شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 18
چار بلائیں
قیام پاکستان کے بعد ہندوستان کے بعض علاقوں میں جو ہنگامے ہوئے، ریاست بھوپال بھی ایک حد تک ان سے متاثر ہوئی۔ مشرقی پنجاب، دہلی، بہار اور دوسرے علاقوں کے لٹے پٹے مسلمانوں کی کچھ تعداد نے پاکستان جانے کے بجائے ان اسلامی ریاستوں کا رُک کیا، جنہوں نے اپنے مستقبل کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا۔
حیدر آباد دکن اور بھوپال کی ریاستوں کو مسلمانوں میں ایک خاص مقام حاصل تھا کیونکہ یہ برصغیر کی سب سے بڑی اسلامی ریاستیں تھیں۔ حیدر آباد تو خیر بہت بڑی اور متمول ریاست تھی لیکن بھوپال نسبتاً چھوٹی ریاست ہونے کے باوجود جس قدر مسلمانوں کی پرورش کرتی تھی اس کی مثال ممکن نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ فساد زدہ مسلمانوں کی بڑی تعداد بھوپال آکر پناہ گزیں ہوئی کیونکہ ان کا خیال تھا اور خود ریاست کے حکام کو بھی اس کا یقین تھا کہ تقسیم ہند کے بعد بھوپال خود مختاری کا اعلان کردے گا۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 17 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ریاست بھوپال میں اس وقت تک ہندوؤں اور مسلمانوں کے تعلقات بہت خوشگوار تھے۔ اسلامی ریاست ہونے کے باوجود یہاں ہندوؤں کی اکثریت تھی، لیکن ہندو رعایا بھی بھوپال کے اعلان خود مختاری کی متمنی اور ہندوستان سے الحاق کے خلاف تھی۔ ریاست کی مسلم لیگ اور کانگریس دونوں جماعتوں کے سربراہوں نے فرمانروائے بھوپال سے بار بار اصرار کیا کہ وہ خود مختاری کا اعلان کردیں لیکن نواب بھوپال حمید اللہ خان مرحوم بہت عاقبت اندیش آدمی تھے۔ انہوں نے وہی کیا جو ایک عقلمند حکمران کرسکتا تھا۔
غرضیکہ ریاست بھر میں ایک تذبذب کیفیت کا دور دورہ تھا۔ ریاست میں تو امن وامان تھا، لیکن اردگردکی فضا بہت مکدر تھی اور کسی مسلمان کا ریاست کی حدود سے نکلنا موت کو دعوت دینا تھا۔ ایسی حالت میں سیر و شکار پر طبیعت کیا اور آمادہ ہوتی۔ میں خود ایک تذبذب کے عالم میں تھا۔ نواب صاحب سے ملاقات کے دوران میں مَیں نے ان کا عندیہ معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بھی ٹال گئے اور کوئی واضح بات نہیں ہوسکی۔
ادھر کراریہ سے برابر اطلاعات مل رہی تھیں کہ چار شیروں نے اس علاقے میں اُدھم مچارکھا ہے۔ سب کے سب آدم خور اور بلا کے چالاک۔۔۔ ایک شیر کے آدم خور ہوجانے سے دور دور تک آفت آجاتی ہے، بیک وقت چار شیروں کی آدم خوری سے کیسی تباہی مچی ہوگی؟
کراریہ کا گاؤں، منصب علی صاحب کی جاگیر میں شامل تھا، جو بھوپال کی ایک سابق حکمران نواب سلطان جہاں بیگم کے پرائیویٹ سیکرٹری رہ چکے تھے۔ کراریہ میں پندرہ بیس سے زیادہ گھر نہیں اور پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ میل تک چاروں طرف دو دو چار مکانات کی آبادیوں کے علاوہ کوئی بڑی آبادی نہیں اور یہ چند گھروں پر مشتمل آبادیاں ایک دوسرے سے چار چھ میل کے فاصلے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ان آبادیوں کے غریب کاشتکار آدم خور شیروں کا شکار ہورہے تھے۔
کئی اموات کی اطلاعیں تو مجھے پہنچی ہی نہیں۔ کچھ پولیس والوں نے دبادیں، کچھ جو میرے علم میں آئیں وہ بھی مقامی اخبار کے ذریعے۔ مَیں سیاسی حالات سے تنگ آگیا تو ان خبروں پر غور کرنا شروع کیا اور جیسے جیسے ان پر غور کرتا ویسے ویسے میری دلچسپی اور ساتھ ہی ساتھ الجھن میں اضافہ ہوتا جاتا۔ الجھن اس لئے کہ بیک وقت ان چار شیروں کے آدم خور ہوجانے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی تھی۔
ادھر میرے والدین اس زمانے میں شکار کے خلاف تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان مخدوش حالات میں مَیں ان کے پاس ہی رہوں۔ وہ ابھی یہ فیصلہ نہیں کرپائے تھے کہ ہمیں دکن جانا چاہیے، بھوپال میں رہنا چاہیے یا پاکستان ہجرت کرنا چاہیے۔ بہرحال میں نے کسی نہ کسی طرح انہیں مناہی لیا او رکراریہ جانے کا انتظام کرنے لگا۔ وہ لوگ مجبوراً چپ ہورہے۔
آغاز سرما کی ایک دلکش شام تھی۔ جب میں کراریہ پہنچا اور منصب علی مرحوم کے مہمان خانے میں ٹھہرا۔ جو ان دنوں ان کے ورثا کے قبضے میں تھا۔ یہاں دس بارہ روز سے تین انگریزوں کی ایک شکاری پارٹی پہلے ہی ٹھہری ہوئی تھی۔ ان لوگوں کو اب تک ان آدم خوروں کا دیدار بھی نصیب نہیں ہوا تھا تاہم وہ اپنے تئیں خود دنیا کے عظیم ترین شکاری تھے۔ میرے وہاں پہنچتے ہی وہ مجھ سے ملنے کے لئے آئے۔ ان کے چہروں پر تضحیک آمیز تبسم تھا۔ انہوں نے اپنی کوششوں کا اجتمالی تذکرہ کیا اور پھر معافی مانگنے کے بعد کہنے لگے، اگر آپ برا نہ مانیں تو ہم کچھ نصیحت کریں۔
’’میں قطعی برا نہ مانوں گا۔ ضرور کیجئے‘‘ میں نے کہا۔
’’آپ نوعمر ہیں اور ظاہر ہے کہ اتنا تجربہ نہیں رکھتے جتنا کہ ہم تینوں‘‘
’’یہ آپ کا وہم ہے۔ خیر، آگے کہیے‘‘ میں بولا۔
’’بہتر یہ ہے کہ آپ واپس چلے جائیں‘‘
’’میں تو ان شیروں کو شکار کرنے کی نیت سے آیا ہوں‘‘
’’ان چاروں کو ہم اپنے ڈرائنگ روم کی زینت بنائیں گے‘‘
’’ایسا ہوا تو اچھا ہی ہے میں آپ کی کامیابی کی دعا کرتا ہوں‘‘
’’شکریہ میرے خیال میں یہ بہتر ہوگا کہ آپ بھی ہماری پارٹی میں شریک ہوجائیں‘‘ ایک شکاری بولا
’’نہیں ایسا ممکن ہیں۔۔۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’کیوں؟‘‘
’’کیونکہ میں شکار میں شرکت کا قائل نہیں۔۔ میں تنہا شکار کرتاہوں۔‘‘
جب وہ تینوں رخصت ہوئے، تب بھی ان کے چہروں پر وہ تضحیک آمیز تبسم تھا۔ بہرحال میں نے وہاں اپنی موجودگی غیر ضروری خیال کی کیونکہ میں جنگل میں جاکر کسی دوسرے کی غلطی سے اپنا نقصان کرنا پسند نہیں کرتا۔ علاوہ ازیں ان انگریزوں کے سر میں یہ سودا بھی سمایا ہوا تھا کہ کوئی ملکی آدمی نہ اچھا شکاری ہوتاہے نہ ان جیسی عقل و فہم کا مالک۔(جاری ہے )