لا پتہ صحافی کیس میں وزیر انسانی حقوق اور سیکرٹری داخلہ اسلام آباد ہائیکورٹ پیش
اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) لا پتہ صحافی کے کیس میں وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری اور سیکرٹری داخلہ اسلام آباد ہائیکور ٹ پیش ہو گئے ۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے ، لیکن ایسے کیسز میں ماں کا کردار نظر نہیں آتا ہے ۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی کی گمشدگی سے متعلق کیس کی سماعت کی ، گزشتہ سماعت پر عدالت نے وفاقی وزیر برائےانسانی حقوق اور سیکرٹری داخلہ کو عدالت طلب کیا تھا جس پر دونوں آج عدالت پیش ہوئے ۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہم لوگوں کےزندگی کے تحفظ کے ضامن ہیں ،ایک بندہ لاپتہ ہوجاتا ہے اور ریاست کا کردار وہ نہیں جیسے ہونا چاہیے ،جب کوئی عدالت میں کہتا ہے کہ میرا پیارا لاپتہ ہے تو اسے مطمئن کون کرے گا ؟، مجھے پتہ چلا کہ صحافی کی اہلیہ بھی کیس لڑتے لڑتے موت کی نیند سو گئیں ، اب اس بچے کو ریاست نےتومطمئن کرنا ہے۔
وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ آپ نے پہلے بھی قیدیوں کےمعاملے پر بلایا تھا، جبری گمشدگیوں کا معاملہ ہمارے منشور میں تھا، ہم بل لا ئے ہیں جو قومی اسمبلی سے منظور ہو چکا، سینیٹ میں جلد بھجوایا جائے گا، وزیراعظم بننے سے پہلے بھی عمران خان کا معاملے پرواضح موقف رہا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شہریوں کو اغوا کرنا انتہائی سنگین جرم ہے، کسی پبلک آفس ہولڈر کا کوئی عزیز غائب ہو جائے تو ریاست کا رد عمل کیا ہو گا؟ یقیناً پوری مشینری حرکت میں آجائے گی، ریاست کا رد عمل عام شہری کے غائب ہونے پر بھی یہی ہونا چاہیے،تمام ایجنسیاں وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں، سمریوں یا رپورٹس کی بات نہیں لا پتہ شخص کے بچے اور والدین کو مطمئن کریں،بچے کی دیکھ بھال اور متاثرہ فیملی کو سننا ریاست کی ذمہ داری ہے ، کسی کو تو یہ ذمہ داری لینے ہوگی تو چیف ایگزیکٹو ذمہ دار کیوں نہ بنایا جائے ؟۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ یہ ہماری ڈیوٹی ہے کہ ہم ان گمشدگیوں کو روکیں ، ہمیں اہل خانہ کو مطمئن کرنا ہے کہ ریاست ان کے لیے بھی ماں جیسی ہے، ماہرہ خان کیس میں کمپن سیشن کا عدالتی فیصلہ وفاقی حکومت نے چیلنج کیا ہے، کیا عدالتی فیصلہ چیلنج کرنا حکومت کا کردار ہے ؟۔
شیریں مزاری نے کہا کہ میں اس معاملے کو وزارت سے چیک کروالیتی ہوں۔