نیند کیوں رات بھر نہیں آتی۔۔۔
کم خوابی ایک نفسیاتی مرض ہے اور منفی خیالات کے باعث لاحق ہوتا ہے
زلیخا اویس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب کسی شخص کو نیند بالکل ہی نہ آئے تو اسے ’’ خوابی کی کیفیت ‘‘ کہاجاتا ہے۔ اگر چند دن یہی کیفیت بدستور قائم رہے تو اس حالت میں جسم میں رطوبتوں کی تشکیل اور ان کے اخراج کا نظام بری طرح بگڑ جاتا ہے۔ کیونکہ بیداری کی حالت میں کام کاج، محنت ومشقت اور اعضاء کی حرکات وسکنات سے اندرونی رطوبت تحلیل ہوتی رہتی ہے جس سے تھکاوٹ ہونے لگتی ہے۔ نیند کی صورت میں تحلیل شدہ رطوبت کی کمی پوری ہوجاتی ہے اور انسان نیند کے بعد تروتازہ ہوجاتا ہے۔ کئی دن نیند نہ آنے سے مطلوبہ نیند نہ لینے سے یاپرسکون نیند نہ سونے کے باعث جسم میں تحلیل شدہ رطوبت کی کمی پوری نہیں ہوتی جس کی وجہ سے کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
دماغی خرابی (Mental Disturbance)
قبض (Constipation)
دست (Diarrhoea)
مرگی (Leprosy)
بے خوابی دراصل ایک نفسی وبدنی ( Psycho-Somatic) بیماری ہے، یعنی اس میں نفس (روح ذہن ) اوربدن ، دونوں مبتلاہوتے ہیں۔ اس خرابی کاآغاز ذہنی مسائل سے ہوتا ہے بعد میں جسمانی علامات کی شکل اختیار کرجاتی ہے۔ اس اعتبار سے بے خوابی کاعلاج ان عوامل کے تدارک سے ہونا چاہیے جوذہنی انتشار اور بے آرامی پیدا کرتے ہیں۔
کم خوابی ایک نفسیاتی مرض ہے جو مختلف سوچوں، اندیشوں اور منفی خیالات کے باعث لاحق ہوجاتا ہے اس کیفیت میں انسانی اعصاب میں تناؤ ذہن پر دباؤ غدودوں میں کھچاؤ پیداہوجاتا ہے۔ خون کی گردش میں بے قاعدگی پیداہوجاتی ہے۔ جدید میڈیکل ریسرچ اور نفسیاتی تحقیق اوردیگر سروے رپورٹوں نے ثابت کیا ہے کہ کم خوابی اور بے خوابی کے سبب انسانی جسم کے تمام تر نظام متاثر ہوتے ہیں۔ خاص طور پر دل ، دماغ ، معدہ جگر اور اعصاب پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ اعضائے رئیسہ پر کم خوابی یابے خوابی کے منفی اثرات کے علاوہ انسان کی قوت اعتماد ، قوت مدافعت اور قوت فیصلہ بھی کمزور پڑجاتی ہے۔ نیم خوابی اور بے خوابی کے باعث ڈپریشن ، وہم اور ہسٹریا جیسے عضایاتی اور نفسیاتی امراض بھی پیداہوجاتے ہیں۔ اگرچہ ماہرین ابھی تک صحیح طور پر معلوم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے کہ انسانی جسم کیلئے نیند کیوں ضروری ہے لیکن اس امر پر سب متفق ہیں کہ کم سونا یا نیند میں بے قاعدگی کسی بھی انسان کی ذہنی اور جسمانی کارکردگی کو بْری طرح متاثر کرتی ہے۔ اچھی نیند انسان کے مدافعتی نظام میں بیماری کے خلاف لڑنے کی صلاحیت کو برقرار رکھتی ہے اور ذہنی اعصابی نظام کو احسن طریقے سے کام سرانجام دینے میں مدد کرتی ہے۔
ذہنی اور جسمانی مستعدی کیلئے کتنی نیند درکار ہے؟ اس کا انحصار کئی عوامل پر ہوتا ہے مثلاً کام کی نوعیت وغیرہ۔شیرخوار بچے ایک دن میں سولہ گھنٹے تک سوسکتے ہیں۔ نوجوان بچوں کیلئے نو گھنٹے اور بالغ افراد کیلئے سات سے آٹھ گھنٹے کی نیند ان کی جسمانی ضروریات کے لحاظ سے کافی ہوتی ہے۔ معمر افراد کو اگرچہ اتنی ہی نیند کی ضرورت ہوتی ہے جتنی کہ ایک نوجوان بالغ بچے کو لیکن عموماً وہ مختصر وقفوں کیلئے سوتے ہیں اور بہت دیر تک گہری نیند کے مرحلے میں نہیں رہتے۔ 65 سال سے زائد عمر کے تقریباً پچاس فیصد بزرگ نیند کے کسی نہ کسی عارضے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
سونے کے معمولات میں کمی یا خلل کی بناء4 پر رونما ہونے والے عوارض کو تین بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔نیند کے دورانیے میں کمی‘ نیند کا بار بار ٹوٹنا یا دوران نیند بے چین رہنا وغیرہ۔
نیند کی کمی: انسومینیا کم سونا ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے لوگوں کی ایک کثیرتعداد متاثر ہوتی ہے۔ اس کی عام وجوہات کھانے پینے میں بے قاعدگی کا ہونا مثلاً (کیفین یا الکوحل کا زیادہ استعمال) اور ذہنی و جذباتی دباؤ شامل ہیں۔ بعض اوقات کوئی جسمانی تکلیف یا بیماری بھی نیند کے دورانیے میں کمی کا باعث بن جاتی ہے وجہ جو بھی ہو بہرحال یہ ایک ایسی کیفیت ہے جو کہ روزمرہ کے معمولات میں خلل ڈالنے کے ساتھ ذہنی اور جسمانی تھکاوٹ میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ انسومینیا سے ملتی جلتی دوسری کیفیت ایسی ہے جو نیند کے مطلوبہ گھنٹے پورے نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے‘ ایسے اشخاص کو نیند نہ آنے کا عارضہ لاحق نہیں ہوتا بلکہ متعدد عوامل کی بنا پر وہ مطلوبہ مقدار میں نیند نہیں لے پاتے۔ نیند کی یہ کمی قوت فیصلہ اور یادداشت میں کمی کے علاوہ ہاتھ اور آنکھوں کی حرکات میں ہم آہنگی اور قوت مدافعت کو بھی کمزور کردیتی ہے۔
دورانِ نیند بے چینی: دوران نیند سانس لینے میں بے قاعدگی کی وجہ سے نیند میں خلل پیدا ہوتا ہے اور اسی کی وجہ سے خراٹے لینے کا مسئلہ جنم لیتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے کا بڑا شکار وہ لوگ ہیں جو کہ خراٹے لینے کے عادی ہیں یہ کیفیت کسی کو بھی متاثر کرسکتی ہے لیکن موٹاپے میں مبتلا لوگ اس کا سب سے بڑا ہدف ہیں۔ عورتوں کی نسبت مرد حضرات کو یہ مسئلہ زیادہ درپیش ہوتا ہے جبکہ عورتوں کی ایک بڑی تعداد کو انسومینیا کا عارضہ لاحق ہوتا ہے بانسبت مردوں کے۔ دن کے اوقات میں زیادہ دیر سونے والے خواتین و حضرات دوران نیند بے چینی اور خلل کا سامنا کرسکتے ہیں۔ سونے میں چلنا‘ باتیں کرنا اور ڈر کر چلنا بھی نیند کے نظام میں بے ضابطگیوں کو ظاہر کرتا ہے خاص طورپر نیند میں چلنے کی بیماری خاصی خطرناک ہوسکتی ہے کسی بھی حادثہ سے بچنے کیلئے اس طرح کے مریضوں کا بروقت علاج بہت ضروری ہے۔
گہری اور پرسکون نیند کیسے حاصل کی جائے؟
نیند کے خصوصی ماہرین ان تمام مریضوں کیلئے چند تجاویز پیش کرتے ہیں جوکہ نیند سے متعلق مختلف عوارض میں مبتلا ہیں۔
اپنا ایک نظام الاوقات مقرر کرلیجئے اسی کے مطابق ہر روز سونے اور جاگنے کو اپنا معمول بنائیں حتیٰ کہ چھٹی کے دنوں میں بھی اسی پر عمل کریں۔ * ہر روز ورزش کریں لیکن سونے سے پہلے ورزش سے گریز کیجئے۔ ورزش کا بہترین وقت صبح اور سہ پہر کا ہے تاہم رات کے کھانے کے بعد ہلکی چہل قدمی معدے کو بوجھل ہونے سے بچاتی ہے۔ *چائے، کافی، سگریٹ نوشی اور الکوحل سے پرہیز کریں۔ ایسی اشیاء جن میں کیفین موجود ہو ان کا استعمال ہونے سے کم از کم چھ گھنٹے قبل کرلینا چاہیے تاکہ دوران خون میں ان کے اثرات کم ہوجائیں۔ *اپنے آپ کو پرسکون کرنے کیلئے سونے سے پہلے کچھ ایسے معمولات اپنالیں جو کہ نیند لانے میں مددگار ہوں مثلاً گرم پانی سے غسل کرنا یا کسی اچھی سی کتاب کا مطالعہ کرنا مفید ہوسکتا ہے۔ * سونے کے کمرے کو آرام دہ بنائیے‘ بہت ٹھنڈا یا گرم کمرہ بھی نیند خراب کرنے کا باعث بنتا ہے۔ * بیڈ روم سے ٹی وی اور کمپیوٹر اٹھادیجئے جب آپ کو نیند آرہی ہو تو زبردستی اپنے آپ کو مت جگائیے۔ * اپنے آپ کو روشنی کی موجودگی میں جاگنے کا عادی بنائیں۔ اْٹھتے ہی کمرے کے پردے یا بلائنڈ ہٹادینے سے ٹائمر کلاک اپنے آپ کو اس روشنی کے مطابق سیٹ کرتا ہے اور اندھیرا ہوتے ہی یہ آپ کے دماغ کو سونے کے پیغامات بھیجنا شروع کردیتا ہے۔
* نباتاتی بوٹیاں یا خوشبوؤں سے علاج بھی انسومینیا کے مریضوں کے علاج میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
کئی لوگ جنہیں نیم خوابی یابے خوابی کی شکایت ہوتی ہے جونفسیاتی کلینک کا رخ کرتے ہیں۔ وہاں خاص سائنسی اور نفسیاتی طریقوں اور مخصوص حالات کے تحت ایسے لوگوں کے ذہن میں ٹھہراؤ اور سوچوں کے سلسلہ کوایک سکوت مہیاکیاجاتا ہے اور ایسی مصنوعی کیفیات پیداکی جاتی ہیں کہ مریض سوجاتا ہے اور بیدار ہونے کے بعداپنے جسم میں تازگی اور ذہن میں ہلکا پن محسوس کرتا ہے۔ بعض نفسیاتی طریقوں کے تحت ایسے لوگوں سے جسمانی ورزش کرائی جاتی ہے، جسم کو تھکا کرسلانے کے عمل میں آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔
بعض نفسیاتی طریقے ایسے ہیں جن کے تحت مخصوص عمل کے ذریعے ذہنی لہروں کے ارتعاش سے مریض کے ذہن کوسہلاکرہیپناٹائزکیاجاتاہے اور اسے ذہنی طور پر مرتکز کرکے ایک طرف تو اس پر نیند طاری کی جاتی ہے اور متوازی طور پر نیم خوابی کی کیفیت میں ا س کے ذہن سے لاشعوری منفی خیالات مکالے جاتے ہیں۔ اس کے بعد بتدریج مثبت خیالات بیدارکیے جاتے ہیں اور پھر نیند کی مخصوص لہریں پیدا کی جاتی ہیں اور اس طرح دودفعہ کے ذہنی ٹھہراؤ کے دورانیہ کے اثنا میں جو کچھ کہاجاتا ہے وہ مریض کے لاشعور کا حصہ بن جاتا ہے۔
مسلسل بے خوابی اور بیداری کی کیفیت انسانوں کے لیے خطرناک حدتک مضر ہے۔ بے خوابی کے باعث جسم کے وزن میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ قدرتی حرارت بدنی کم ہوجاتی ہے۔ شورین اور فاسفورس کی مقدار زیادہ خارج ہوجاتی ہے۔ ابتداََ میں نظام عضلی اور پھر نظام عصبی کا ردعمل اور فعالیت سست پڑ جاتی ہے۔ بینائی میں واضح طور پر کمی واقع ہوجاتی ہے۔ حواس خمسہ کی حساسیت کے معیار میں فرق آنے لگتا ہے۔
قدرت کے نظام میں رات آرام کیلئے بنائی گئی ہے سونے کے وقت سونا اور علی الصبح جاگنا ذہنی اور جسمانی مستعدی کیلئے بہت ضروری ہے۔ نظام قدرت سے انحراف مت کیجئے۔ راتوں کو بلاوجہ جاگ کر اس نظام کو بغاوت کا موقع مت دیں۔ بصورت دیگر آپ بھی ان لوگوں میں شامل ہوسکتے ہیں جن کے حصے میں بے خواب راتیں آتی ہیں۔
***