چھیتی بوڑیں وے طبیبا
صدر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے عروج کا دور تھا۔سرکار ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے عمل پیرا تھی۔’’حکم‘‘ تھا کہ ظہر کے اوقات میں تمام سرکاری ملازمین دفاتر میں باجماعت نماز کا اہتمام کریں۔انہی دنوں کی بات ہے سرکاری آرڈر سے متاثر ایک ’’نیم مُلا‘‘ مسجد میں لاؤڈ سپیکر پر جمعے کا خطبہ دیتے ہوئے یوں واعظ کر ر ہا تھا۔
’’لوگو نماز پڑھو کیونکہ یہ اللہ کے رسول کا حکم ہے،لوگو نماز پڑھو کیونکہ یہ اللہ کا حکم ہے، لوگو نماز پڑھو کیونکہ اور تو اور یہ صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کا حکم ہے‘‘۔
کل یکم فروری اردو کے صاحبِ طرز ادیب،مزاح نگار،کالم نویس،شاعر ، ڈرامہ نگار اور اُستادوں کے اُستاد محترم عطاء الحق قاسمی کی سالگرہ کا دن تھا ،جس کی خوشی میں آج ہم سب یہاں جمع ہیں۔آپ کہیں گے اُستاد!یہ اُستادوں کے اُستاد والی بات کیا ہوئی تو عرض کروں گا کہ اور بے شمار شاگردوں کی طرح آپ میرے بھی اُستاد ہیں، جبکہ میرے دوستوں کا میرے بارے میں یہ خیال ہے کہ مَیں بڑا اُستاد ہوں۔تو پھر اس طرح قاسمی صاحب ہوئے نہ اُستادوں کے اُستاد۔اب آپ پوچھیں گے خوشی کے اِس موقع پر اس فضول تمہید کی کیا تُک بنتی ہے؟ تو مَیں کہوں گا کہ میری طرف سے اس کے دو جواب ہو سکتے ہیں ۔پہلا جواب تو یہ ہے کہ ’’اینویں!‘‘
جبکہ دوسرا اور اصل جواب دراصل آپ کو یہ باور کرانا تھا کہ آج قاسمی صاحب کی سالگرہ کے حوالے سے منعقدہ تقریب کے موقع پراُن کی نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط علمی و ادبی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے اور اپنی محبتوں کے پھول نچھاور کرنے کے لئے اُن سے پیار کرنے والے بے شمار نامور ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور دانشوروں کے ساتھ اور تو اور میں بھی یہاں موجود ہوں۔
آپ خود سوچیں 1970 ء میں جب عطاء الحق قاسمی امریکہ بہادر کو ’’تین طلاقیں‘‘ دے کر ہمیشہ کے لئے ہمارے پیارے وطن پاکستان واپس آرہے تھے تو کیا انہیں معلوم تھا کہ اِسی سال فروری کی14 تاریخ کو پاکستان کے دور درازمضافات میں ایک ایسا بچہ جنم لے گا جو آگے چل کر آج کے دن، یعنی دو فروری 2015ء کو ملک کے بڑے بڑے اور نامور دانشوروں،ادیبوں اور صحافیوں کی موجودگی میں اُن کی علمی،ادبی اور شخصی عظمتوں کو خراجِ تحسین پیش کرے گا۔
’’بے شک اللہ جسے چاہتا ہے اُسے عزت دیتا ہے‘‘
اب آپ پوچھیں گے کہ یہ ’’مَیں کون ہوں؟‘‘
اس کا ایک سیدھا سادا اور جان چُھڑانے والا جواب یہ ہے کہ ’’کیہ جاناں مَیں کون اوہ بُلھیا؟‘‘
جبکہ دوسرا اور اصل جواب یہ کہ ہال میں موجود وہ خواتین و حضرات جن کی کتابوں بالخصوص ’’فیس بُک‘‘ میں دلچسپی نہیں ہے وہ مجھے واقعی نہیں جانتے ہوں گے۔ اُن کے تعارف کے لئے بتادیتا ہوں کہ ناچیز کو ابرار ندیم کہتے ہیں، مگر واضح رہے کہ یہ ناچیز کسی بھی طرح میرے نام اور شخصیت کا حصہ نہیں ہے۔ یہ وضاحت اس لئے بھی ضروری ہے کہ مبادا آپ مجھے حقیقت میں ’’ناچیز‘‘ سمجھنا اور پُکارنا شروع کر دیں۔جیسا کہ یار لوگ اکثر شروع شروع میں پیار پیار سے الٹے سیدھے ناموں سے پکارتے ہیں اور بعد میں سچ مچ بھی اُسی نام سے پکارنے لگ جاتے ہیں جومزید بعد میں اللہ معاف کرے بندے کی ’’چھیڑ‘‘ بن جاتی ہے۔
خیر مزید وقت ضائع کئے بغیر مَیں آپ کو اپنے بارے میں بتادوں۔اگر آپ نے فیس بُک پر میری شاعری نہیں پڑھی اور ریڈیو پر بطور کمپیئر میرا کوئی پروگرام نہیں سُنا تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے آپ مجھے بھی ملک کے نامور شاعروں، صحافیوں،ادیبوں اور براڈ کاسٹرز میں شمار کر سکتے ہیں۔ بصورتِ دیگر یہاں شاعروں،ادیبوں اور صحافیوں کے ساتھ چند معززینِ شہر بھی موجود ہیں آپ مجھے کسی کڑوے گھونٹ کی طرح چار و ناچار ہی سہی اُن کے کوٹے میں بھی فِٹ کر سکتے ہیں ۔ یوں بھی فی زمانہ معزز بننے کے لئے کسی خاص ’’کوالیفکیشن‘‘ کی کہاں ضرورت پڑتی ہے۔
یکم فروری 2015ء محترم عطاء الحق قاسمی کی سالگرہ کا دن ہے اور جیسا کہ میں آپ کو شروع میں بھی بتا چکا ہوں کہ اِسی مہینے میں ٹھیک بارہ دن بعد 14فروری میری پیدائش کا دن ہے،بلکہ مبارک دن ہے۔ اب جسے لوگ پاکستان سے باہر بھی دُنیا بھر میں ویلنٹائن ڈے، یعنی محبت کے یادگار دن کے طور پر مناتے ہیں اور ایک دوسرے کومحبت کے اظہار کے لئے گلاب کے سرخ پھول تحفے میں پیش کرتے ہیں،لیکن جیسا کہ آپ نے بھی سُنا ہو گا ،چراخ تلے ہمیشہ اندھیرا ہوتا ہے۔وائے قسمت! اپنی سالگرہ کے دن ہمیں تو آج تک کبھی کسی نے گلاب کا پھول توایک طرف گوبھی یا تمباکو کا پھول بھی نہیں دیا۔ یقیناًایسے ہی کسی موقع کے لئے لاریوں،بسوں اور رکشوں کے پیچھے یہ لکھا ہوتا ہے ۔
’’پسند اپنی اپنی،نصیب اپنا اپنا‘‘
لیکن وہ جو کسی شاعر نے کہا ہے ناں۔
’’وہ مرد نہیں جو ڈر جائے حالات کے خونی منظر سے
جس حال میں جینا مشکل ہو اُس حال میں جینا لازم ہے ‘‘
سو اِن حالات میں ہمیشہ محترم عطاء الحق قاسمی کے دورِ طالبعلمی کے ایک شعر کو بطور پالیسی مضبوطی سے پلے باندھے رکھا ہے۔جس میں آپ نے کہا تھا :
’’بنتے ہیں تیرے چار سو فی الحال چار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ‘‘
خُدارا اس سے ہرگز یہ نہ سوچئے گا کہ قاسمی صاحب نے بھی اپنے وقت میں یہ شعر کہیں میرے جیسے ’’ناروا۔کڑے اور نامسائد‘‘ حالات میں کہا ہوگا۔اگر آپ ایسا سوچ یا سمجھ رہے ہیں تو کوئی بھی حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے فیس بُک پر قاسمی صاحب کی نوجوانی کی وہ تصویر ایک بار ضرور دیکھ لیں جسے دیکھ کر
بے اختیار آپ بھی کہہ اٹھیں گے۔
’’ناز و انداز و ادا ہونٹوں پہ ہلکا سا تبسم
تیری تصویر میں سب کچھ ہے تکلم ہی نہیں‘‘
سادہ لفظوں آپ یہ سمجھ لیں یہ ایک ایسی تصویر ہے جس کے بارے میں ایک گانے کے مُکھڑے میں یوں کہا گیا ہے۔
’’ماہی ماہی مینوں چھلا پوا دے
کھچ میری فوٹو تے بٹوے چے لا دے‘‘
قاسمی صاحب کی وہ تصویر دیکھ کر آپ کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے گا کہ آپ کی تحریر زیادہ قاتل ہے یا آنکھیں۔قاسمی صاحب کی تحریروں کا تو ایک عالم معترف ہے،رہی بات آپ کی آنکھوں کی تواس حوالے سے محض اتنا کہوں گا کہ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا،جس جس کو میرے دعوے کی تصدیق مطلوب ہے وہ یہاں سٹیج پر قاسمی صاحب کے قریب، بلکہ ’’ عنقریب‘‘ آکر ایک دفعہ آپ کی آنکھوں میں ضرور جھانکے۔اگر آپ کے کانوں اور دل میں نصیبو لال کا گانا
’’بڑیاں عاشق مزاج اکھاں تیریاں وے بدو بدو لڑی جاندیاں‘‘
بجنا شروع نہ ہو جائے تو پیسے واپس،لیکن اس کے ساتھ یہ وضاحت بھی کردوں کہ یہ دعوت صرف خواتین کے لئے ہے اور وہ بھی اُن کی اپنی ذمہ داری پر،کسی حادثے یا نقصان کی صورت میں کمپنی ہرگز ذمہ دا ر نہ ہو گی ۔ یہ نقصان کا میں نے اس لئے کہا ہے کہ ایکسیڈنٹ دل کا ہو یا گاڑی کا نقصان کا احتمال تو بہرحال رہتا ہی ہے۔
خواتین و حضرات! بات قاسمی صاحب کی’’بمب‘‘ فوٹو سے چلی تھی تو میرے خیال میں موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ بتانے میں کوئی ہرج نہیں کہ خیر سے فوٹو اپنی بھی اکثر اوقات بڑی ’’پوپٹ‘‘ آتی ہے لیکن صد افسوس کہ اپنا ’’پوپٹ پن‘‘ صرف تصویروں تک ہی محدود ہے، جبکہ جشمِ بدور قاسمی صاحب آج اپنی بہترویں سالگرہ پر بالمشافہ بھی ’’ فُل پوپٹ‘‘ اور لش پش ہیں۔جس کا ایک راز تو یقیناًان کی اپنی زندہ دلی اور خوش مزاجی ہے ،مگر مجھ ناہنجار کو پتا نہیں کیوں یہ یقین ہے کہ آپ کی اس سدا بہار جوانی،خوبصورتی اوربالخصوص ہر دلعزیزی کے پیچھے کوئی گہرا راز اور بھی ہے جسے آپ نے ابھی تک میرے جیسے ندیدے شاگردوں سے چھپا کر رکھا ہوا۔ یہ جو آج ایک ہجومِ عاشقاں آپ کی سالگرہ کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں آپ سے اپنی محبت اور عقیدت کے اظہار کے لئے یہاں جمع ہے تو اس کا کوئی سبب تو ضرور ہے بقول ابنِ انشا
اس شہر میں کس سے ملیں،ہم سے تو چھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے، ہر شخص دیوانہ ترا
کوچے کو ترے چھوڑ کر جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل ترے،پربت ترے،بستی تری ،صحرا ترا‘‘
آخرمیں آپ سب کی موجودگی کافائدہ اُٹھاتے ہوئے اُستادِ محترم عطاء الحق قاسمی صاحب سے مودبانہ و عاجزانہ گزارش کروں گاکہ آج بڑی خوشی کا موقع ہے دوسرے لفظوں میں رسمِ دُنیا بھی ہے موقع بھی دستور بھی ہے ۔ اپنے چاند سے مکھڑے اور ہر دلعزیزی کا صدقہ اُتاریئے اور خدارا مجھے بھی وہ وظیفہ یا گید ڑ سنگی عطاء کریں جس کے بعد دنوں میں نہیں منٹوں میں محبوب میرے قدموں میں بھی ہو۔اس لئے کہ برسوں سے محبوب کے قدموں میں ’’پیراں پرنے‘‘ بیٹھ بیٹھ کر اب میں عاجز آگیا ہوں اور میری ہمت بھی جواب دیتی جا رہی ہے ۔
’’چھیتی بوڑیں وے طبیبا نئیں تے میں مرگئیاں‘‘
(محبانِ عطاء الحق قاسمی کے زیرِ اہتمام الحمراء لاہور میں منعقدہ تقریب کے لئے لکھا گیا)