دس ارب درخت لگتا ناقابل یقین بات ،اتنے درخت لگ گئے تو ملک کی قسمت بدل جائے گی، چیف جسٹس پاکستان،بلین ٹری سونامی منصوبے کی تفصیلات طلب
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)دریاﺅں اور نہروں کے کنارے پر شجرکاری سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ نے 10بلین ٹری سونامی منصوبے کی تمام تفصیلات طلب کرلیں ،عدالت نے کہاکہ آگاہ کیا جائے منصوبے پر ابتک کتنے فنڈز خرچ ہوئے،فنڈز خرچ ہونے کا جواز بھی بمعہ ریکارڈ پیش کیا جائے،کتنے درخت کہاں لگے تمام تفصیلات تصاویر سمیت فراہم کرنے کی جائیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ دس ارب درخت لگتا ناقابل یقین بات ہے اتنے درخت لگ گئے تو ملک کی قسمت بدل جائے گی۔
نجی ٹی وی 92 نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں دریاﺅں اور نہروں کے کنارے پر شجرکاری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی،عدالت نے 10 بلین ٹری سونامی کے معاملے پر نوٹس لے لیا،سپریم کورٹ نے سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی کوفوری طلب کرلیا،چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی دس بلین منصوبے کا ساراریکارڈ لے کرآئیں،عدالت نے سندھ حکومت کو جھیلوں اورشاہراہوں کے اطراف میں بھی درخت لگانے کاحکم دیدیا،عدالت نے سندھ حکومت کی طرف سے رپورٹ نہ آنے پر عدالت کااظہار برہمی کیا۔
چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ سیکرٹری جنگلات کو چہرہ دیکھنے کیلئے نہیں بلایا،رپورٹ کدھر ہے،سیکرٹری آبپاشی نے کہاکہ دریاﺅں اور نہروں کے کنارے 3 لاکھ 83 ہزار درخت لگائے ہیں ،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کس جگہ لگائے ہیں درخت،تصویریں دکھائیں ، سندھ حکومت کے معاملات سمجھ سے بالاتر ہیں ، سندھ واحد صوبہ ہے جس کے معاملات کچھ اور ہی طرح چلتے ہیں ،سندھ سے جتنے بھی افسران آئے ہیں کسی کو ٹی اے ڈی اے نہیں ملے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ عدالتی حکم عدولی پر سندھ افسران کو توہین عدالت کانوٹس جاری کرینگے،سندھ کے افسران جیل بھی جائیں گے اورنوکری سے بھی ،توہین عدالت کانوٹس ملا تو ساری جمع پونجی ختم ہو جائے گی ۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اسلام آبادانتظامیہ بڑی مغرور ہے ،اسلام آباد میں پانچ لاکھ درخت کہاں ہیں؟،اسلام آباد انتظامیہ نے کہاکہ تمام تفصیلات عدالت میں جمع کرائیں گے۔
چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ آپ نے سارے درخت بنی گالہ میں لگائے ہوں گے ،اسلام آباد میں درخت کٹ رہے ہیں، کشمیر ہائی وے پر ٹیڑھے میڑھے درخت کھڑے ہیں ،درخت خوبصورتی کی بجائے بدصورتی پیدا کررہے ہیں ،ڈائریکٹر ماحولیات نے کہاکہ دو سال کوئی فنڈ نہیں ملا،سپریم کورٹ میں کے پی سیکرٹری ماحولیات کی بھی سرزنش ہوئی،چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ کوتوسیدھاجیل بھیج دینا چاہئے،کمراٹ میں درخت کٹتے ہوئے خود دیکھ کر آرہاہوں،کمراٹ میں ہزاروں درخت کاٹے جارہے ہیں ، سیکرٹری ماحولیات نے کہاکہ مقامی آبادکو درجہ حرات کم ہونے پر درخت کاٹنے کاکوٹہ دیا جاتا ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کودرخت کاٹنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے ،ناران کاغان کچرابن چکا، جھیل کے اطرف کوئی درخت نہیں ،کے پی کا محکمہ ماحولیات چور اورآپ اس کے سربراہ ہیں،نتھیا گلی میں درخت کٹ رہے اور پشاور میں توموجود ہی نہیں ،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ کو کسی قسم کاہیلی کاپٹرچاہئے کہ آپ جنگلات کادورہ کرسکیں ۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے کہا کہ بلوچستان میں اس سیزن میں درخت نہیں لگتے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ نے درخت لگانے بھی نہیں ہیں،کوئٹہ شہر کے مردار پہاڑوں کو درخت لگا کر جاندار کب بنائیں گے،ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے کہاکہ کوئٹہ شہر کے پہاڑوں پر درخت نہیں لگتے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کیاکوئٹہ شہرکے پہاڑ چٹانیں ہیں ،ماضی میں کبھی کوئٹہ شہر کے پہاڑوں پر درخت ہوا کرتے تھے،سیکرٹری ایری گیشن پنجاب نے کہاکہ پنجاب میں کینال کے 25 ہزارمائل رقبہ پر درخت لگائے ہیں ،کینال اورریور سائیڈپر ششم، ککراوربرگد کے درخت لگائے،کینال کے علاقے میں تین لاکھ درخت لگائے ہیں ، چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ 25 ہزارمائل کینال روڈ کے ایریا میں 3 لاکھ درخت کچھ نہیں بھی ،سیکرٹری ایری گیشن نے کہاکہ ایک لاکھ 41 ہزار ایکڑ جنگل ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اسلام آباد سے کراچی تک جائیں دریا کنارے کوئی جنگل نہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ کاغذوں میں آدھا پاکستان جنگل ہے اصل میں جنگل نظر نہیں آتا ، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ عدالتی حک پر عمل کیوں نہیں کیاگیا؟،حکم کی عدم تعمیل پر سندھ کی طرح آپ کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں گے ،سیکرٹری ایری گیشن اورسیکرٹری جنگلات کوتوہین عدالت کانوٹس جاری کر دیتے ہیں ،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ درخت قوم کی دولت اوراثاثہ ہیں ،مالم جبہ سمیت جہاں بھی چلے جائیں کٹائی ہی کٹائی ہو رہی ہے،وکیل کے پی حکومت نے کہاکہ نہروں دریاﺅں کے اطراف 78 لاکھ درخت لگائے ہیں ،چیف جسٹس نے کہاکہ سیکرٹری صاحب کام نہیں کرینگے تو جیل بھی جائیں گے اور نوکری سے بھی ۔
سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی سپریم کورٹ میں پیش ہو گئے،سپریم کورٹ نے 10بلین ٹری سونامی منصوبے کی تمام تفصیلات طلب کرلیں ،عدالت نے کہاکہ آگاہ کیا جائے منصوبے پر ابتک کتنے فنڈز خرچ ہوئے،فنڈز خرچ ہونے کا جواز بھی بمعہ ریکارڈ پیش کیا جائے،کتنے درخت کہاں لگے تمام تفصیلات تصاویر سمیت فراہم کرنے کی جائیں،عدالت نے وزارت موسمیاتی تبدیلی سے سٹیلائٹ تصاویر بھی طلب کرلیں اورکلرکہار کے اطراف پہاڑوں پر تمام کمرشل سرگرمیاں روکنے کاحکم دیدیا،عدالت نے کہاکہ پنجاب حکومت تمام کمرشل سرگرمیاں ختم کروا کرپہاڑوں پر درخت لگائے ۔
سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی نے کہاکہ ایک سال میں 430 ملین درخت لگائے جا چکے ہیں،چیف جسٹس نے سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی ناہید درانی کی سرزنش کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا آپ نے 430 ملین درخت لگے دیکھے ہیں ؟سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی نے کہاکہ تمام درخت ہوئے دیکھنا ممکن نہیں ،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ دس ارب درخت لگتا ناقابل یقین بات ہے اتنے درخت لگ گئے تو ملک کی قسمت بدل جائے گی، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ رپورٹ کے مطابق لاہور شہر دنیا کا آلودہ ترین شہر بن چکا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ شہروں میں درختوں کی زیادہ ضرورت ہے، اربن شجرکاری کی ضرورت ہے، آلودگی تو شہروں میں ہے ،لاہورکراچی پشاورکوئٹہ کسی جگہ ایک درخت لگا نہیں دیکھا،سپریم کورٹ نے وزارت موسمیاتی تبدیلی سے دس بلین ترمی سونامی کی تفصیلات مانگ لی ۔
چیف جسٹس نے کہاکہ وزارت موسمیاتی تبدیلی نے ابتک 43 کروڑ درخت کہاں لگائے،کس نسل کے درخت لگائے گئے ؟ایک ایک درخت کو چیک کرائیں گے ،عدالتی حکم کو فار گرانٹڈنہ لیاجائے ،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ سیکرٹری صاحبہ!دس بلین درخت لگانا ایک مشکل ٹاسک ہے ،یہ فریضہ آپ پر ایک قرض ہے اس کو اداکریں ،اگلی نسل کو سانس لینے کی جگہ نہیں ملے گی ،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ سندھ میں جو بھی فنڈز جاتے ہیں چوس لئے جاتے ہیں ،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ سندھ میں جتنا بھی فنڈ چلا جائے لگتا کچھ نہیں ،سندھ میں انسانوں کاجینامشکل ہے تو درخت کیسے رہیں گے،سندھ میں ڈاکو پکڑنے کے نام پر لاڑکانہ کے قریب جنگل کاٹا گیا،سندھ پولیس ڈاکو تو کیا ایک تتلی بھی نہیں پکڑ سکی ،پورے پورے جنگل صاف ہو گئے لیکن پکڑا کوئی نہیں گیا،محکمہ جنگلات حکام نے کہاکہ سندھ میں پچاس لاکھ درخت لگائے گئے ہیں ،سندھ حکومت کی جانب سے فنڈز جاری نہیں ہورہے ،چیف جسٹس نے کہاکہ نہروں اوردریاﺅں کے اطراف درخت عدالت نے لگوائے،بلین ٹی سونامی منصوبے کے درخت کہاں گئے؟سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی نے کہا کہ بلین ٹری منصوبے پر عمل صوبائی حکومتیں کررہی ہیں ،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ صوبے آپ کی بات سنتے ہی کہاں ہیں ،بلوچستان میں توبلین ٹری منصوبے کا وجود ہی نہیں ،عدالت نے سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی اور پلاننگ کو طلب کرلیا،عدالت نے کیس کی سماعت ایک ماہ تک ملتوی کردی ۔