وزیراعظم عمران خان کی ڈھال
ایک ایسے ملک میں جہاں وزرائے اعظم کو یہ شکایت رہی کہ اسٹیبلشمنٹ اور فوج انہیں کام نہیں کرنے دیتیں، وہاں اگر وزیراعظم یہ کہے کہ اس پر فوج کا کوئی دباؤ نہیں، نیز تمام فیصلے وہ خود کرتا ہے تو مان لینا چاہیے کہ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ ایک دن پہلے وزیراعظم عمران خان نے آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا، آرمی چیف بھی ان کے ساتھ تھے، یوں تین بڑوں کی بیٹھک ہوئی اور ایک بار پھر سب کو یہ پیغام مل گیا کہ ملک میں ماورائے آئین کچھ نہیں ہونے والا۔ یہ ملاقات اس موقع پر ہوئی جب ملتان میں پی ڈی ایم جلسہ کرنے کے لئے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھی، جیسے یہ جلسہ ہی حکومت کی قسمت کا فیصلہ کرنے جا رہا تھا، حالانکہ وہ قوتیں جن سے اپوزیشن حکومت ختم کرنے کی امید لگائے بیٹھی ہے، وہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ موجود تھیں۔ عمران خان نے یہ راز پا لیا ہے کہ پاکستان میں آخر وزرائے اعظم کا مسئلہ کیا رہا ہے، کیوں انہیں یہ خبط ہوتا رہا ہے کہ فوج انہیں کام نہیں کرنے دے رہی یا دوسرے لفظوں میں فوجی قیادت ان کے تابع فرمان کیوں نہیں ہو رہی؟ عمران خان بھی اگر بقائمی ہوش و حواس فیصلے نہ کرتے تو اپوزیشن نے انہیں پہلے دن سے ہی سلیکٹڈ کہہ کر بغاوت پر اکسانا شروع کر دیا تھا۔ وہ اس طعنے سے تنگ آکر ویسی ہی حرکتیں شروع کر دیتے جو نوازشریف اور بے نظیر بھٹو نے کیں اور جن کا مقصد فوج پر بلاشرکت غیرے دسترس حاصل کرنا تھا تو آج وہ بھی مشکلات میں گھرے ہوتے۔ انہوں نے اس رائیگاں سفر کی بجائے وہ راستہ چنا جو مخاصمت کی بجائے مفاہمت کی طرف جاتا تھا۔ آج یہ عالم ہے کہ فوجی قیادت انہیں ہر نوع کی بریفنگ کے لئے بلاتی ہے، انہیں خطے کی صورت حال اور عالمی تبدیلیوں کی بابت اعتماد میں لیتی ہے، کچھ فیصلوں کا مشورہ بھی دیتی ہوگی،جنہیں وسیع تر قومی مفاد میں وزیراعظم قبول کرتے ہوں گے۔ اب اسے اپوزیشن جو بھی نام دے، مگر وزیراعظم کے لئے اس صورتِ حال میں شانتی ہی شانتی ہے، اطمینان ہی اطمینان ہے۔
چونکہ ہمیں ماضی کے وزرائے اعظم نے یہی بتایا ہے کہ فوج منتخب قیادت پر دباؤ ڈالتی ہے، اسے آزادانہ کام نہیں کرنے دیتی۔ آصف علی زرداری نے جب وہ صدرِ مملکت تھے، شکوہ کیا تھا کہ فوجی قیادت منتخب حکومت کو چلنے نہیں دے رہی۔ ایک سخت بیان کی پاداش میں انہیں ملک سے باہر بھی جانا پڑا تھا، اس لئے وزیراعظم عمران خان جب یہ کہتے ہیں کہ فوج ان کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرتی اور وہ اپنے فیصلے خود کرتے ہیں، تو کسی کو یقین نہیں آتا، حالانکہ اس میں اچنبھے والی کوئی بات نہیں …… اگر تو آپ فوج کو اپنا متحارب ادارہ سمجھ لیں اور یہ تصور کر لیں کہ اس کی طرف سے آنے والی ہر بات، ہر مشورہ آپ کے اختیارات میں مداخلت ہے تو بات دوسری ہے، وگرنہ کسی بھی حکومت کے لئے فوج جیسا منظم ادارہ کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔ قومی سلامتی اور دیگر امور میں فوج کے کلیدی کردار سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ ملک کے وزیراعظم کے پاس اتنے زیادہ اختیارات ہوتے ہیں کہ وہ ان سے انصاف کر ہی نہیں سکتا۔ پورا ملک اس کے حکم پر چلتا ہے۔ اپنے ان اختیارات کو عوامی مفاد کے لئے استعمال کرنے کی بجائے، اگر وزیراعظم اس خبط میں مبتلا ہو جائے کہ بلاشرکتِ غیرے فیصلے کرنے ہیں تو اس کے اس خبط کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو پاکستان میں نکلتا آیا ہے اور جس کی وجہ سے آج نوازشریف ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ لگا رہے ہیں۔
اب اس بات کا فیصلہ کوئی دوسرا کیسے کر سکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان ایک بااختیار یا بے اختیار وزیراعظم ہیں؟ اس کے لئے تو انہی کی بات پر یقین کرنا پڑے گا۔اب یہ تو ایک مضحکہ خیز بات ہے کہ وزیراعظم یہ کہیں کہ انہیں مکمل اختیارات حاصل ہیں اور وہ تمام فیصلے کابینہ کی مشاورت سے خود کرتے ہیں۔ داخلہ و خارجہ پالیسی بھی حکومت بناتی ہے، جسے فوج کی مکمل حمایت حاصل ہوتی ہے، لیکن اپوزیشن اسے تسلیم نہ کرے اور سلیکٹڈ سلیکٹڈ کی گردان کرتی رہے۔
فوج نے پاکستان میں امن قائم کرنے کے لئے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ کیا فوج آج بھی پاکستان کی سلامتی میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا نہیں کر رہی؟…… تو پھر یہ بات طعنہ کیسے بن سکتی ہے کہ وزیراعظم کی فوج سے حد درجہ ہم آہنگی کیوں ہے؟ سیدھی سی بات ہے کہ عمران خان خبطِ اختیارات میں مبتلا نہیں ہیں۔ وہ اپنے آئینی و انتظامی اختیارات تک محدود رہنا چاہتے ہیں، ان اختیارات کو استعمال کرنے کے لئے اگر فوجی قیادت سے مشورہ کرتے ہیں تو بطور وزیراعظم یہ ان کا حق ہے، کیونکہ فوج حکومت کا ایک کلیدی ادارہ ہے۔ ماضی میں جتنی حکومتیں وقت سے پہلے رخصت ہوئیں، انہوں نے طاقت کا وہ توازن برقرار نہیں رکھا جو ریاست میں ضروری ہوتا ہے۔جمہوریت کا مطلب یہ تو نہیں ہوتا کہ ریاستی اداروں کو مفلوج کرکے اپنا تابع فرمان بنایا جائے…… اس کے برعکس اگر انہیں آزادانہ اپنا کام کرنے دیا جائے تو ریاست کا پہیہ چلتا رہتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اس راز کو پالیا ہے اس لئے انہیں کسی خطرے کی کوئی پروا نہیں۔