نظامِ تعلیم میں بہتری کیسے ہو؟

نظامِ تعلیم میں بہتری کیسے ہو؟
 نظامِ تعلیم میں بہتری کیسے ہو؟

  

پاکستان آج بہت سی مشکلات میں گھرا ہوا نظر آ تا ہے۔ سیاسی ، معاشی، دہشت گردی اور معاشرتی الغرض ہر قسم کے چیلنج پاکستان کو درپیش ہیں۔ ان کے حل کے لئے ہم لاکھ غور کریں، لیکن مستقل حل ایک ہی نظر آتا ہے کہ قوم میں ان مسائل کے حل کا جذبہ اور شعور پیدا ہو اور یہ شعور تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس تناظر میں میاں شہباز شریف نے پنجاب میں تعلیم کی بہتری کے لئے جو سنجیدہ کوششیں کی ہیں وہ قابلِ تحسین ہیں۔ انہوں نے تعلیمی نظام کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے ،جس میں اساتذہ کی تعلیمی قابلیت کے ساتھ ساتھ میرٹ پر بھرتی اور کمپیوٹر کی فراہمی ان کی حب الوطنی کا ثبوت ہے،کیونکہ مستقبل میں ہم نے ایسی نسل تیار کرنی ہے جو محب وطن اور مُلک کو مشکلات سے نکالنے کی اہلیت رکھتی ہو اور یہ سب کچھ جدید تعلیم اور تعمیر شخصیت سے ہی ممکن ہو گا۔اس تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے حکومت ،قوم، معاشرہ،بچہ اور والدین سب کو مل کر کام کرنا ہے، لیکن سب سے اہم رول اساتذہ کرام کا ہے۔۔۔ اگر یہ کہا جائے کہ مُلک کو مشکلات سے نکالنے کی چابی صرف اساتذہ کرام کی جیب میں ہے، اس لئے ان کا فرض ہے کہ اگر وہ حکومت سے تحفظات رکھتے ہیں تو وہ اپنی جگہ،مگر اساتذہ کو چاہئے کہ ملکی ترقی کا علم آگے بڑھ کر تھام لیں،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ اہلیت صرف انہیں عطا کی ہے۔آج کل وزیراعلیٰ 100فیصد داخلے کی مہم چلارہے ہیں،اس مہم کی کامیابی اساتذہ کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں ،لیکن اساتذہ کو جن مشکلات کا سامنا ہے ، حکومت کو اس کا ادراک ہونا چاہئے اور ہر کسی کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکنا چاہئے۔ تمہید میں بات لمبی ہوتی جارہی ہے۔اب میں ان تجاویز کی طرف آتا ہوں جن پر عمل کرکے حکومت نظامِ تعلیم میں بہتری کا مقصد پورا کرسکتی ہے۔

1۔ ماہرین تعلیم، صحافی ، دانشور، بیورو کریٹ الغرض ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے تعلیم کی بہتری کے لئے تجاویز طلب کی جائیں اور سب تجاویز کے مطالعہ کے بعد ایک جامع پروگرام ترتیب دیا جائے اور اس پر عمل درآمد کیا جائے۔

2۔اگر سرمائے کی کمی ہوتو ایک سال تعلیمی ایمرجنسی لگاکر بجٹ کا بڑاحصہ اس پروگرام پر عملدرآمد کے لئے مختص کر دیا جائے۔اگر ایک سال کا بجٹ خرچ کرنے کے بعد ہم تعلیمی نظام کا قبلہ درست کرلیتے ہیں توسمجھ لیں کہ ہم ترقی کے سفر پر روانہ ہو چکے ہیں۔

3۔وہ پرانے اساتذہ جو ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں، لیکن مالی مجبوریوں کی وجہ سے ریٹائرمنٹ نہیں لے رہے، مگر جدید سلیبس پڑھانے میں ان کو دشواری کا سامنا ہے، ان کے لئے پُرکشش گولڈن شیک ہینڈ سکیم متعارف کرائی جائے، تاکہ وہ ریٹائرمنٹ لے سکیں۔ ان کی جگہ جدید تعلیم سے آراستہ اساتذہ بھرتی کئے جائیں تاکہ جدید سلیبس آسانی سے پڑھایا جاسکے۔

4۔ نئے بھرتی ہونے والے اساتذہ کی تعلیمی قابلیت کی اہمیت اپنی جگہ، مگر ایسے اساتذہ بھرتی کئے جائیں جو تعلیم کے ساتھ ساتھ تعمیر شخصیت کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں ۔اس کے لئے اساتذہ کا سائیکا لوجی ٹیسٹ لیا جائے کہ اس کی شخصیت اندر سے کیسی ہے؟ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص تعلیمی لحاظ سے بہت قابل مگر اخلاقی برائیوں کو جائز سمجھتا ہو تو اس سے تعمیر شخصیت کی توقع نہیں رکھی جاسکتی ۔ بھر تی میں اس کا خاص خیال رکھا جائے۔

5۔حکومت کی کوشش کے باوجوداساتذہ کی کمی پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ گولڈن شیک ہینڈ سکیم میں ریٹائر منٹ کے بعداساتذہ کی کمی کا حساب لگایا جائے اور اسے ایک ہی بھر تی میں جلد از جلد پورا کیا جائے تاکہ کسی ادارے کے پاس اساتذہ کی کمی کا بہانہ نہ ہو۔

6ْ۔اساتذہ کو ممکنہ حد تک گھروں کے قریب تعینات کیا جائے تاکہ وہ تبادلہ کرانے کے چکر میں نہ پڑے رہیں۔

7۔ اساتذہ کی تنخواہ کا تعین ان کی تعلیمی اور پیشہ ورانہ قابلیت کے تناظر میں کیا جائے، خواہ وہ کسی بھی پوسٹ پر پڑھ رہا ہو، مثلاً ایک استاد M.Sc(M.Ed)ہے جو PST ہے اسے نواں سکیل دیا گیا ہے، جبکہ دوسرا استاد بھی M.Sc(M.Ed)ہے وہSST ہے اور اسے سولہواں سکیل دیا گیا ہے۔ان دونوں میں جو فرق روا رکھا گیا ہے، وہ اساتذہ میں بے چینی کا سبب بنتا ہے اور یہ ناانصانی بھی ہے۔اس پر غور کیا جائے۔

8۔دور دراز دیہات میں پڑھانے والے اساتذہ کے لئے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا جائے تاکہ اساتذہ تبادلے کے چکر میں نہ پڑیں، بلکہ دلجمعی سے پڑھاتے رہیں، اگر ایسا ممکن نہیں تو گھر سے زیادہ دور آنے والے اساتذہ کے لئے کرایہ کی مد میں خصوصی اضافہ دیا جائے۔ آج یہ ہو رہا ہے کہ اساتذہ شہروں ہی کے رہائشی ہیں اور شہری سہولتوں سے مستفید بھی ہو رہے ہیں، جبکہ انہیں خرچ بھی نہیں کرنا پڑتا،جبکہ اس کا ہمسایہ دور دیہات میں پڑھانے جارہا ہے۔ وہ خرچ بھی کرتا ہے اور اس کی تنخواہ بھی شہری استاد کی نسبت کم ہے۔ اس نا انصانی کا منصفانہ حل تلاش کیا جائے تاکہ دیہات میں پڑھانے والے اساتذہ کی بے چینی ختم ہو سکے۔

9۔ اگر استاد اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا رہا ہے یا اسے بچوں کی شادی کرنا ہے تو اسے بلا سود قرضہ دیا جائے اور مرحلہ وار اس کی تنخواہ سے کٹوتی کرلی جائے، تاکہ اسے مالی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

10۔وزیراعلیٰ سکیم کے تحت زیادہ سے زیادہ داخلے کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے، جبکہ خرچہ بالکل نہ کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔اساتذہ کو چاہئے کہ قوم کا کوئی بچہ تعلیم کے بغیر نہ رہے، وہ والدین کو ترغیب دیں کہ بچوں کو سکول میں داخل کروائیں، لیکن حکومت نے گورنمنٹ سکولوں کے قریب فاس سکول کھول دیئے ہیں ، جن کو فی بچہ کے حساب سے ادائیگی کی جاتی ہے۔وہ کاروباری لحاظ سے بچوں کوداخل کرتے، جن کی کوئی فیس نہیں ہے، جبکہ گورنمنٹ سکولوں میں مبلغ 20/= روپے فنڈز لئے جاتے ہیں۔ دیہاتوں میں غریب والدین اسی بات پر بچوں کو فاس سکولوں میں داخل کرواتے ہیں اور گورنمنٹ سکولوں کے اساتذہ سے جواب مانگا جاتا ہے کہ داخلہ مطلوبہ شرح سے کیوں نہیں ہوا؟

11۔ فاس سکولوں اور پرائیویٹ سکولوں میں داخلے کے کوئی مخصوص قوانین نہیں ہیں۔ وہ کسی سرٹیفکیٹ کی پابندی نہیں کرتے، تاریخ پیدائش یا نام کی تبدیلی مقصود ہو تو لوگ پرائیویٹ سکولوں میں داخلہ لے کر یہ کام آسانی سے کرلیتے ہیں، جبکہ گورنمنٹ سکول مخصوص قوانین کے تابع ہیں، مثلاً دوسرے سکول سے آنے والابچہ سرٹیفکیٹ لے کر آئے، دوسرے ضلع سے آیا ہو تو ڈی ای او کے دستخط بھی موجود ہوں ۔ گورنمنٹ سکول تاریخ پیدائش یا نام میں تبدیلی نہیں کرسکتے، اس کے لئے ب فارم یا اسٹامپ پیپر وغیرہ مانگے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے لوگ پرائیویٹ سکولوں کا رُخ کرتے ہیں۔مزید یہ کہ پرائیویٹ سکول فیل بچوں کو اگلی کلاس میں داخلہ دے دیتے ہیں، جبکہ گورنمنٹ سکول سرٹیفکیٹ پر لکھی کلاس سے آگے ترقی نہیں دے سکتے ،اس لئے لوگ معیاری تعلیم کی بجائے بچے کا سال بچاتے ہیں اور گورنمنٹ سکول کی بجائے پرائیویٹ سکول کا رُخ کرتے ہیں۔ گورنمنٹ سکول مطلوبہ تعداد میں داخلہ کرنے سے محروم رہتے ہیں، اس طرح اساتذہ اور ہیڈ ماسٹر کی جوا ب طلبی ہوتی ہے، جو اساتذہ کے لئے پریشان کن ہے، اس کے لئے پرائیویٹ سکولوں اور گورنمنٹ سکولوں کے لئے یکساں قوانین لاگو کئے جائیں۔

12۔ شہری سکولوں اور دیہی سکولوں میں خارجہ کی شرح کا واضح فرق دیکھنے میں آیا ہے، کیونکہ شہری بچوں کے والدین اور دیہی بچوں کے والدین کے معاشرتی رویوں میں واضح فرق ہے۔ دیہات میں فصل کی کٹائی اور بوائی کے وقت بچوں کی حاضری کم رہتی ہے اور یہ حاضری میں کمی تشویش ناک حدتک کم ہوتی ہے۔ اساتذہ گھرو ں میں جا کر والدین سے رابطہ کریں تو سکول میں آئے بچوں کی تعلیم کا حرج ہوتا ہے اور والدین گھروں کی بجائے کھیتوں میں ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ دیہات میں خصوصاً ہائی سکول کے بچے دور دراز سے آتے ہیں جہاں اساتذہ کا پہنچنا ممکن نہیں۔ آج کل والدین کو کال کی جائے تو اکثر فون بند ملتا ہے اور اگر بات ہو جائے تو کہتے ہیں کہ ہم نے کام کے لئے بچے کو رکھا ہے، مہربانی فرما کر چھٹی دے دیں ۔کم حاضری پر انچارج صاحبان کی جواب طلبی ہوتی ہے۔ والدین تعاون نہیں کرتے، اساتدہ بچوں کو سزا بھی نہیں د ے سکتے اور سزا دیں بھی کیوں؟ ان کو تو والدین نے گھر پر رکھا تھا، استاد بچے کو خارج بھی نہیں کر سکتے ۔ اس طرح اساتذہ میں پر یشانی بڑھ رہی ہے، کیونکہ ایک تو حاضری کم ہے دوسرا رزلٹ کا جواب بھی استاد کو دینا پڑتا ہے، اس لئے حکو مت کو چاہئے کہ قانون سازی کے ذریعے بچوں کو سکول بھیجنے کی ذمہ داری والدین پر ڈالی جائے تاکہ وہ اساتذہ سے تعاون کریں اور دونوں مل کر تعلیم کی بہتری کے لئے کام کرسکیں۔

13۔ اساتذہ سے صرف پڑ ھانے کا کام لیا جائے ، جن سکولوں میں کلرک نہیں ، وہاں کلرک بھیجے جائیں تاکہ کلرک کاکام کرنے والے اساتذہ تعلیم دینے پر توجہ مرکوز کرسکیں۔اس کے علاوہ اساتذہ سے بورڈ اور یونیورسٹیوں کی امتحانی ڈیوٹیاں نہ لی جائیں ۔اساتذہ کا مخصوص گروہ ،جو مافیا کی شکل اختیار کرچکا ہے، امتحانی ڈیوٹیاں دیتا ہے، اس طرح بچوں کی تعلیم کا بڑاحرج ہو رہا ہے۔حکومت بورڈ کے چیئرمینوں کو حکم دے کہ وہ تعلیم یافتہ لڑکے بھرتی کرنے اور ریٹائرڈ اساتذہ کرام کی زیر نگرانی انہیں تربیت دے کر ان سے امتحانی ڈیوٹیاں اور مارکنگ کا کام لے تاکہ اساتذہ پڑھائی پر توجہ مرکوز کرسکیں اور نئے لوگ بھرتی ہونے سے بے روزگاری میں بھی کمی ہو۔

14۔اگر اساتذہ کو حکومت سے کوئی شکوہ ہے یا وہ اپنے حقوق کی بات کرنا چاہتے ہیں تو مختلف اضلاع سے کم از کم دس اساتذہ سیکریٹری ایجوکیشن کو مطالبات پر مبنی خط لکھیں، اس کے بعد سیکرٹری ایجوکیشن کا فرض ہوگا کہ وہ وزیر تعلیم کی مشاورت سے خود مذاکرات کرے یا وزیر تعلیم اپنا نمائندہ زیادہ سے زیادہ پندرہ دن میں مذاکرات کے لئے بھیجے تاکہ اساتذہ کے مطالبات پر بات ہو سکے اور انہیں منصفانہ طور پر مطمئن کیا جا سکے۔ اس طرح اساتذہ کو ہڑتال یا احتجاج نہیں کرنا پڑے گا اور وہ اپنی پوری توجہ تعلیم دینے پر مرکوز کرسکیں گے۔

المختصر: تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے استاد کو کام اور فرائض کی ادائیگی کرنا پڑے گی۔ حکومت کوچاہئے کہ وہ استاد سے انصاف کرے اور اسے ہر قسم کی پریشانی سے بچائے۔ اس کی بات سننے کے لئے مناسب فورم ہونا چاہئے، جو مقررہ مدت میں اس کی بات سنے، تاکہ استاد مطمئن ہو اور ہمارا نظام تعلیم ہمیں اہل اور محب وطن شہری دے سکے۔

مزید :

کالم -