ذہنی پولیو کے شکار لوگ
کسی بھی قوم کی حالت اُس قوم کے افراد باہم مل کرہی بدل سکتے ہیں۔ دیگر اقوام آپ کو ڈیٹا فراہم کر سکتی ہیں۔ زندگی گزارنے کے گُر بتا سکتی ہیں۔ تعلیم، معیشت اور صحت کے اصول صرف بتائے جاسکتے ہیں، ان پر زبردستی عمل درآمد نہیں کروایا جاسکتا۔ بین الاقوامی اداروں کی جانب سے جہاں پاکستان میں برتی جانے والی بے اعتدالیوں اور ناقص حکمت عملی سے متعلق آگاہ کیا جاتا رہتا، وہاں صحت جیسے اہم مسئلے سے متعلق بھی آگاہی فراہم کرتے رہتے ہیں اور اس حوالے سے ہماری قوم کی چشم پوشی پر انتباہ کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ حال ہی میں ایک بین الاقوامی ادارے نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ پولیو ورکروں پر حملوں اور بچوں کو پولیوکے قطرے نہ پلائے جانے کی وجہ سے پشاور میں پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ قیاس کیا جا رہا تھا کہ شاید اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد مقامی حکومت اور لوگوں کی آنکھیں کھل جائیں اور وہ کوئی ایسا لائحہ عمل مرتب کریں کہ پولیو کے قطرے ضرور پلائے جائیں، لیکن قوم کی بدقسمتی کہہ لیجئے کہ بین الاقوامی ادارے کی چشم کشا رپورٹ کے بعد شائد پولیو ورکروں پر حملوں کی شدت میں کچھ کمی واقع ہونی چاہئے تھی، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا، بلکہ یوں لگتا ہے جیسے اس میں بہتری آئی ہے۔
شرمناک امر ہے کہ پچھلے18ماہ کے دوران31افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ حال ہی میں کراچی، مانسہرہ اور پنجگور میں پولیو ٹیموں پر حملے ہوئے ہیں۔ کاچی میں پولیو ٹیموں پر دو حملے ہوئے اور دو خواتین ورکرز کو اغوا کر لیا گیا، جبکہ مانسہرہ میں پولیو قطرے پلانے والے سکول ٹیچر کو قتل کر دیا گیا۔ پنجگور میں پولیو ٹیم سے گاڑی چھین لی گئی۔ حیران کن امر ہے کہ کراچی جو انتہائی پڑھا لکھا اور ترقی یافتہ شہر ہے، وہاں بھی پولیو کے قطرے پلائے جانے پر شدت پسندی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نجانے کون عناصر ہیں، جو پاکستان کی آئندہ آنے والی نسلوں کو اپاہج اور مفلوج دیکھنا چاہتے ہیں۔ ذہنی طور پر پوری قوم پہلے ہی انتشار کا شکار ہو چکی ہے، جس قوم کو اپنے اچھے بُرے کی پہچان نہ رہے، جو قوم کسی فیصلے کی تہہ تک نہ پہنچ سکے،جو قوم فکر و تدبر سے عاری ہوتی جائے،جو قوم یہ سمجھنے سے عاری ہو کہ دشمن اس کے ساتھ کیا کھیل کھیلنے جا رہا ہے، وہاں دانخواستہ آئندہ نسلیں مفلوج بھی ہونے لگیں، تو شاید اس کی بے حسی میں فرق نہ آئے۔ پولیو مہم کو کامیاب بنانے کے لئے جہاں وفاقی و صوبائی اور شہری حکومتوں اور انتظامیہ کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، وہاں مقامی لوگوں کو اپنے قصبوں، گاﺅں اور محلوں کی سطح پر منظم ہو کر ایسے عناصر کا مقابلہ کرنا ہو گا جو ان کے بچوں کو معاشرے کا غیر فعال رکن بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
اگر کوئی ملک یا قوم اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے کہ جب دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے، ابھی تک قوم کے معصوم اور ننھے منے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے والوںکی جانوں کی حفاظت یقینی بنانے سے قاصر ہے، تو خدانخواستہ آئندہ آنے والے برسوں میں ایسی قوم ترقی سے کوسوں دور کہیں اندھیروں میں بھٹک رہی ہوگی۔ پولیو ورکروں پر حملے کرنے والے کوئی بھی ہوں اور اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں۔ بہرحال ان حملوں کا تدارک کیا جانا ضروری ہے۔ خیبر پختونخوا اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں تو پولیو ٹیموں پر حملوں کی ایک وجہ ڈاکٹر شکیل آفریدی بھی ہو سکتا ہے، جو اسامہ بن لادن کی تلاش میں جعلی پولیو مہم چلاتا رہا۔ یوں لوگ بدظن ہوئے اور ان کے ذہن بھی پراگندہ ہوئے کہ کس طرح کوئی شخص غیروں کے ہاتھوں میں کھیل کر اپنی قوم اور اس کی آئندہ نسلوں کو ماموں بناتا رہا۔ اللہ قوم کو ایسے ”ڈاکٹروں“ اور اس کے ”آقاﺅں“ سے محفوظ رکھے۔ اللہ ہمت دے تو یہ کام قوم خود بھی کر سکتی ہے۔ بس شعور، آگہی اور فہم و فراست کی منزلیں طے کرنا شرط ہے۔ قوم بسم اللہ تو کرے کامیابی اس کے قدم چومے گی او اسے ذہنی پولیو کے شکار لوگوں سے محفوظ بھی رکھے گی۔