منشیات کیس، رانا ثنا ء اللہ کی پیشی پر پولیس کا ناروا سلوک، وکلاء کا عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ
لاہور(نامہ نگار)انسداد منشیات کی خصوصی عدالت میں سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کی پیشی کے موقع پر پولیس کی بدسلوکی اور بدانتظامی پر ان کے وکلاء نے عدالت کا بائیکاٹ کردیا،جس کے بعد عدالت نے کیس کی مزیدسماعت 14 دسمبر تک ملتوی کر دی،پولیس نے صحافیوں کو بھی عدالت میں جانے سے روک دیا۔رانا ثناء اللہ کے وکلاء کا کہناہے کہ وہ اس ماحول میں کیس نہیں لڑسکتے،ماحول ٹھیک ہوگا تو کیس لڑیں گے،آئین اور قانون اوپن ٹرائل کی اجازت دیتا ہے،گزشتہ روز منشیات کیس میں رانا ثنا اللہ خان کو جسمانی ریمانڈ ختم ہونے پر انسداد منشیات کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا تو پولیس نے وکلا کو کمرہ عدالت میں جانے سے زبردستی روک دیا، اس پر پہلے پولیس اہلکاروں اور وکلاء میں دھکم پیل ہوئی، پولیس نے وکلا ء کے ساتھ نارواسلوک کیااورعدالت کے احاطہ میں میں میگا فون کا استعمال کرکے شور برپا کئے رکھا۔رانا ثنا اللہ کے وکلا ء نے پولیس کے نامناسب رویہ اور میڈیا کو کوریج سے روکنے پرانسداد منشیات کی عدالت کے جج کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔انسداد منشیات کی عدالت نے و کلا ء کے عدالتی کارروائی میں شریک نہ ہونے پر رانا ثناء اللہ کے خلاف منشیات مقدمے کی مزیدکارروائی 14 دسمبر تک ملتوی کر دی۔جس کے بعدراناثناء اللہ کے وکیل اعظم نذیرتارڑ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم بطور احتجاج عدالتی کارروائی میں حصہ لئے بغیر جا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ پولیس کی ریاست نہیں ہے یہ اوپن کورٹس ہیں، آئین اور قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اس کیس کا اوپن ٹرائل ہو گا، رانا ثناء اللہ کے خلاف درج مقدمہ پر پہلے ہی بڑی انگلیاں اٹھ رہی ہیں، آج بھی ریاست نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، اب اگر عدالت میں بھی یہی کچھ ہونا ہے اور پولیس سے اس کیس کے ٹرائل کو ریگولیٹ کروانا ہے تو ہم نے واضح کر دیا ہے کہ ہم اس کیس کا حصہ نہیں بنیں گے، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس میں اوپن کورٹس کام کر رہی اور کسی کے داخلے پر پابندی نہیں ہے، سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر 1 میں پاکستان کے حساس ترین مقدمات چلے ہیں وہاں پر بھی کوئی پابندی نہیں، سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر 1 میں وکلاء اور صحافیوں کو بھی نہیں روکا گیا، پاکستانی شہریوں کا یہ حق ہے وہ یہ ٹرائل چلتا ہوا دیکھیں کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے،رانا ثناء اللہ کے دوسرے وکیل فرہاد علی شاہ نے بھی عدالت میں احتجاج ریکارڈ کروایا،انہوں نے کہا کہ یہ پولیس کا طوفان بدتمیزی ہے، سابق صوبائی وزیر طاہر خلیل سندھو ایڈووکیٹ نے کہا کہ ان سمیت وکلاء کو سکیورٹی اہلکاروں نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے، سینئر قانون دان سید زاہد بخاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کو کیا خوف ہے؟ ریاست کیا چھپانا چاہتی ہے؟ یہ اوپن کورٹ ہے، وکلاء زیادہ سے زیادہ 30 یا 35 ہوں گے،انسداد منشیات عدالت کے باہر 2500 پولیس اہلکار و افسر تعینات کئے گئے ہیں، پولیس والوں کو کیا خوف ہے؟ ہم ڈکیت ہیں؟ ہم بم لے کر آ رہے ہیں؟ یہاں وکلاء کی ٹائیاں پکڑی گئیں، وکلاء کو مارا گیا ہے، وکلاء کی توہین کی گئی ہے، یہ اوپن کورٹ ہے اور پولیس کو کیا حق ہے وہ کسی کو کمرہ عدالت میں داخل ہونے سے روکے؟ رانا ثناء اللہ کے خلاف مقدمہ چونکہ جھوٹا اور فرضی کہانی پر مبنی ہے، یہ لوگ نہیں چاہتے کہ عوام کو اس مقدمہ کی حقیقت کاپتہ چلے، جب ماحول ٹھیک ہو گا اوراوپن کورٹ ہو گی تو ہم تب کیس لڑیں گے،انہوں نے کہا کہ ہمارے جونیئرز اور وکلاء کو مارا جائے تو ہم ذہنی طور پر کیس لڑنے کو کیسے تیار ہو سکتے ہیں؟ جب ہم یہاں آرہے ہوں اور یہ ہزاروں اہلکار ہمیں گھیر رہے ہوں تو ہم ذہنی طور پر کیسے کیس کیلئے تیار ہو سکتے ہیں؟ ہم عدالتی بائیکاٹ کرتے ہیں، رانا ثناء اللہ کی پیشی کے موقع پر انسداد منشیات کی خصوصی عدالت کے کمرہ میں صحافیوں کو ایک بار پھر داخلے سے روک دیا گیا،اے این ایف کے نائب کورٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ اس عدالت کے جج شاکر حسن صاحب نے میڈیا کے نمائندوں کو کمرہ عدالت میں داخلے سے روکا ہوا ہے، جج صاحب کی اجازت کے بغیر میڈیا کے نمائندے کمرہ عدالت میں نہیں جاسکتے۔
رانا ثنا ء اللہ کیس