فقیر شاعر پولیس افسر

فقیر شاعر پولیس افسر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پولیس کے بارے میں عام طور پر رائے مثبت نہیں۔اکثر شہریوں کو پولیس کے رویے سے شکایات رہتی ہیں۔اس کے باوجود پولیس میں بعض ایسے افسران اور اہلکارموجود ہیں ،جو پولیس کے محکمے کو آئیڈیل محکمہ بنانا چاہتے ہیں۔ان میں سید اظہر حسن ندیم، سردار محمد چودھری، رانا مقبول، احمد نسیم، حاجی حبیب الرحمن اور قلب عباس آئی جی پولیس پنجاب رہ چکے ہیں،جبکہ شوکت ہاشمی ایس ایس پی تھے اور تنویر زمان المعروف پیر فقیر ویرسپاہی سب انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔سابق انسپکٹر جنرل پولیس اظہر حسن ندیم شاعر بھی تھے۔انہوں نے پولیس کا ترانہ لکھا۔ان کی تمنا تھی کہ پولیس اپنے اس کردار کو بھول جائے جو انگریزوں نے اس کے ساتھ وابستہ کیا تھا۔پاکستان کے عوام اور محکمہ پولیس کے اہل کار مل کر ایک خوبصورت زندگی کا آغاز کریں۔اظہر حسن ندیم نے اپنے محکمے کے حوالے سے ایک کتاب بھی لکھی، جسے دو ایوارڈز مل چکے ہیں۔اس کتاب میں پولیس کے سچے کردار کی ترجمانی کی گئی ہے۔سید اظہر حسن ندیم نے اپنے ایک انٹرویو میں مجھے کہا تھا کہ پولیس سروس اگر صحیح انداز میں کی جائے تو عبادت ہے۔ عوام الناس کی جان ومال اور آبرو کی حفاظت کرنا اور مظلوموں کی دادرسی اور جرائم کی بیخ کنی کرکے معاشرے کو امن و سکون کا گہوارہ بنانا انسان کی زندگی کی معراج ہے۔بطور شاعر اور ادیب مَیں سمجھتا ہوں کہ اپنے قلم سے پولیس کے افسران اور جوانوں میں احساسِ فرض کے سوتے جگا سکتا ہوں۔اس میں کچھ کامیابی بھی ہوئی ہے۔شوکت ہاشمی ایس ایس پی تھے۔جوانی ہی میں ایک ٹریفک حادثے میں وفات پا گئے۔ان دنوں ان کی پوسٹنگ ساہیوال میں تھی۔شوکت ہاشمی بہت اچھے شاعر اور ادیب تھے۔انہوں نے پنجابی کے بجائے اردو میں کافی لکھی اور اس میں پنجابی زبان کا ذائقہ شامل کیا۔اس طرح ایک صوفیانہ لہر بھی لفظوں کے اندر محسوس ہوتی ہے۔عملی زندگی میں داخل ہوتے ہی افسری سنبھالی، مگر افسرانہ مزاجی ان کی درویشانہ زندگی کو ڈسٹرب نہ کرسکی۔شوکت ہاشمی کا کہنا تھا کہ میں ملامتیہ تصوف پر ایمان رکھتا ہوں۔میرا مرشد مجھے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہے۔مجھے کبھی تنہا نہیں ہونے دیتا۔مَیں نے بے شمار مسائل اسی طرح حل کئے ہیں۔اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ مرشد کا حکم جو میرے لئے امر ہے، مجھے پولیس میں کارِ خیر کے لئے ”مامور“ کئے ہوئے ہے۔میرا مرشد ہر ”بابے“ میں ہے۔ہر”ملنگ“ میں ہے۔ ہر ”سائیں“ میں ہے۔یہ دربار بڑے بڑے مسئلے منٹوں میں حل کردیتے ہیں۔لے آﺅ اپنے پورے معاشرے کو اور اس کے پورے گناہ آلود وجود کو.... قسم خدا کی ایک ہی داتاگنج بخشؒ ،ایک ہی بابا فریدؒ،ایک ہی شاہ حسینؒ،ایک ہی بلھے شاہؒ، ایک ہی دتو ملنگ، ایک ہی سائیں منا کافی ہے۔تنویر زمان محکمہ پولیس میں سب انسپکٹر ہے۔اس نے اپنا اصل نام گم کردیا ہے، وہ پیر فقیر ویرسپاہی کے نام سے معروف ہے۔اسی نام سے اس کی کتابیں شائع ہوئیں۔پیر فقیر ویرسپاہی کا تعلق وارث شاہ کے شہر جنڈیالہ شیر خاں سے ہے۔ وہ پولیس میں سب انسپکٹرہونے کے باوجود پیربھی ہے اور فقیر بھی۔وہ اپنے والد حضرت باوا شاہ منیر کا سجادہ نشین ہے۔اتوارکا پورا دن وہ اپنے والد محترم کے مزار پر گزارتا ہے۔اس دوران اپنے مریدوں سے ملاقات کرتا ، ان کے مسائل سنتا اور روحانی علاج کرتا ہے۔گویا وہ روحانی معالج بھی ہے۔ویر سپاہی نے حکمت کا کورس کیا ہوا ہے۔اس طرح وہ اپنے مریدوں کا روحانی کے علاوہ طبی علاج بھی کرتا ہے۔پولیس جیسے محکمے میں اس نے پولیس کلچرل اینڈ لٹریری سوسائٹی قائم کی ، جس کے تحت رسالہ ”سپاہی نامہ“ بھی شائع کرتا ہے۔وہ درگاہ حضرت پیر سید عبداللہ شاہ بخاری(کڑیال کلاں) کاخلیفہ ہے۔ اس حوالے سے وہ اپنے نام سے پہلے ”پیرفقیر“لکھتا ہے۔یہ اس کا لقب بھی ہے۔وہ صرف اپنے مریدوں ہی کا نہیں ،بلکہ شاعر دوستوں کا بھی روحانی اورطبی علاج مفت کرتا ہے۔ویرسپاہی کی اب تک 13کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔آٹھ کتابیں شاعری کی، باقی نثر کی ہیں،جن میں کہانیوں کی کتاب اور تحقیقی کتابیں شامل ہیں۔اس نے وارث شاہؒ پر تحقیقی کتاب ”وارث لیکھا“ لکھ کر اہم کام کیا ہے۔اس کتاب میں وارث شاہ کی زندگی اور فن کے بارے میں تحقیق کی گئی ہے۔ویر سپاہی نے اپنی اس تحقیقی کتاب میں ثابت کیاہے کہ وارث شاہ کی زندگی اور فن کے بارے میں جو کتابیں شائع ہوچکی ہیں، وہ مستند نہیں،ان میں بے شمار باتیں غلط لکھی گئی ہیں اور ”ہیر“ میں شامل بے شمار شعر بھی وارث شاہ کے نہیں، بلکہ لوگ اضافہ کرکے ”اصلی تے وڈی ہیر“ بناتے گئے۔اس نے بتایا کہ پنجابی کے نامور شاعر، سکالر اور محقق تنویر بخاری کے پاس ہیر وارث شاہ کا اصلی قلمی نسخہ موجود ہے اور اسی سے مَیں نے استفادہ کیا ہے۔مَیں نے اس سے دریافت کیا کہ ”ویرسپاہی“ نام رکھنے کی کیا وجہ ہے؟اس نے کہا کہ میرا نام تنویر زمان ہے۔تنویر کا مَیں نے ”تن“ ختم کردیا تو ”ویر“ رہ گیا۔سپاہی میرا پروفیشن ہے۔میرے آباﺅ اجداد کا پیشہ بھی سپاہ گری ہے،اس لئے مَیں نے اپنا نام ”ویرسپاہی“ رکھ لیا۔ویر سپاہی کا اڑھائی ہزار غزلوں پر مشتمل پنجابی دیوان زیر اشاعت ہے۔مَیں سمجھتا ہوں کہ آج تک شائع ہونے والے شعری مجموعوں میں یہ سب سے ضخیم دیوان ہوگا۔  ٭

مزید :

کالم -