سرما کی یادیں
لیں جناب سردیوں کا موسم شروع ہو گیا۔ کوٹ‘ جیکٹیں اور سویٹر نکل آئے ہیں اور راتوں کو کمروں میں لحاف‘ رضائیوں اور کمبلوں نے بھی بہار دکھانا شروع کر دی ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ اکتوبر کے آخر یا نومبر کے آغاز میں ایک دو بارشوں کے ساتھ سردیوں کی شروعات ہوتی تھی‘ لیکن اس بار ابھی تک کوئی بارش نہیں برسی اور جاڑوں کا آغاز ہو گیا۔ بارش کیوں نہیں برسی؟ اس کا جواب میرے پاس تو نہیں ہے‘ موسمیاتی تبدیلیوں کے پاس ہے‘ جنہوں نے آب و ہوا کے معاملات کو اس قدر تبدیل کر دیا ہے کہ جب بارشوں کی ضرورت ہو تب نہیں ہوتیں‘ اور جب ضرورت نہ ہو تب خوب برستی ہیں۔ ضرورت سے زیادہ‘ بے موقع‘ بے محل۔ لگتا ہے موسم بھی ہم سے روٹھتے جا رہے ہیں۔ سموگ بے تحاشا ہے‘ اتنی زیادہ کہ لاہور شہر اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں چند میل کا سفر ہی کر لیں تو اچھا خاصا بندہ بھوت بن جاتا ہے۔ اپنے واٹس ایپ پر آپ نے وہ تصویر تو دیکھی ہی ہو گی جس میں ایک کالے رنگ کا طوطا دو سبز رنگ کے طوطوں کے پاس بیٹھا انہیں بتا رہا ہوتا ہے کہ ہوں میں بھی طوطا ہی لیکن میں لاہور سے آیا ہوں۔ تو آج کل لاہورئیے بس کالے طوطے ہی بنے ہوئے ہیں۔
ایک وقت تھا جب لاہور کیا پاکستان کے ہر شہر کی فضا صاف ستھری ہوتی تھی۔ تب لاہور کی سردیاں بھی بڑی شدید ہوتی تھیں۔ اب تو خیر رواج نہیں رہا‘ لیکن میں نے لاہور میں موسم سرما میں لوگوں کو اوورکوٹ پہنے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ اب گاڑیوں کی بھرمار ہے‘ تب لوگ زیادہ تر پیدل چلتے تھے‘ زیادہ ہوا تو تانگے پر بیٹھ گئے۔ جیب اگر بھاری ہے تو سالم تانگہ کرا لیا‘ ورنہ پہلے سے بیٹھی سواریوں کے درمیان جگہ بنا کر بیٹھ گئے اور منزلِ مقصود پر اتر گئے۔
سردیوں کا موسم اپنے ساتھ رنگ برنگے اور چٹ پٹے کھانے بھی لے کر آتا ہے۔ بھنی ہوئی مونگ پھلی‘ کشمش‘ اخروٹ‘ بادام‘ انجیر نہ کھائی جائے تو سردیوں کا مزا ادھورا رہتا ہے۔ ریوڑی، تل کی پٹی، گجک‘ سرد ہوا کے پہلے جھونکے کے ساتھ ہی منڈی میں خشک میووں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں اور کچھ لوگ تو جیسے ان کی آمد کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں‘ جونہی مال آیا اسی وقت خرید لیا۔ ’ابلا انڈا بیس روپے کا‘ یہ آواز بھی تو ہمیں صرف سردیوں میں ہی سنائی دیتی ہے۔ انڈے ہمارے جسم کو وٹامن ڈی دیتے ہیں اور کیلشیم بھی۔ اور پھر گڑ کو کون بھول سکتا ہے؟ یہ بھی تو سردیوں کی خاص الخاص سوغات ہے۔ تازہ تازہ بنا ہوا گرم گرم گُڑ کھانے کا اپنا ہی مزا ہے۔ اور میووں والا گڑ بھی تو بازار میں آ جاتا ہے۔ ہمارے اور سب کے لاہور میں یوں تو کبابوں اور بار بی کیو کی دکانیں ہر بازار‘ ہر مارکیٹ اور ہر گلی محلے میں سارا سال ہی پُررونق رہتی ہیں‘ لیکن سردیوں کے موسم میں یہ رونق مزید بڑھ جاتی ہے اور آج کل فوڈ پانڈا اور فاسٹ فوڈ کے مختلف آؤٹ لیٹس پہ ٹیک اوے سروس نے کام اور آسان بنا دیا ہے۔ گھر بیٹھے اپنے سمارٹ فون سے آرڈر بک کرائیے اور پندرہ بیس منٹ میں گرما گرم پیزا‘ شوارما‘ فرنچ فرائز کے ساتھ حاضر ہے۔ ویسے تو اپنے ملک میں سخت گرمیوں میں بھی چائے کے دور چلتے رہتے ہیں کہ چائے اب بزور یعنی دھکے سے ہمارا قومی مشروب بنتا جا رہا ہے‘ لیکن چائے خانوں میں جو رونق سردیوں میں نظر آتی ہے سال بھر کسی دوسرے موسم میں نظر نہیں آتی۔
اور پھر نومبر شروع ہوتے ہی شہر کے مختلف حصوں میں دکانوں پہ سبز چائے کے سٹال سج جاتے ہیں اور لوگ شام کے دھندلکے میں دن بھر کی تھکن اتارنے کے لئے سبز چائے کی چسکیاں لیتے نظر آتے ہیں۔ روغنی نان‘ قیمے والے نان اور بیسن یا آلو بھرے نان بھی تو سردیوں میں ہی زیادہ کھائے جاتے ہیں۔ اندازہ لگائیے گرما گرم قیمے والے نان ہوں اور ساتھ میں زیرے اور پودینے والی چٹنی‘ منہ میں پانی بھر آیا ناں! موسم سرما آئے اور لاہورئیے مچھلی نہ کھائیں‘ ایسا ممکن نہیں۔ یہاں تو اکتوبر کے وسط سے ہی فرائیڈ فش کی دکانیں سجنا شروع ہو جاتی ہیں اور ویک اینڈ پہ تو مچھلی لاہوریوں کا مرغوب ترین کھابہ بن جاتا ہے۔ یقین نہ آئے تو آج رات مچھلی کی دکانوں کی سیر کر کے آئیے۔ سرسوں کے ساگ اور مکئی کی روٹی، اور گُڑ میں گوندھ کر بنائی اور پکائی گئی باجرے کی روٹی بھی سردیوں کی سوغاتیں ہیں۔ سرسوں کا ساگ اور مکئی کی روٹی دیہات میں سردیوں کے موسم کا عام کھانا ہے لیکن شہریوں کے لیے یہ کسی سوغات سے کم نہیں۔ نہاری اور کلچے یا حلیم‘ جسے کچھ لوگ دلیم بھی کہتے ہیں کہ یہ دالیں اور گوشت ملا کر بنائی جاتی ہے‘ کے ساتھ نان بھی سردیوں کے کھانے ہیں‘ اگرچہ لاہور میں یہ سارا سال ہی کھائے جاتے ہیں۔ سری پائے کا شوربا اور تندور کی تازہ روٹی کھانے کا بھی اپنا ہی مزا ہے۔
لاہور میں کم لیکن بھارت اور کشمیر کے کچھ علاقوں میں سردیوں کے موسم میں شب دیگ کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہریسہ اگرچہ وادیئ کشمیر کا روایتی پکوان ہے جو صرف اور صرف سردیوں میں بنایا جاتا ہے‘ لیکن اب لاہور اور دیگر شہروں میں بھی تیار ہونے لگا ہے۔ ایک زمانے میں دیہات میں السی اور چاول کی پِنیاں بنائی جاتی تھیں۔ یہ جسم کو توانائی دیتی تھیں اور مزیدار بھی ہوتی تھیں، اب بھی شاید تیار ہوتی ہوں گی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سردیوں کے موسم کی بات ہو اور اس میں حلوہ جات کا ذکر نہ کیا جائے۔ گھر گھر گاجر کے حلوے کا انتظار رہتا ہے۔ کہیں کہیں مختلف دالوں کے حلوے بھی بنتے ہیں۔ حلوائیوں کی دکانوں پر جہاں مچھلی فرائی کرنے کے لئے کڑاھیاں بڑے بڑے چولہوں پر رکھ دی جاتی ہیں‘ وہاں انواع و اقسام کے حلوے بھی تھالوں میں سجا دئیے جاتے ہیں جن کو ابلے ہوئے انڈوں کے ٹکڑوں کے ساتھ گارنش کیا گیا ہوتا ہے۔ سردیوں کے موسم میں گھروں میں بھی باورچی خانے موسمِ سرما کے روایتی پکوانوں کی خوشبو سے مہکتے رہتے ہیں۔ رنگا رنگ سبزیوں اور پھلوں کی آمد موسم سرما کے رنگوں میں مزید اضافہ کر دیتی ہے۔
پھرسردیوں کی نرم گرم دوپہروں میں کچھ وقت ٹکور کرتی دھوپ میں لیٹنا یا دوستوں یا اہل خانہ کے ساتھ خوش گپیاں کرنا بھی ایک لطف دینے والا عمل ہے۔ لیکن افسوس کہ موسم سرما کی یہ ساری لطافتیں اب ماند پڑتی جا رہی ہیں۔ غریب بندہ موسم سرما کے لوازمات پورے کرے یا اپنے لئے دووقت کی روٹی کا بندوبست؟