زکریا یونیورسٹی: طالبات کی غیر اخلاقی ویڈیوز، بلیک میلنگ، پروفیسر، طالبعلم گرفتار، 70 فلمیں برآمد
ملتان (ویب ڈیسک) بہاﺅ الدین زکریا یونیورسٹی کی طالبہ کو جنسی طور پر ہرساں کرنے کا الزام ویڈیوز کے ذریعے ثابت ہونے کے بعد ایک طالبہ (م) کی درخواست پر کئی ماہ بعد بالآخر تھانہ الپہ پولیس نے ایک ملزم علی رضا قریشی جوکہ قبضہ مافیا کے سرگرم رکن اختر عالم قریشی کا بیٹا اور تاجر شاہد عالم قریشی کا بھتیجا ہے‘ کو گرفتار کرکے تھانے میں مہمان بنالیا اور رات گئے تک تمام پولیس اس کوشش میں رہی کہ مظلوم طالبہ کے ساتھ صلح صفائی ہوجائے اور مقدمہ درج نہ ہو تاہم رات گئے پولیس نے ویمن کرائسز سنٹر ملتان میں مقدمہ درج کرکے یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر اجمل مہاراور اختر عالم قریشی کے یونیورسٹی کے طالب علم بیٹے علی رضا قریشی کو باضابطہ طور پر گرفتار کرلیا تاہم حیران کن امر یہ ہے کہ سی پی او ملتان سرفراز احمد فلکی کو اس کیس بارے علم ہی نہ تھا اور جب روزنامہ خبریں نے رات 8بج کر 47منٹ پر ٹیلی فون نمبر 0300-4780056 سے سرفراز احمد فلکی کے نمبر 0333-4040400 پر کال کی تو انہوں نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کسی واقعہ کا علم ہی نہیں اور یہ بات بھی آپ کے ذہن میں رہے کہ روزانہ درجنوں پرچے درج ہوتے ہیں ضروری نہیں کہ ہر مقدمہ میرے علم میں لایا جائے جس پر ان سے کہا گیا کہ اہم مقدمات بارے سی پی او کو علم نہ ہو یہ بات ناقابل یقین ہے تو انہوں نے کہا کہ ابھی تک تو میرے علم میں نہیں مقدمہ درج ہوگا تو پتہ چل جائے گا ویسے بھی اس قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ سرفراز فلکی کے واضح بیان کے بعد جب روزنامہ خبریں نے ایس ایچ او الپہ انسپکٹر ظہیر بابر سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ پروفیسر اجمل مہار اور علی رضا قریشی گرفتار بھی ہوچکے ہیں اور انہیں ویمن کرائسز سنٹر میں رکھا گیا ہے جہاں ان سے تفتیش جاری ہے اور مقدمہ بھی وہیں درج کیا گیا ہے تاہم رات گئے تک سی پی او ملتان اس مقدمے پر پردہ ڈالتے رہے جس کی تفصیلات جناب ضیا شاہد چیف ایڈیٹر ”خبریں“ نے چینل۵ پر اپنے پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں 8بج کر 30منٹ پر بیان کردیں اور جو دیگر چینلز پر بھی 9بجے کے خبرنامے میں آن ایئر ہوگئیں مگر اس کے باوجود سی پی او سرفراز احمد فلکی پردہ پوشی میں مصروف رہے۔ اس گھنانے کھیل کی متعدد ویڈیوز روزنامہ خبریں کے پاس محفوظ ہیں جس میں یونین ناظم اختر عالم قریشی کا بیٹا علی رضا قریشی جوکہ خود اسلحہ کے کاروبار میں ملوث رہا ہے اور یونیورسٹی میں منشیات فروشی کے الزامات بھی اس پر تھے۔ یہ ہر وقت مسلح رہتا تھا اور اس کی گاڑی میں اسلحہ و منشیات کے علاوہ شراب موجود رہتی تھی جبکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس کی شراب اور منشیات کا سٹاک پروفیسر ڈاکٹر اجمل مہار کے دفتر اور گھر میں موجود رہتا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ دونوں لڑکیوں کو ورغلاتے اور دھمکیاں دیتے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی کی کئی طالبات کو بے آبرو کیا اور پھر موبائل سے ان کی برہنہ ویڈیو فلمیں بھی بنارکھی تھیں۔ علی رضا قریشی اتنی دیدہ دلیری اختیار کرچکا ہے کہ جن طالبات کی غیراخلاقی ویڈیو بناتا انہیں واٹس ایپ بھی کردیتا۔ اس کی گفتگو کی ریکارڈنگ بھی موجود ہے اور 70سے زائد فحش فلمیں بھی اس کے موبائل سے برآمد ہوئی ہیں جنہیں پولیس نے ریکارڈ میں رکھ لیا ہے اور ان فلموں میں کئی طالبات شناخت کی جاسکتی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ علی رضا قریشی اور پروفیسر اجمل مہار کی جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی طالبہ ان دونوں کو اپنے موبائل نمبر سے بلاک کردیا اور ان کے نام ڈیلیٹ کردیئے جس پر علی رضا نے کسی دوسرے نمبر سے اس کی فلم اس بچی کو بھجواکر فون ریکارڈنگ پر غلیظ گالیاں اور دھمکیاں دیں تو اس طالبہ نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ پروفیسر ڈاکٹر اجمل مہار نے اسے اپنی بیگم سے ملوانے کے لئے کھانے پر گھر بلایا اور کہا کہ مزید طالبات بھی آرہی ہیں پھر انہوں نے جن طالبات کے نام بتائے کہ وہ بھی آرہی ہیں ان کو اپنے کمرے میں بٹھاکر ان کے فون بند کروادیئے۔ متاثرہ لڑکی نے اپنی سہیلیوں سے رابطہ نہ ہونے پر پروفیسر اجمل مہار کے گھر کی راہ لی تو فوری طورپر علی رضا قریشی ان کے گھر پہنچ گیا جہاں تھوڑی دیر بعد پروفیسر اجمل مہار بھی آگئے اور انہوں نے مل کر طالبہ کو نہ صرف جنسی طور پر ہراساں کیا بلکہ اس کے جسم کو زخم لگاکر خون بھی نکالا جوکہ بستر کی چادر پر صاف نظر آرہا ہے تاہم اخلاقیات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت سی تصاویر اور سین ڈیلیٹ کردیئے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ علی رضا قریشی کا ایف اے اور بی اے کسی دوسرے طالب علم نے اس کی جگہ امتحان دے کر پاس کروایا اور اس کی مادری زبان روہتکی ہے مگر کہیں بھی داخلہ نہ ملنے پر اس کو پروفیسر اجمل مہار نے سرائیکی ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ دلوادیا۔ بتایا گیا ہے کہ مظلوم طالبہ نے سب سے پہلے اس ظلم کے خلاف اپنی کلاس کی دیگر طالبات کو بتایا اور انہیں ساتھ لے کر ڈین کے پاس گئیں پھر اس طالبہ نے وائس چانسلر سے بھی مدد کی درخواست کی مگر وائس چانسلر نے پردہ ڈال دیا جس پر کئی ماہ دھکے کھانے کے بعد متاثرہ طالبہ نے ایس پی گلگشت عمران جلیل سے اپنے والد کے ہمراہ ملاقات کی مگر وہ بھی لیت و لعل سے کام لیتے رہے اور کہا کہ ملزم کا والد شہر کا معزز آدمی ہے ہم تحقیقات کریں گے پھر کارروائی ہوگی۔ اس دوران ملزم علی رضا نے اس کی غیراخلاقی ویڈیو اس کی ایک سہیلی کو واٹس ایپ کردی جس نے ایک پولیس آفیسر کو بھجوادی مگر پھر بھی نتیجہ نہ نکلا۔ پولیس نے علی رضا قریشی کا موبائل قبضے میں لیا مگر اس سے قبل ہی ایک طالب علم کے ذریعے یہ ویڈیو روزنامہ خبریں کے رپورٹر کے پاس پہنچ گئی جس پر ”خبریں“ نے تحقیقات شروع کیں تو رات گئے تک پولیس لیت و لعل سے کام لیتی رہی تاہم رات گئے ویمن کرائسز سنٹر میں مقدمہ درج کرلیا گیا اور بتایا گیا ہے کہ ملزم کے قبضے سے 70سے زائد فحش ویڈیوز برآمد ہوچکی ہیں جو تمام کی تمام علی رضا قریشی ہی کی ہیں تاہم ان میں لڑکیاں مختلف ہیں اور صاف پتہ چلتا ہے کہ لڑکیاں خوف اور پریشانی کا شکار ہیں۔