ما ضی کا کبو تر باز بدلے کی آگ میں لیا ری کا گینگسٹربنا

ما ضی کا کبو تر باز بدلے کی آگ میں لیا ری کا گینگسٹربنا
 ما ضی کا کبو تر باز بدلے کی آگ میں لیا ری کا گینگسٹربنا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی(ویب ڈیسک)لیاری گینگ وار کنگ سردار عزیر جان بلوچ عرف عزیر بلوچ کی جرائم کی دنیا کی مزید تفصیلات کا انکشاف ہوا ہے۔

سکیورٹی ذرائع کے مطابق بدلے کی آگ میں جل کر گینگسٹر بننے والا ملزم ماضی کا کبوتر باز ہے ،لالچ اور بدلہ لینے کی آگ نے اسے 14 سال پہلے کے ایک معمولی جرم سے بتدریج اشتہاری بناڈالا۔عزیر بلوچ نے 1977 میں لیاری کے افشانی محلہ میں فیض محمد عرف فیضو ماما کے گھر میں جنم لیا۔ اس وقت لیاری میں سردار عبدالرحمٰن بلوچ عرف ڈکیت کے والد داد محمد عرف دادل کا راج تھا۔ عزیر بلوچ پی پی پی کے گڑھ لیاری کے پسماندہ ماحول میں پلا بڑھا۔2001 میں 24 سال کی عمر میں عزیر بلوچ نے سیاست میں قدم رکھا اور لیاری سے ناظم کے الیکشن میں حصہ لیا تاہم کامیاب نہیں ہوسکا۔2003 میں عزیر بلوچ جب 26 سال کا تھا تو اس کے والد فیض محمد عرف فیضو ماما کو قتل کردیا گیا جو منشیات فروشی ترک کرکے اس وقت ایک بڑے ٹرانسپورٹر کا درجہ حاصل کرچکا تھا۔ فیض محمد عرف فیضو ماما کے قتل میں لیاری گینگ کے سربراہ حاجی لالو اور اس کے بیٹے ارشد عرف پپو کو ملوث قرار دیا گیا۔بدلے کی آگ میں عزیر بلوچ نے جرم کی دنیا میں بڑے بڑوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ عزیر بلوچ اس وقت عبدالرحمٰن عرف ڈکیت گروپ میں شمولیت اختیار کرچکا تھا۔ عزیر نے لیاری میں وہ تباہی مچائی کے ہر ایک کی زبان پر صرف ایک ہی نام تھا۔ان جرائم کی پاداش میں عزیر کے خلاف 2004 اور 2005 میں دس مقدمات درج کئے گئے۔2005 میں ایس پی چوہدری اسلم نے عزیر بلوچ کو سجاول سے گرفتار کیاتھا،2008 میں سندھ کی بڑی سیاسی جماعت کی کاوشوں سے عزیر بلوچ کو پیرول پر رہائی ملی۔ جیل سے رہائی کے بعد عزیر بلوچ کو پیپلز امن کمیٹی کی باگ ڈورسونپ دی گئی۔ اس پلیٹ فارم سے عزیر بلوچ نے سماجی کاموں کا آغاز کیا جس کے ذریعے عزیر بلوچ نے خود کو سیاسی شخصیت کے طور پر ابھارنا شروع کردیا۔2009 میں عبدالرحمٰن بلوچ عرف ڈکیت تین ساتھیوں سمیت ایس ایس پی چوہدری اسلم اور ان کی ٹیم سے مقابلے میں مارا گیا۔ لیاری میں عبدالرحمٰن بلوچ کی رسم چہلم پر عبدالغفار بلوچ عرف چھوٹا چھتری نے عبدالرحمٰن کی وصیت پڑھ کر سنائی جس کے تحت عزیر بلوچ کو لیاری کا نیا سردار بنا دیا گیا۔عزیر بلوچ نے تمام گروہوں کو یکجا کیا اور مخالفین کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ اس دور میں سندھ کی بڑی سیاسی جماعت نے پھر سردار عزیر بلوچ سے میل جول بڑھانے کی کوشش کی لیکن عزیر بلوچ نے دوستی کے لئے بڑھائے جانے والے ہاتھ کو جھٹک دیا۔ عزیر بلوچ کا یہ ہی عمل لیاری آپریشن کا سبب بنا اور آپریشن کا ٹاسک ایس ایس پی چوہدری اسلم کو ملا۔ آٹھ دن تک چلنے والے اس آپریشن میں لیاری کے معصوم باسیوں سمیت لیاری گینگ کے 54 کارندے پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے جبکہ آٹھ پولیس افسران اور جوان اپنی جان لٹا بیٹھے۔2012 میں پولیس نے عزیر بلوچ اور اس کے ساتھیوں پر کالعدم بلوچ لبریشن آرمی سے تعلق اور اسلحہ کی سمگلنگ کا الزام عائد کیا جو بی ایل اے کے گرفتار ملزم کے بیان کی روشنی میں عائد کیا گیا۔2013 میں لیاری کے ایک گینگ لیڈر ارشد عرف پپو کو بھائی اور ساتھی سمیت اغواکے بعد بے رحمی سے قتل کردیا گیا اور لاشوں کی بے حرمتی کے بعد انہیں جلاکر بہادیا گیا۔ ارشد پپو کے قتل میں عزیر بلوچ کو ملوث بتایا گیا ہے۔ارشد پپو قتل کیس میں عدالت عزیر بلوچ کو اشتہاری قرار دے چکی ہے۔سندھ کی بڑی سیاسی جماعت کی جانب سے اس دور میں بھی لیاری کے عوام اور سردار سے روابط استوار کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں اور وہ مشروط طور پر عزیر بلوچ کو منانے میں کامیاب ہوگئی،عزیر کا مطالبہ تھا کہ عام انتخابات میں ایم این اے اور ایم پی اے کا امیدوار لیاری سے ہی ہوگا جسے بڑی سیاسی جماعت نے قبول کیا اور انتخابات میں عزیر بلوچ کے نامزد کردہ دو امیدوار کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔کراچی آپریشن کے دوران عزیر کے گرد گھیرا تنگ ہوا تووہ پہلے بڑی سیاسی جماعت کی پناہ میں رہا اور پھر ملک چھوڑ گیا تھا۔

مزید :

کراچی -