بیروز گار ی میں کمی کیلئے اقتصادی سرگرمیوں میں تیزی لائی جا ئے: حاجی محمد حنیف
لاہور(کامرس ڈیسک)صدر شاہ عالم مارکیٹس بورڈ حاجی محمد حنیف نے کہا ہے کہ موجودہ اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کے نتیجے میں اقتصادی سرگرمیوں میں سب سے تشویشناک صنعتی انحطاط ہے کیونکہ یہی شعبہ برآمدات، محاصل اور روزگار کی فراہمی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ صنعتی شعبہ کی سست روی کی وجہ سے نہ صرف توسیعی منصوبے رکے ہوئے ہیں بلکہ نئی صنعتوں کے قیام کے لئے ماحول سازگار نہیں رہا جو افسوسناک ہے۔ ان خیالات کا اظہار صدر شاہ عالم مارکیٹس بورڈ حاجی محمد حنیف نے ریڈی میڈی گارمنٹس ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطا ب کرتے ہوئے کیا۔اجلاس میں جنرل سکیرٹری چوہدری مقصود، چیئرمین شہزاد بابر ملک، داؤد بٹ، حاجی شاہد، حاجی اویس، حاجی صدیق، باؤ سلیم، حاجی عبدالمجید بٹ، اعجاز شبیر، حاجی امجد شیخ، شیخ وقاص، حافظ ذوالفقار، سیٹھ مردان شفیق اور دیگر موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ شاہ عالم مارکیٹس بورڈ کے پلیٹ فارم سے ریڈی میڈی گارمنٹس کی تاجر برادری کے تمام مسائل اولین بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ انہو ں نے ملکی معاشی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صنعتی شعبہ کو گزشتہ کئی دہائیوں سے وہ اہمیت نہیں ملی جس کا یہ اہل تھا اس لئے یہ پائیدار بنیادوں پر استوار نہیں ہو سکا ہے اور وہ صنعتیں جو ملکی ترقی اور معیشت کے استحکام میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں اپنا وجود قائم رکھنے کی جنگ میں مصروف ہیں۔ٹیکس معاملات کی وجہ سے لوہے کے کارخانے ایک ایک کر کے بند ہو رہے ہیں جبکہ ایران اور افغانستان سے ا سمگلنگ بھی مقامی صنعت کے لئے بڑا خطرہ بن گئی ہے، سیمنٹ کے کارخانے پیداواری صلاحیت کو نصف کرنے کے بعد اب30 فیصد تک لا چکے ہیں اور اقتصادی زوال اسی طرح جاری رہا تو پیداوار مزید کم کرنے کے بعد یہ کارخانے بھی بند ہو جائیں گے، آٹو انڈسٹری بیٹھ چکی ہے، جو صنعتیں کبھی گیس اور بجلی کے حصول کے لئے برسرپیکار رہتی تھیں اب انکی پیداوار اتنی کم ہو چکی ہے کہ ملک میں توانائی کی طلب اور رسد کا توازن بگڑ گیا ہے جسے بہتر کرنے کے لئے بجلی گھروں کو بھی مجبوراً پیداوار کم کرنا پڑ گئی ہے جبکہ پاور پلانٹس کو بند کر دیا گیا ہے۔ اب ملک میں بجلی کی کمی نہیں رہی بلکہ اس کی طلب رسد کے مقابلہ میں 9000 میگاواٹ کم ہو گئی ہے۔
حاجی محمد حنیف نے کہا کہ کاروباری حالات اس نحج پر جا پہنچے ہیں کہ اب صنعتکار قرضے بھی نہیں لے رہے کیونکہ موجودہ شرح سود میں کاروبار ناممکن ہو گیا ہے جبکہ بینک ڈیفالٹ 150ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں اور کاروباری دیوالیہ پن کے خطرات بہت بڑھ گئے ہیں جس سے صنعتکار اوربینکار بھی پریشان ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اکنامک مینیجرز اپنے اقدامات کی جزوی کامیابیوں پر مسرور ہونے کے ساتھ ساتھ اقتصادی سرگرمیوں میں تیزی لانے کی کوشش کریں اس سلسلے میں مقامی اقتصادی ماہرین اور نجی شعبہ سے بھرپور مشاورت کی جائے تاکہ روزگارکی صورتحال بہتر ہو سکے۔ انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے پانچ سال میں ایک کروڑ افراد کو روزگار دینے کا وعدہ کیا تھا جواقتصاد ی سرگرمیوں کے فروغ سے کسی حد تک ممکن ہو سکتا ہے۔