خادم ِ اعلیٰ پنجاب کی نظر کرم
خادم اعلیٰ پنجاب کی گُڈ گورننس کا اعتراف مخالف سیاسی قائدین کے ساتھ ساتھ عالمی صحافتی ادارے بھی کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ گزشتہ 5 سالہ دور حکومت کی کارکردگی اور موجودہ دور حکومت کی ابتدائی کارکردگی پنجاب حکومت کے حوالے سے نہایت قابل ذکر ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں عوام کے معیارِ زندگی کو بلند اور بہتر کرنے کے لئے خادم اعلیٰ پنجاب کی شبانہ روز محنت کے چرچے ناصرف عوام الناس میں ہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عالمی مبصرین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ پنجاب میں کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کی شرح میں خاطر خواہ کمی واقع ہوچکی ہے۔ سرکاری اداروں پر حکومت ِ پنجاب کی گرفت مضبوط ہے اور میاں محمد شہباز شریف کے طوفانی دوروں نے پنجاب کی سول بیوروکریسی کو کام کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ جو افسران کبھی اپنے دفاتر میں صبح دس گیارہ بجے سے پہلے پہنچنا گوارہ نہیں کرتے تھے اب یہ عالم ہے کہ وہی افسران اب صبح آٹھ بجے اپنے دفتر پہنچ چکے ہوتے ہیں۔
سرکاری سفید ہاتھیوں کا وقت کی پابندی کا احساس حکومت ِ پنجاب کے سربراہ میاں محمد شہباز شریف کی خدمت شعاری اور مستعد طرز ِ حکومت کا مرہون منت ہے۔ گذشتہ دنوں کسی کام کے سلسلہ میں پنجاب سول سیکرٹریٹ جانے کا اتفاق ہوا تو یہ دیکھ کر تو حیرت ہوئی کہ افسران کی اکثریت صبح آٹھ، سوا آٹھ بجے اپنے دفتر میں بیٹھے سرکاری امور کی انجام دہی میں متحرک تھی۔ پنجاب کی سول بیوروکریسی کے اندر یہ تبدیلی کوئی چھوٹی کامیابی نہیں ہے۔ یہ عمل تو محض افسران کی کارگزاری، مستعدی اور پراگریس کو بہتر کرنے کا محض نقطئہ آغاز ہے۔ ابھی بہت سے معاملات ایسے ہیں جن پر خادم اعلیٰ پنجاب سرگرم عمل ہیں اور اگر وہ اسی عوامی خدمت کے جذبے کے ساتھ متحرک رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ عوام حکومت کی طرف سے بہتر خدمت کا موقع مزید بڑھ سکتا ہے۔
حکومت پنجاب نے اپنے گذشتہ دور حکومت میں عوام کے جان و مال کے تحفظ کی خاطر ایک ادارے "پنجاب فوڈ اتھارٹی" کا قیام عمل میں لا کر فرض شناسی کا ایک گراں قدر کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ گو کہ ابھی اس فوڈ اتھارٹی کے ثمرات سے عوام پھرپور مستفید نہیں ہو رہے، لیکن اگر خادم اعلیٰ پنجاب نے اس ادارہ کی طرف خاص توجہ دی تو اس کی بدولت عوام کی صحت، دولت اور سکون کی بحالی کا کام عمل میں آسکتا ہے۔ ابھی تک "پنجاب فوڈ اتھارٹی" کی کارکردگی محض بڑے بڑے ریستورانوں کے حوالے سے سامنے آئی ہے ،جس کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں پذیرائی بھی مل رہی ہے، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ ادارہ محض شہر کے بڑے بڑے معروف ریستورانوں سے ہٹ کر شہر بھر میں ملاوٹ ملی خوراک اور ملاوٹ اور مضر ِ صحت اجزاء والے مضر صحت دودھ کی کھلے عام فروخت کو بھی فی الفور روکے۔ آج صوبائی دارالحکومت میں پانی کی ملاوٹ ملا ناقص بیمار جانوروں کا گوشت جو کہ انتہائی مضر ِ صحت ہے کھلے عام فروخت ہو رہاہے، گلی گلی ہر بازار کوچے میں کھلے دودھ کی فروخت کے ذریعے مضر صحت کیمیکلز ملا دودھ بیچا جا رہا ہے۔ اس دودھ اور مضر صحت گوشت نے شہر بھر کے سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں اور کلینکس کو بھر دیا ہے ۔
ایک اندازے کے مطابق آج کل لاہور بھر میں مضر صحت گوشت کی ڈیڑھ ہزار دکانیں عوام کو موت بانٹنے کے عمل میں مصروف ہیں اور تقریباً چھ ہزار سے زائد مضر صحت کھلے دودھ کی دکانیں شہریوں کی زندگیوں سے کھیل رہی ہیں۔ ہر گلی، ہر بازار میں موجود کھلے دودھ کے سیل ڈپو، دونوں ہاتھوں سے عوام کی جیب کاٹنے میں مصروف ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ناصرف پنجاب فوڈ اتھارٹی اس معاملہ میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ضلعی اور صوبائی حکومت کے دیگر ادارے بھی شہر بھر کے ملاوٹ شدہ خوراک کے دیگر گھناﺅنے کاروبار کو روکنے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔
خادم اعلیٰ پنجاب کی گُڈ گورننس بھی اس امر کی متقاضی ہے کہ شہر بھر میں مضر صحت گوشت اور مضر صحت دودھ کی فروخت پر پابندی عائد کرکے عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ اس گھناﺅنے کاروبار کو جڑ سے اکھاڑتے ہوئے اس کی مستقل روک تھام کے اقدامات عمل میں لائے جائیں۔ نبی اکرم ﷺ کا فرمان بھی ہے ...."جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے".... خادم اعلیٰ پنجاب کی نظر کرم اس معاملہ کی خصوصی مستحق ہے۔