ون ڈے سیریز میں شکست،ذمہ دار کھلاڑی یابورڈ؟
افریقہ نے پاکستان کو آخری ون ڈے میچ میں سات وکٹوں سے شکست دے کر پانچ میچوں کی سیریز میں کامیابی حاصل کر لی ،اس سیریز میں کامیابی کے لیے افریقہ نے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے شاہینوں کو ناکوں چنے چبوائے اور پاکستانی بیٹسمینوں کی خامیوں سے بھر پور فائدہ اٹھاتے نظر آئے جبکہ شاہینوں کو میچ جیتنے سے زیادہ اپنی پرفارمنس کی فکر لاحق رہی،مین آف دی سیریز امام الحق نے پوری سیریز میں اچھا پرفارم کیا اور اس ایوارڈ کے حقدار ٹھہرے مگر اہم میچ میں پرفارم نہ کر کے انہوں نے یہ ثابت کیا کہ ہمارے بلے باز ابھی بھی اپنی اُسی پرانی ڈگر پر چل رہے ہیں جس پر ہمارے سابقہ بلے باز چلتے آئے ہیں ،
فخر زمان ،بابر اعظم بھی اسی خا می کا شکار نظر آتے ہیں ہمارے ہیڈ کوچ آج تک کھلاڑیوں کو اہم میچ میں ذمہ داری سے کھیلنے کی تلقین نہیں کرتے دکھائی دیے اسی لیے اتنے اہم میچ میں کھلاڑی ’’تو چل میں آیا‘‘ کی پرانی روش پر چلتے نظر آئے ،اس میں قصور کھلاڑیوں کا نہیں بلکہ ہمارے کرکٹ بورڈ کا بھی ہے جو ملکی کھلاڑیوں کے لیے غیر ملکی ہائی کوالیفائیڈ کوچ کو ہائر کر کے کھلاڑیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے پر بضد دکھائی دیتے ہیں جاوید میاں داد،محسن حسن خان،وقار یونس،وسیم اکرم،انضمام الحق ،مشتاق احمد،ثقلین مشتاق،سعید انورجیسے مایہ ناز کھلاڑی اپنے ملک میں ہی اس نوکری کے منصب پر فائز نہیں ہو سکتے حالانکہ جو کام مکی آرتھر کر رہے ہیں وہی کام وقار یونس،
محسن حسن خان بھی کر چکے ہیں ،ہمارے موجودہ بلے باز انہی کے دور کا نیا خون تھے اب مزید نیا خون تلاش کرنے کے چکر میں ہمیں غیر ملکی کوچز کی ضرورت پیش آنے لگی ،ایسی بات نہیں کہ مکی آرتھر کی صلاحیتوں پر شک کیا جا رہا ہے ان کا اپنے طریقے سے ٹیم کو ہینڈل کرنا ٹھیک ہے مگر ہمارے کھلاڑی شاید اتنے کوالیفائیڈ کوچ کے قابل نہیں یا یوں کہہ لیں کہ سمجھنے کے قابل نہیں ۔
سرفراز احمد پاکستان کا روشن ستارہ ہیں اور اس ستارے کے کریڈٹ پر بے شمار کامیابیاں ہیں مگر ان کامیابیوں کے پیچھے ان کی اپنی پرفارمنس شاید کہیں روٹھ گئی ہے اسی لیے انہیں خود اس بات کا فیصلہ کر لینا چاہیے کہ ٹیسٹ فارمیٹ کی اضافی کپتانی سے جان چھڑا کر بطور کھلاڑی اس فارمیٹ میں اپنا حصہ ڈالیں اور اپنا پورا فوکس ون ڈے اور ٹی توئینٹی کی قیادت پر رکھے اس سے ان پر ذہنی دباؤ میں کمی آئے گی اور پرفارمنس میں بہتری آئے گی اور اگر کرکٹ بورڈ شعیب ملک ،محمد حفیظ کو باعزت رخصت کرنے پر آمادہ ہے تو ورلڈ کپ کے لیے دونوں کھلاڑیوں میں سے ایک کو کپتانی سونپ کر انہیں اپنے آخری ورلڈ کپ کو یادگار بنانے کا موقع دینے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے،
کیونکہ ان کے بعد سرفراز ہی کی آپشن موجود ہو گی اور اس کا وہ تجربہ بھی رکھتے ہیںآج پاکستان بمقابلہ افریقہ کی ٹیمیں پہلے ٹی توئینٹی میں آمنے سامنے ہوں گی شاہین ون ڈے سیریز کی شکست سے سیکھتے ہوئے اس سیریز میں کامیابی کے لیے ایک ہو کر کھیلیں گے تو کامیابی ان کے قدم چومے گی اس کے لیے تمام کھلاڑیوں کو اپنے نئے کپتان شعیب ملک کی صلاحیتوں پر یقین رکھتے ہوئے ان کے تجربے سے فائدہ اٹھانا ہو گا اور مل کر افریقہ کا شکار کرنے کے لیے کھلاڑیوں کو دو سیریز کی شکست کو سامنے رکھتے ہوئے اس سیریز میں سر ڈھڑ کی بازی لگانا ہو گی