اپوزیشن اپنا ہی سیاپا کر رہی ہے
کسی بھی زمینی جنگ کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی (1) میدانی جنگ،(2) کوہستانی جنگ،(3) صحرائی جنگ،(4) جنگلاتی جنگ، اور (5) برفانی جنگ…… پاکستان میں یہ پانچوں زمینی علاقے پائے جاتے ہیں۔
1965ء کی جنگ ہم نے زیادہ تر میدانی علاقوں میں لڑی تھی۔ کشمیر محاذ اور تھرپارکر محاذ پر جو معرکے لڑے گئے ان کو زیادہ سے زیادہ نیم کوہستانی اور نیم صحرائی معرکے کہا جا سکتا ہے۔ یہ جنگی تقیسم اس لئے کی جاتی ہے کہ ان پانچوں مختلف زمینی علاقوں (Terrains) میں نہ صرف یہ کہ لڑنے کے ہتھیار کچھ مختلف ہو جاتے ہیں بلکہ لڑنے کی تدابیر اور حربے (Tactics)بھی مختلف ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر بھاری ٹینک جو میدانی اور صحرائی علاقوں میں بڑی آسانی سے استعمال ہوتے ہیں، وہ کوہستانی، برفانی اور جنگلاتی سرزمین پر استعمال نہیں ہو سکتے اور اگر استعمال ناگزیر ہو جائے تو کئی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔
انڈیا کا ارجن ٹینک ایک مدت تک معرضِ تشکیل میں رہا۔ لیکن جب اس کو راجستھان کے صحرائی علاقوں (جے پور، بیکانیر وغیرہ) میں استعمال کیا گیا تو اس کے انجن نے گرم ہو کر کام کرنا چھوڑ دیا۔ چنانچہ انڈیا کی ”ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (DRDO) کو کہا گیا کہ اس کا مداوا کیا جائے۔یہ آرگنائزیشن (ادارہ) انڈیا کی ایک بڑی عسکری تنظیم ہے جو ملٹری ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کا کام کرتی ہے۔ اس کا ہیڈکوارٹر 1958ء میں دہلی میں بنایا گیا تھا۔ انڈیا کو شروع ہی سے یہ زعم تھا کہ وہ بھاری جنگی ہتھیاروں کو خود اپنے ہاں بنا سکتا ہے۔ لیکن آج 74برس گزرنے کے بعد بھی اس کی Made in India کی آرزو پوری نہیں ہو سکی۔اس ادارے میں 30ہزار افراد کام کرتے ہیں جن میں 5ہزار دفاعی سائنس دان بھی ہیں۔ اس کا بجٹ 5000کروڑ انڈین روپے (2.2ارب امریکی ڈالر) ہے۔
ارجن ٹینک انڈیا کا مین بیٹل ٹینک ہے۔ یہ بھی اسی ادارے نے بنایا تھا۔ 1972ء سے لے کر 1997ء تک کے 25برسوں میں اس کے بار بار تجربے کئے گئے۔ اس کی رینج 310میل اور انجن 1500ہارس پاور کا تھا۔ بار بار تجربوں میں یہ بار بار فیل ہوتا رہا۔ ابھی پچھلے دنوں (اکتوبر 2020ء) اس کا آخری تجربہ کیا گیا ہے اور انڈین آرمی نے ابھی اس کی فائنل رپورٹ دینی ہے کہ یہ ٹینک صحرائی علاقوں میں موسمِ گرما میں قابلِ استعمال ہے یا نہیں۔ اس کے مقابلے میں ہمارا مین بیٹل ٹینک (الخالد) ہے جو میدانی اور صحرائی علاقوں کے آپریشنوں میں نہائت کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے۔ اس کے جو تجربے اب تک کئے گئے ہیں ان کے نتائج 95%تک مثبت آئے ہیں۔اس کے علاوہ الضرار ٹینک بھی ہے اور ابھی حال ہی میں ہم نے چین سے VT-4کا سودا کیا ہے۔
جب ارجن ٹینک بار بار ناکام ہوا تو انڈیا کو تنگ آکر روس کی طرف رجوع کرنا پڑا۔ اس کے ٹی۔72ٹینکوں کا شہرہ تو بہت پرانا ہے۔ اب اس کو اور بھی زیادہ بہتر بنا کر ٹی۔90کا نام دیا گیا۔ قارئین کو معلوم ہوگا کہ انڈیا نے آج کل جو ٹینک چین کی لائن آف ایکچوئل کنٹرول (LAC) پر صف بند کئے ہیں، وہ یہی ٹی۔90ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ رشین ٹینک صحرائی اور کوہستانی علاقوں میں یکساں آسانی اور اعلیٰ کارکردگی کے ساتھ استعمال ہو سکتا ہے۔
کچھ یہی حال انڈیا کے لائٹ کمبٹ ائر کرافٹ ’تیجا‘ کا بھی ہے۔ اسے بھی برسوں تک ’ہال‘ (Hindustan Aeronautics Limited) میں ڈویلپ کیا جاتا رہا۔ اب اسے انڈین ائر فورس میں باقاعدہ انڈکٹ کیا جا چکا ہے۔ لیکن اس کی حربی کارکردگی ابھی تک ایک سوالیہ نشان ہے۔ HAL کا ادارہ بنگلور (کرناٹک ریاست) میں قائم ہے اور اس میں طیاروں سے لے کر ہیلی کاپٹر اور ڈرون تک بنائے جا رہے ہیں۔ انڈیا کا ایک معروف ہیلی کاپٹر ’دھرو‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور اس کے کئی سکواڈرن انڈین ائر فورس میں زیر استعمال ہیں۔ اس کالم میں انڈین دفاعی اداروں کی تاریخ اور ان کی پیداواری صلاحیت پر حرف گیری مقصود نہیں۔ ہر ملک کو اپنے ہاں ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کی مینوفیکچرنگ کا حق حاصل ہے۔ انڈیا بھی یہی کر رہا ہے اور پاکستان بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔ لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جنگوں میں استعمال ہونے والے جتنے بھی بھاری ہتھیار ہیں ان کی تولید (پروڈکشن) اور منصوبہ سازی (پلاننگ) گزشتہ صدی کی دو عالمی جنگوں میں کی گئی۔ یہ دونوں جنگیں، جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، طویل دورانیوں کی تھیں۔ ان میں طرفین کے سینکڑوں ہزاروں بھاری ہتھیار روزانہ کی بنیاد پر تلف ہوئے اور اس نقصان کو پورا کرنے کے لئے جنگی بنیادوں پر ان کی تولید کی گئی۔ بار بار کے استعمال نے نہ صرف یہ کہ ان سلاحِ جنگ کی کارکردگی کو بہتر بنایا بلکہ ان میں زیادہ نکھار اور زیادہ تکنیکی اور پیشہ ورانہ تازگی پیدا کی۔ اسلحہ ساز کارخانوں اور فیکٹریوں میں دن رات ان کی پروڈکشن جاری رہی اور ان کی ساخت میں بتدریج بہتری لائی جاتی رہی، ان کے تکنیکی نقائص کا ازالہ کیا جاتا رہا اور جو سائنس دان، کاریگر اور انجینئرز ان کو بنانے پر مامور تھے ان کی اجتماعی دانش اور ہنرمندی سے بھرپور استفادہ کیا جاتا رہا۔ پھر جب یہ دوسری عالمی جنگ (1945ء میں)ختم ہوئی تو اس کے بعد بھی علاقائی جنگوں کا سلسلہ بند نہ ہوا بلکہ آگے بڑھتا رہا۔ اسلحہ سازی ایک بہت نفع بخش کاروبار بن کر سامنے آیا۔ اگر اس کاروبار کی وسعت کا اندازہ لگانا ہو تو اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ بوئنگ طیارہ ساز کمپنی کا بجٹ بہت سے ترقی پذیر ملکوں کے ٹوٹل بجٹ سے بھی زیادہ ہے!
بات یہ ہو رہی تھی کہ زمینی جنگوں کی بلحاظ Terrainجو اقسام ہیں ان میں مختلف ہلکے اور بھاری اسلحہ جات کا کیف و کم کیا ہے۔ پاکستان میں سیاچن گلیشیئر، چترال، ہنزہ اور دیگر کئی شمالی علاقہ جات ہیں جہاں برف باری ہوتی ہے۔ ان میں ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کے استعمالات کے طور طریقے بمقابلہ میدانی اور صحرائی علاقوں کے مختلف ہوتے ہیں۔ یہ تو زمینی جنگ کا حال احوال بیان ہوا لیکن فضائی جنگ میں بھی یہی مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ کوہستانی علاقوں میں فضائی آپریشنوں کا اظہار و استعمال میدانی علاقوں کی نسبت مختلف ہوتا ہے۔
……ذرا اس بات پر بھی غور فرما لیجئے کہ اللہ کریم نے پاکستان کو اگرچہ رقبے کے لحاظ سے اتنا وسیع علاقہ عطا نہیں فرمایا لیکن انہی محدود علاقوں میں جنگل، صحرا، پہاڑ، برف پوش چوٹیاں، ہموار زرعی میدان، بحری ساحل، گہری بندرگاہیں اور ان کی فضائیں عطا کر رکھی ہیں اور ہم پاکستانیوں کو اس قابل بھی بنایا ہے کہ ان جنگی ہتھیاروں کا استعمال بھی کر سکیں جو ان علاقوں کے لئے پروڈیوس کئے جاتے ہیں۔ میں یہاں پاکستان کے جوہری اور میزائلی ہتھیاروں کا ذکر نہیں کروں گا کہ یہ ایک نہائت وسیع اور بہت ٹیکنیکل اعداد و شماروغیرہ والا موضوع ہے۔
پاکستان کو اللہ کریم نے ایک ایسی فوج عطا کر رکھی ہے جو اندرونی اور بیرونی چینلجوں سے نمٹنے کا وافر سلیقہ رکھتی ہے۔جہاں تک پاکستان کی داخلی سیاست کا تعلق ہے تو میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا کہ یہ کام کرنے والے صبح و شام و شب اپنی دھن میں مست ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے فن کا مظاہرہ کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ان کو بالکل معلوم ہی نہیں کہ ان کے ملک کے باہر اس خطے (ریجن) میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔وہ صرف داخلی سیاسیات کی تنگ نائے میں تیرتے پھرتے ہیں۔ ان کے چارچوفیرے جو بیکراں سمندر پھیلے ہوئے ہیں ان میں تیرنے اور تیرانے والوں کی کچھ بھی خبر ان حضرات کو نہیں۔
اگلے روز (29نومبر بروز اتوار) وزیراعظم کو آئی ایس آئی ڈائریکٹوریٹ میں جو بریفنگ دی گئی، اس میں وزیرخارجہ، وزیر منصوبہ بندی، مسلح افواج کے سربراہ، چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور چیف آف جنرل سٹاف شامل تھے۔ ذرا اندازہ کیجئے کہ ایک طرف ملتان میں فضل الرحمن ڈنڈوں کا جواب ڈنڈوں سے دینے کی تلقین فرما رہے تھے تو دوسری طرف اسلام آباد کے ISIہیڈکوارٹر میں یہ بریفنگ دی جا رہی تھی کہ اس خطے میں کیا ہونے والا ہے۔
اسی لئے تو میں پاکستانی ملٹری کو ایک ایسی تنظیم گردانتا ہوں جو انگوٹھی میں نگینے کی مانند ”مہربند“ ہے۔ اس کے چاروں طرف چینلجوں کے شکنجے ہیں لیکن وہ اس حصار میں بھی اپنے نگینے کو بچا کر رکھ رہی ہے۔
اور یہ فوج کیا ہے؟ یہ پاکستانی قوم کے اجتماعی شعور کا ایک منضبط (Disciplined) مظاہرہ ہی تو ہے۔ یہ کسی آسمان سے نہیں اتری۔ اس کے آل رینکس ہم آپ میں سے ہی لئے گئے ہیں۔ وہ جو کچھ بھی کر رہی ہے وہ پاکستانی قوم کی اوسط آرزوؤں، عقل و دانش اور کردار و عمل کا اظہار ہے۔ اپوزیشن کو سوچنا چاہیے کہ اس فوج کے آفیسرز اور جوان انہی دیہاتوں، قصبوں اور شہروں سے آئے ہیں جہاں سے خود اپوزیشن منتخب ہو کر آئی ہے۔اس تناظرمیں دیکھا جائے تو جو سیاسی لیڈر فوج کو ہدفِ ملامت بناتا ہے وہ گویا اپنے آپ کو کوس رہا ہوتا ہے، اپنا سر پیٹ رہا ہوتا ہے، اپنا ہی سیاپا کر رہا ہوتا ہے!