کے اَن پڑھ لوگوں میں جمہوریت کی اہمیت کو اُجاگر نہ کیا۔ جمہوریت کی کامیابی کے لئے تعلیم اور Meritocracy بہت اہم ہیں۔ 72 سال گذر جانے کے باوجود مغربی پاکستان(آج کا پاکستان)میں جہالت، شخصیت پرستی اور خوشامداُسی طرح موجود ہے جو انگریز کے زمانے میں تھی، جس ملک میں 146 رجسٹرڈ سیاسی پارٹیاں ہوں،وہاں جمہوریت آ ہی نہیں سکتی۔ یہ 146 پارٹیاں نہیں ہیں،بلکہ 146گروہ ہیں، جن کا سربراہ اپنے اپنے گروہ کا مالک ہے۔ اِن میں سے 6 یا 7 گروہ ہیں جو الیکشن میں تھوڑی بہت کارگردگی دکھا دیتے ہیں۔
نہری نظام نے جہاں ریگستانوں کو آباد کیا، وہاں Feudalism اپنی بدصورت شکل میں پیدا کیا۔ انسانوں کو غلامی کا رُتبہ ملا۔ نہری نظام سے مستفید جاگیرداروں اور غلامانہ ذہنیت کے پنجابی اور سندھی عوام کے امتزاج سے، پاکستان کی جمہوریت ایک بد شکل نظام کی صورت میں موجود ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کا ووٹر اِتنا جی حضور یا نہیں ہے۔ یہ شرف تو پنجاب اور سندھ کے ووٹر کو حاصل ہے کہ وہ بریانی کی پلیٹ پر بِک جاتا ہے۔ 1988ء کے بعد ہماری نام نہاد جمہوریت میں دیہی عنصر کے علاوہ شہری سیاست کاری نے بھی جگہ بنا لی۔ میاں نواز شریف کے سیاست میں آنے سے مرکزی پنجاب کی شہری آبادی کے ووٹ کی اہمیت بڑھی۔ اُدھر کراچی، حیدر آباد، سکھر اور میر پور خاص میں ایم۔کیو۔ ایم کے آنے سے سندھی شہریوں کا سیاست میں کردار بڑھا۔ اُمید ہو چلی تھی کہ جاگیرداری نظام کا ہماری سیاست پر اثر و رسوخ کم ہو جائے گا، لیکن افسوس کہ شہری سیاست میں بھی Personality cult درآیا۔ 1988ء کے بعد جو سیاسی پارٹیاں وجود میں آئیں، اُن کے سربراہ بھی عقل ِ کل اور حاکم ِ کل بن گئے۔ شہری غریب عوام کی نفسیات بھی ہمارے دیہی ووٹر جیسی ہی نکلی۔ آج جو جو لیڈر اپنی سیاسی پارٹی کا سربراہ ہے، وہی جمہوریت کا علم بردار ہے۔
اُس کے فوت ہوجانے کے بعد قیادت اُس کی اولاد کو مل جاتی ہے۔ جب سیاسی پارٹیوں میں ہی جمہوریت نہیں ہو گی تو ملک میں جمہوریت کہاں سے آئے گی، دراصل قصور لیڈروں کا نہیں ہے۔ ہمارے عوام، جو سیاسی شعور اور قومی مفاد کے اِدراک سے عاری ہیں، وہ اصل قصوروار ہیں۔ شخصیت پرستی اور شخصی وفاداری اُن کو اصل ایشوز پر غور کرنے ہی نہیں دیتی۔ یہ ذہنیت ہمارے پڑھے لکھے عوام کی بھی ہے۔ سینکڑوں سال تک غلامی کر زیر اثر رہنے کے بعد ہماری شخصیت آزاد سو چ کی مالک ہی نہیں رہی۔ برصغیر میں بنگلہ دیش ایسا ملک نکل آیا ہے،جو میرٹ اور قانون کو اہمیت دے رہا ہے، جس کا نتیجہ اُس ملک کی مضبوط معیشت کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔ شائد اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں پنجاب کے نہری نظام سے پیدا شدہ حالات نہیں پہنچ سکے تھے۔