جس نے توبہ کرنی ہے ہمارے سامنے آئے، چیف جسٹس

جس نے توبہ کرنی ہے ہمارے سامنے آئے، چیف جسٹس
جس نے توبہ کرنی ہے ہمارے سامنے آئے، چیف جسٹس

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ وکیل اپنے موکل کی طرف سے توبہ نہیں کرسکتا جس نے توبہ کرنی ہے ہمارے سامنے آئے۔
آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نا اہلی کی مدت کے تعین کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ مکمل آزاد ہے اوراندرونی طورپربھی آزاد ہے۔ توبہ کاطریقہ بھی موجود ہے، پہلے غلطی اور گناہ کا اعتراف کرنا ہوگا عوام کے سامنے بد دیانتی کا اعتراف کرنا ہوگا۔ وکیل اپنے موکل کی طرف سے توبہ نہیں کرسکتا جس نے توبہ کرنی ہے ہمارے سامنے آئے۔
وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ آرٹیکل 62، 63 کو ملا کر پرکھا جائے ، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نا اہلی ایک ٹرم کیلئے ہوگی، نا اہل قرار دیا گیا شخص اگلاضمنی الیکشن لڑسکتاہے۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ جب تک ڈیکلریشن موجود رہے گا بد دیانتی بھی رہے گی۔وکیل نے کہا کہ ڈیکلریشن کاغذات نامزدگی کے وقت کردار سے متعلق ہوگا۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہی جائزہ لیناہے کہ ڈیکلریشن کااطلاق کب تک ہوگا ، کسی کو بد دیانت قرار دیا گیا تو 5 روز بعد وہ دیانتدار کیسے ہوگا؟۔ وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ توبہ کاتصوربھی موجود ہے جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا نا اہلی کے مقدمات میں توبہ گالیاں دے کرہوگی، کیا سر عام برا بھلا کہہ کر توبہ ہوسکتی ہے؟۔